آفس پہنچنے کے کچھ ہی دیرکے بعد
علم ہوا کہ آئی آئی چندریگر روڈ سے کوئی احتجاجی ریلی نکلنے والی ہے۔ باہر
سے آنے والے سڑکوں کی صورتحال پر جو بات چیت کررہے تھے وہ مجھے تشویش میں
مبتلا کررہی تھی کیوں کہ میں اپنے بیٹے کو اسکول چھوڑ کر آئی تھی۔جیسے جیسے
وقت گزرتا جارہا تھا ویسے ویسے میری تشویش میں اضافہ ہورہا تھا آخرکار میں
نے وقت سے پہلے ہی اٹھ کر جانا مناسب سمجھا۔
سڑک پر پہنچتے ہی چاروں جانب سینکڑوں کی تعداد میں وردی میں ملفوف پولیس
اہلکار لمبے لمبے ڈنڈے ہاتھوں میں لئے کسی بھی ناگہانی صورتحال سے نمٹنے کے
لئے تیار کھڑے نظر آئے۔ سڑکوں کو ہر طرف سے کنٹینروں سے بند کردیا گیا تھا‘
مجھ سے کہا گیا کہ آپ کو جانے کا کوئی راستہ نہیں ملے گا کیوں کہ پولیس
اہلکار کسی کو بھی آگے نہیں جانے دے رہے جب کہ ریلی بھی قریب آرہی ہے‘ میں
نے اس کی بات سنی اور سرہلاتے ہوئے آگے بڑھ گئی کہ مجھے تو ہر حال آگے جانا
ہی ہے۔ اپنے طور پر محفوظ راستے کا تعین کرتے ہوئے میں آگے بڑھی ۔ فوری طور
پر مجھے شاہین کمپلیکس سے کراچی پریس کلب تک جانا تھا جو 2کلو میٹر سے بھی
کم کا راستہ تھا جہاں سے میں آگے کا سفر کرتی لیکن پریس کلب تک پہنچنا ہی
میرے لئے جوے شیر بن گیا‘ مختلف گلیوں اور سڑکوں سے نکلتی‘ گھومتی گھامتی
میں 2گھنٹوں میں پریس کلب پہنچی۔ وہاں سے تین تلوار کا سفر مجھے اپنے نصف
بہتر کے ہمراہ گاڑی میں کرنا تھا ‘ یہ بھی ایک مشکل مرحلہ تھا جس کے آگے
مجھے اپنا پیدل کا سفر زیادہ بہتر لگا کیوں کہ گاڑی کچھ اتنا سسک سسک کر
آگے بڑھ رہی تھی کہ میرا بلڈ پریشر بڑھنے لگا۔پریس کلب سے تین تلوار تک
ویسے تو میں 5منٹ میں پہنچا کرتی ہوں لیکن اس صورتحال میں ‘ میں نے یہ سفر
ایک گھنٹے میں طے کیا۔
یہ تمام واقعہ کسی بھی اعتبار سے منفرد اور انوکھا نہیں تھا بلکہ آئی آئی
چندریگر روڈ اور اطراف میں و اقع دفاتر میں کام کرنے والے اکثر و بیشتر ان
مراحل سے گزرتے ہیں۔ کبھی صبح تو کبھی شام کے اوقات میں نکلنے والے ریلیوں
نے اس علاقے میں کام کرنے والوں کی زندگیاں اجیرن کرکے رکھی ہوئی ہیں۔
اتنا ہی نہیں بلکہ وزیر اعلیٰ ہاﺅس‘ گورنر ہاﺅس‘ کے ای ایس سی ‘ ڈی جی
رینجر کے دفتر‘کراچی پریس کلب اور ہائی کورٹ جیسے اہم دفاتر کے آگے آئے روز
کنٹرینر لگاکر راستے بند کردیئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے متبادل راستوں پر
ٹریفک جام ہونا معمول کی بات ہے ایسی صورتحال میں لوگوں کا اپنے گھروں کو
لوٹنا محال ہوجاتا ہے۔ آدھے گھنٹے کا راستہ ڈیڑھ گھنٹے جب کہ ایک گھنٹے کا
راستہ ڈھائی گھنٹے میں طے ہونا معمول کی بات ہے ۔ ٹریفک جام میں پیٹرول اور
سی این جی کا زیاں تو اپنی جگہ ہوتا ہی ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ دن بھر کے
تھکے ماندے لوگ جب اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں تو اس قدر ذہنی خلجان میں مبتلا
ہوچکے ہوتے ہیں کہ انہیں کچھ اچھا نہیں لگتا ایسے میں گھروں میں لڑائی
جھگڑے اور اختلافات کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔
پاکستان خصوصاً کراچی کی عوام اس وقت جن گوناں گو مسائل سے دوچار ہے وہ کسی
سے پوشیدہ نہیں ہے۔ کراچی سے محبت کرنے والی‘ کراچی کا دم بھرنے والی ‘
کراچی کو اپنا کہنے والی ‘ کراچی کی مٹی سے پیار کرنے کی دعویدار ‘کراچی کی
