ماؤں کے وجود سے ہے کائنات کی رونق

جب ﷲ تعالیٰ نے ماں کا دل بنایا تو ساری کائنات سے بھی زیادہ اس کے دل میں وسعت دی اور پھر اسی وسعت کی مقدارکے برابر اس کے دل میں محبت بھر دی اس کی ممتا میں دنیا بھر کے پھولوں کی خوشبو رچا دی ۔ دنیا کی تمام ، ایجادات ، کامیابیاں اور تخلیقی شاہکار اگر ماؤں کے قدموں میں نچھاور کر دئیے جائیں ، دنیا بھر کا سونا، چاندی، ہیرے، جواہرات، دولت ، پیسہ اگر ماؤں کے قدموں میں ڈھیر کر دیا جائے ، دنیا کے تمام تخت و تاج، حکومتیں اگر ماؤں پر قربان کر دی جائیں، دنیا کے شاعروں کے تمام کلام کو اگر ماؤں سے منسوب کر دیا جائے ، سب کچھ جی ہاں اگر سب کچھ ماؤں پر لٹا دیا جائے تب بھی ماؤں کے ایک دن ایک رات کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ ماؤں کی بولی خواہ وہ دھلی، دکن یا لکھنؤ کے شستہ اور ادبی لہجے میں ہو یا وہ پنجاب کے سرسوں کے ساگ، مکھن اور لسی کی خوشبو میں رچی ہوئی ہو یا پھر خیبر کے جذبۂ عزم و ہمت کی مٹی سے گندھی ہوئی ہو یا پھر سندھ کے جذبۂ محبت ، مروت اور وفا کی مہک لئے ہو یا پھر بلوچستان کی سنگلاخ چٹانوں کی عزیمت کی داستانیں لئے ہوئے ہو ماؤں کی ان تمام بولیوں ، زبانوں میں ایک مشترکہ خصوصیت ہے اور وہ ہے اپنی اولاد کے لئے بے پناہ محبت اس ارض پاک کی کروڑوں مائیں آدھی رات کو اٹھ کر تہجد میں اپنے بچوں کی سلامتی کے لئے دعائیں مانگ رہی ہوتی ہیں۔ وہ معصوم اور بے گناہ لوگ جو بم دھماکوں میں مارے جاتے ہیں، دہشت گردی کا شکار ہو جاتے ہیں، سیاسی چپقلش اور لسانی فسادات کا ترنوالہ بن جاتے ہیں ، وہ نوجوان جنہیں موبائل فون چھیننے پر گولیوں کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے ، وہ معصوم لوگ جنہیں ڈرون حملوں کے ذریعے عالمی دہشت و بربریت کے خونی کھیل میں کھلونا سمجھ کر صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے ، وہ نوجوان جنہیں فرقہ واریت کی آگ کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے ان سب کی مائیں جدا جدا ہیں لیکن ان سب کا درد، دکھ مشترکہ ہے ۔ جن ماؤں سے ان کے جگر گوشے چھینے گئے ہیں وہ زندہ لاشیں بن گئی ہیں۔ ارے موٹر سائیکل کو ایف سولہ سمجھ کر لاپرواہی سے سڑکوں پر حادثات کا شکار ہو کر اپنا لہو پیش کرنے والے نوجوانو! کاش ﷲ تعالیٰ تمھیں چند لمحوں کے لئے ہی سہی ماں کا دل دے دے تا کہ تم ماؤں کے درد اور ان کے دکھ سے واقف ہو سکو۔ راتوں کو دیر سے گھر آنے والے نوجوانو! تمہاری ماؤں کی آھوں اور فریاد سے ان کے آنسوؤں سے ﷲ کا عرش بھی کانپنے لگتا ہے تم پر اس کا اثر کیوں نہیں ہوتا؟۔ مائیں جب قبروں میں جا کر گہری نیند سو جاتی ہیں تو پھر احساس ہوتا ہے کہ جب تک زندہ تھیں ہماری خاطر ، ہماری سلامتی کی خاطر راتوں کو جاگتی رہتی تھیں، اپنی نیندیں قربان کر دیتی تھیں ، ہمیں زبردستی سلاتی تھیں۔ اولاد کو جب ڈر لگتا ہے تو ماں کا سینہ دنیا کا سب سے محفوظ قلعہ بن کر اولاد کی حفاظت کرتا ہے جب بچوں کو ڈر لگتا ہے تو ماں آیت الکرسی پڑھ کر پھونک دیتی ہے اور اپنے بچوں کی حفاظت کے لئے خود جاگتی رہتی ہے ۔
ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا ڈر لگتاہے مجھے

یہ مائیں ہی ہوتی ہیں جو ہمارے نخرے برداشت کرتی ہیں ، ہم روٹھ جائیں تو ہمیں مناتی رہتی ہیں، ہمیں خود سر اور ضدی بنا دیتی ہیں، خود بھوکی رہتی ہیں ہمیں کھلاتی ہیں، خود سادہ موٹا جھوٹا پہنتی ہیں ہمیں اپنی بساط سے زیادہ بہتر لباس پہناتی ہیں اپنی جائز اور ضروری خواہشات کو قربان کر کے ہمیں تعلیم دلاتی ہیں، اپنی دعاؤں کی حفاظتی چادر ہر وقت چھتری بنا کر ہمارے سروں پر تان دیتی ہیں، ہم واپس خواہ کتنی ہی دیر سے آئیں دروازے پر ہماری منتظر ہوتی ہیں، ہمارے بغیر کھانا نہیں کھاتیں ، ہماری پسند ناپسند کا خیال رکھتی ہیں، ہمارا ماتھا چوم کر دعائیں دیکر ہمیں اسکول ، کالج اور پھر دفتر کے لئے رخصت کرتی ہیں، ہمارے بچوں سے بھی خوب پیار کرتی ہیں، ہمارے گھروں کو اپنے پیارے وجود کی برکتوں سے بھر دیتی ہیں لیکن اف خدایا کیا قیامت خیز دن ہوتا ہے جب یہ مائیں ہمیں ہمیشہ چھوڑ کر چلی جاتی ہیں،خاموش ہو جاتی ہیں ہمارے آنسوؤں اور التجاؤں کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا، وہ آنکھیں نہیں کھولتی،ہماری طرف مسکرا کر نہیں دیکھتیں، تب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہمارا سب کچھ جی ہاں سب کچھ ہی تو چھن گیا۔ پھر دل سے صدا اٹھتی ہے کہ اے خدا ہماری ساری کامیابیاں ، ہمارے سارے اثاثے ہم سے لے لے ہمیں ماں واپس کردے لیکن مائیں پھر واپس نہیں آتیں، پھر ساری زندگی رمضان کے مہینوں میں عیدین کے دنوں میں بہن بھائیوں کی خوشیوں کے موقع پر مائیں بہت یاد آتی ہیں، جب زمانہ بہت ستاتا ہے ، تنگ کرتا ہے ، ظلم و زیادتی کرتا ہے تو مائیں بہت یاد آتی ہیں پھر اک تمنا دل میں مچلتی ہے کہ صرف ایک بار ایک بار ماں دوبارہ آجائے اس کی گود میں سر رکھ کر ایک مرتبہ اس سے التجا کر کے اپنے ماتھے پر اک پیارلے لیں لیکن ایسا ممکن نہیں ہوتا۔

یہ تحریر جب میں لکھ رہا ہوں تو اپنی سیدھی سادھی ، مہمان نواز ، با حیا دین دار ماں بہت یاد آرہی ہے ۔آنسو ہیں کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے اک سیل رواں ہے جو جاری ہے ۔ ایبٹ آباد کے خوبصورت اور سرسبز گاؤں کوٹھیالہ کے بخاری سید خاندان کی معزز خاتون سیدہ گل فردوس نے کسی مکتب، کسی اسکول ، کسی کالج یا کسی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل نہیں کی لیکن اس کی سخاوت ، محبت ، مروت، وطن دوستی ، اسلام پرستی کی خوشبو نے میری شخصیت کی تعمیر کی اور مامتا کے مکتب اور اس کے چہرے کے صفحات پر جو تحریریں میں نے محسوس کیں وہ دنیا کی تمام لائیبریریوں اور جامعات پر بھاری ہیں۔ والدہ محترمہ کی مادری زبان ھندکو تھی انہیں ھندکو کے بہت سے اشعار اور ماہیے یاد تھے۔ اکثر مجھے کبھی دیر ہو جاتی تو بہنیں مجھے بتاتیں کہ والدہ محترمہ تمہاری یاد میں ھندکو اشعار پڑھتی ہیں اور روتی رہتی ہیں حالانکہ یہ چند گھنٹوں کی جدائی ہوتی تھی لیکن یہ چند گھنٹے بھی مامتا پر بھاری ہوتے تھے ۔ میں اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے ماں کا سب سے لاڈلا تھا۔ والد صاحب تو پہلے فوت ہو گئے لیکن والدہ صاحبہ زندہ رہیں۔ انہوں نے مشکلات کا سامنا کر کے بھی ہماری پرورش کی۔ انہیں تعلیم سے محبت تھی، پڑھے لکھے لوگوں سے محبت تھی۔ حضوراکرمﷺ سے بے حد محبت اور عقیدت تھی۔ حضوراکرمﷺ کا نام بڑی محبت اور عقیدت سے لیتی تھیں، کثرت سے درودشریف پڑھتی تھیں۔ پاکستان سے بھی انہیں بے حد محبت تھی۔ اس کی سلامتی کی دعائیں مانگتی تھیں۔ میں جب بھی پاکستان کے لئے فکر مند ہوتا انہیں کہتا’’ماں جی! پاکستان خطرات میں گھرا ہوا ہے اس کی سلامتی کے لئے دعا مانگیں۔‘‘ وہ سجدے میں گر کر وطن عزیز کی سلامتی کے لئے خدا سے دعا مانگتیں ۔ پچپن میں ایک نظم’’بیوٹی فل ہننڈز یعنی خوبصورت ہاتھ‘‘ پڑھتی تھی۔ ماں کے ہاتھ یقیناً دنیا کے خوبصورت ہاتھ ہیں کائنات کا سارا حسن، ساری کشش ، ساری رعنائی ماں کی ممتا میں اس کی محبت میں سمٹ کر یکجا ہو گئی ہے ۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہیں ماں کی خدمت کرنے کا موقع مل گیا۔ جنہوں نے ماں کی قدر کی ۔ اپنی غلطیوں ، کوتاہیوں اور کمیوں کی معافی مانگ لی۔ مجھے اپنی والدہ محترمہ کی نماز جنازہ پڑھانے کا اعزاز حاصل ہوا۔ میں ایک ٹیکسٹائل مل میں ملازم تھا۔ مطالعے کا شوقین ، کتابوں کا کیڑا لیکن مجھے لکھنے کا سلیقہ نہیں آتا تھا۔ کبھی آرھی ٹیڑھی لکیریں کھینچ کر چند الفاظ لکھ لیتا تھا لیکن جس دن میری والدہ نے میرے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لیکر چوما اس دن سے مجھے لکھنا آیا۔لکھنے کی مشق کروانے میں میرا کوئی استاد نہیں ، میری تحریروں کی نوک پلک کسی نے نہیں سنواری ، بس میری تحریریں میری ماں کی دعاؤں کا تحفہ ہے ۔ اس میں اگر کوئی اگر کہیں خوبی محسوس ہو تو سمجھ لیجئے کہ وہ والدہ محترمہ کی خوشبو ہے جو شاید آپ کو محسوس ہو رہی ہے ۔ ورنہ میرا کوئی کمال نہیں۔ میں ایک معمولی انسان، ٹوٹھا پھوٹا علم ، ناقص معلومات ، محدود ذخیرۂ الفاظ بس اگر کچھ ہے تو وہ ﷲ کا کرم ہے اور ماں کی دعائیں ہیں۔ جب والدہ محترمہ کو لحد میں اتارا گیا تو دعاؤں سے فارغ ہوئے تو اقبال کی نظم یاد آگئی،
زند گانی تھی تیری مہتاب سے تابندہ تر
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر
مثل ایوان سحرمرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور یہ خاکی سبشتاں ہو ترا
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
پھر اس کے بعد اقبال کی نظم کے دوسرے اشعار بھی یاد آتے گئے
کس کو اب ہو گا وطن میں آہ میرا انتظار
کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار
خاک مرقد پرتری لے کر یہ فریاد آؤں گا
اب دعائے نیم شب میں کس کو میں یاد آؤں گا
تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا
گھر مرے اجداد کا سرمایۂ عزت ہوا
دفتر ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات
تھی سراپا دین و دنیا کا سبق تیری حیات
عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی
میں تیری خدمت کے قابل جب ہوا تو چل بسی
دام سیمیں تخیل ہے مرا آفاق گیر
کر لیا ہے جس سے تیری یاد کو میں نے اسیر
یاد سے تیری دل درد آشنا معمور ہے
جیسے کعبے میں دعاؤں سے فضا معمور ہے

ایک صاحب اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے امریکہ گئے اور پھر وہاں کی شہریت کے حصول کی خاطر بیاہ رچا لیا۔ ماں یہاں پاکستان میں منتظر رہی۔ شروع میں بیٹے کے خط آتے رہے پھر وہ بھی بند ہو گئے ۔ ماں روزانہ انتظار کرتی تھی۔ دروازے پر ذرا سی آہٹ ہوتی تو کہتی کہ میرا بیٹا آگیا ہے ۔ بستر مرگ پر بھی بار بار دروازے کی طرف دیکھتی ۔ اسی حالت میں انتقال فریاکہ آنکھیں دروازے کی طرف تھیں
مرتے وقت بھی آنکھیں میری کھلی رہیں
عادت جو ہو گئی تھی تیرے انتظار کی

ان ماؤں کا مقام ﷲ سے پوچھیئے ، ﷲ کے رسولﷺ سے پوچھیئے۔ انہیں اولڈ ہاؤسز کی زینت نہ بنائیے، انہیں اپنی بیویوں کا خادم نہ بنائیے ، یہ دعاؤں کا کوہ ہمالیہ ہے یہ برکتوں کا بحر الکاہل ہے اس کے قدموں کی خاک کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنا لیجئے ، ان کے سامنے بلند آواز سے نہ بولئے ، انہیں سمجھنا ہے تو صرف ان سے محبت کر کے دیکھئے ۔ ماں سے محبت آپ کے سامنے کائنات کے راز کھول دے گی اگر کائنات سے ماں کی محبت نکال دی جائے دنیا کے سارے رنگ پھیکے پڑھ جائیں گے ، ساری رونقیں بے کار ہو جائیں گی اور سب کچھ کاغذی پھولوں کی مانند مصنوعی ہو جائے گا۔ نوجوانوں میں ماؤں سے محبت کے جذبے کو عام کرنے کے لئے مہینے میں کم از کم ایک جمعے کے خطبے میں ماں کی عظمت اور فضیلت بیان کی جائے ۔ماں کی عظمت اور فضیلت پر مستند احادیث اور قرآن کریم کی آیات پر مشتمل ایسی کتاب لکھی جائے جسے فضائل اعمال اور فیضان سنت کی طرح ہر مسجد میں ہر گھر میں پڑھ کر سنایا جائے ماؤں کے متعلق مضامین کو نصاب تعلیم میں شامل کیا جائے اور اسکولوں میں بچوں کو جہاں پی ٹی ، صفائی وغیرہ کے نمبر دئیے جاتے ہیں وہاں والدین کے ساتھ حسن سلوک کے نمبر بھی دیئے جائیں۔ ہر سال حکومت ماؤں پر لکھی جانے والی بہترین کتاب اور بہترین مضامین پر انعام جاری کرے ، مشہور شخصیات’’ایک دن ماں کے ساتھ‘‘ گزاریں ان کی خدمت کریں اور انہیں میڈیا میں دکھایا جائے تا کہ نوجوانوں میں ماں کی عزت و احترام کا احساس پیدا ہو۔
Dr Syed Mehboob
About the Author: Dr Syed Mehboob Read More Articles by Dr Syed Mehboob: 44 Articles with 44496 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.