بندربانٹ کرنے والی سیاسی جماعتوں کا کردار سمجھ سے بالاتر ہے۔
معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ اگر کراچی ایک دن بند ہوجائے تو ملک کو اربوں
روپے کا خسارہ بھگتنا پڑتا ہے اس کے باوجود مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے
آئے دن کراچی بند رہتا ہے ۔ جس کا ‘ جب دل چاہتا ہے وہ کبھی یوم سوگ کی
صورت میں تو کبھی ہڑتال کی کال دے کر شہر بند کردیتا ہے۔ اب تو لگتا ہے کہ
کراچی میں کسی سیاسی جماعت کی کوئی اکثریت نہیں ہے اسی لئے کسی کی بھی کال
پر کاروبار زندگی بند ہوجاتا ہے اور بھگتتے ہیں عام عوام جنہیں نہ سفری
سہولیات میسر آتی ہیں اور نہ ہی اشیائے ضروریہ ۔
ہڑتالوں کی وجہ سے صنعت کچھ اس زبوں حالی کا شکار ہے کہ فیکٹریوں کو تالے
لگ گئے ہیں۔ پوچھئے کسی روزانہ کمانے والے آدمی سے کہ وہ گزارہ کس طرح سے
کرتا ہے۔ جسے روز کنواں کھودنا ہو اور روز پانی پینا ہو اس کے ہاتھ پیر
باند ھ دیئے جائیں تو وہ اپنی پیاس کیسے بجھائے گا؟
لیکن یہ عام فہم بات سیاسی قدآوروں کو کیسے سمجھائی جائے جو مسائل کو حل
کرنے کے بجائے عوام کی توجہ بانٹنے کے لئے انہیں مسائل کی دلدل میں دھکیل
دیتے ہیں۔ کبھی وزیر اعلیٰ اور گورنراپنے ”محل“سے باہر آکر دیکھیں کہ ان کے
دروازے کے دائیں اور بائیں جانب رکھے جانے والے کنٹینر اس راہ سے گزرنے
والوں کے لئے کن مشکلات میں مبتلا کردیتے ہیں ‘ اورچند قدم کے فاصلے کو طے
کرنے کے لئے اجنہیں کن جوکھم سے گزرنا پڑتا ہے لیکن عوام کی فلاح و بہبود
کے لئے ہر حد تک جانے کے دعویدار ‘ بنیادی عوامی مسائل کی جانب سے آنکھیں
موندے بیٹھے ہیں اور اس شہر خرابات میں رہنے بسنے والوں کو لاقانونیت‘ چوری
‘ ڈکیتی ‘ ٹارگٹ کلنگ ‘ راہزنی اوربے روزگاری کے ساتھ ساتھ ٹریفک جام ‘وی
آئی پی موومنٹس‘ دھرنوں ‘ احتجاجوں اور ہڑتالوں جیسے خودساختہ مسائل کا بھی
سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ باقی تمام مسائل کے حل کی ذمہ داری ایک کاندھے سے
دوسرے کاندھے‘ ایک جماعت سے دوسری جماعت‘ مرکز سے صوبے اور صوبے سے مرکز کے
سر دھر دی جاتی ہے لیکن کچھ مسائل ایسے ہیں جنہیں حل کرنا صوبائی اور شہری
حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے جس میں آخر الذکر مسائل سرفہرست ہیں۔
علاوہ ازیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری عوام جو آزادی کی چھ دہائیاں گزرنے
کے بعد آج بھی سیاسی وعدوں کی چال کی گرفت میں ہیں اپنے شعور کی شمعیں روشن
کریں ۔ سیاسی کال دینے والے مٹھی بھر افراد عوام کی طاقت کا ناجائز فائدہ
اٹھاتے ہیں اور عوام جذباتی ہوکر حقیقت سے روگردانی کر بیٹھتی ہے ۔ ذرا
سوچئے ہڑتال ہم کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے ہی غریب بھائی اپنے بچوں کو
بھوکا سلانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ دھرنے ہم دیتے ہیں اور ہمارے جیسے دوسرے
لوگ دھرنوں کی وجہ سے ذہنی اور جسمانی کرب کا شکار ہوتے ہیں جب کہ یہ دھرنے
‘ ہڑتالیں اور ہنگامے ہمارے اور آپ (یعنی عام عوام )کے لئے بے فیض ہیں۔ نہ
ان سے مہنگائی کم ہوتی ہے ‘ نہ سی این جی کی بندش کے وقفے ختم ہوتے ہیں‘ نہ
لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوتا ہے‘ نہ ٹارگٹ کلنگ ختم ہوتی ہے اور نہ ہی امن و
امان کی صورتحال بہتر ہوتی ہے تو پھر ہم کیوں شکار کے لئے چارہ بنیں .... |