مجھے یاد ہے کہ جب میری چھوٹی بہن کی منگنی ہوئی تو وہ
خاصی کم عمر تھی۔ میری والدہ نے دو باتیں اس کی ساس پر واضح کردی تھیں ایک
یہ کہ شادی وہ تعلیم مکمل ہونے کے بعد کریں گی دوسرے یہ کہ اسے گھر کا کام
کاج بالکل نہیں آتا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد وہ اس جانب توجہ دے پائے گی۔
اب اسے قسمت کہیں یا کچھ اور کہ اس کی ساس نے جیسے دہلیز ہی لے لی ‘امی کو
جلد شادی کی حامی بھرنی پڑی اور میری بے چاری بہن کو اپنی تعلیم ادھوری
چھوڑنی پڑی ۔
میری والدہ مطمئن تھیں کہ ان کی بیٹی کو بہت چاہ سے بیاہا گیا ہے ۔ والدہ
کو اللہ تعالیٰ نے زندگی نہیں دی ورنہ وہ شاید منتوں سے مانگی گئی بہو کے
ساتھ اس کی ساس کی بدسلوکیوں کو برداشت نہ کرپاتیں ۔اور رہی میں تو مجھے آج
تک سمجھ نہیں آیا کہ چشم زدن میں ایسا کیا ہوگیا کہ انہیں اپنی پسندیدہ بہو
سے اس قدر پر ُخاش ہوگئی۔
یہ کسی ایک گھر کا نہیں بلکہ ہر دوسرے گھر کا المیہ ہے کہ مائیں نہایت چاہ
سے بہوئیں بیاہ کر لاتی ہیں لیکن جلد ہی انہیں بہو میں سینکڑوں کیڑے اور
خامیاں نظر آنے لگتی ہیں ۔ وہ اٹھتے بیٹھے اپنے بیٹے اور بہو بے بھاﺅ کی
سنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتیں ۔
میری اپنی جتنی بھی شادی شدہ دوستوں اور دیگر خو اتین سے بات ہوتی ہے ا ن
میں سے شاید ہی کوئی ایسی ہو جسے اپنی ساس کی پسندیدہ بہو ہونے کا درجہ
حاصل ہوا ہو۔ ہر ایک یہی کہتا پایا گیا ہے کہ ہم کچھ بھی کرلیں ان کی
بیٹیوں کی برابری نہیں کرسکتے اور سسرال صرف سسرال ہوتا ہے ۔ وہ ہمارا گھر
کبھی نہیں ہوسکتا۔
ہمارے معاشرے میں بیٹیوں کو صرف”پرایا دھن“ ہی سمجھا جاتا ہے۔ بیٹی کی
پیدائش کے بعد سے اس کی رخصتی کے سامان تیار ہونے لگتے ہیں اور جیسے جیسے
وہ بڑی ہوتی جاتی ہے ویسے ویسے اس کے کان ”پرائے گھر“کے لفظ سے آشنا ہوتے
جاتے ہیں۔مائیں ناز و نعم بیٹیوں کی تربیت کرتے ہوئے اس بات کا دھیان رکھتی
ہیں کہ انہیں پرائے گھر جانا ہے ۔
جب اپنے تمام تر گنوں کے ساتھ جب یہ لڑکی پیا کے دیس سدھار تی ہے تو اسے
جذباتی اور سماجی دباﺅ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سسرال والے اسے زیادہ اہمیت
نہیں دیتے ‘ ہر ساس بہو کو ”دباکر “رکھنے کی خواہاں نظر آتی ہے جب کہ نندوں
کو بھابھی کی صورت میں ایک ملازمہ ملنے کی توقع ہوتی ہے۔
ساس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ادھر بات ان کی زبان سے نکلے اُدھر پوری ہوجائے
۔ مسئلہ اس وقت کھڑا ہوتا ہے جب ان کی اپنی بیٹیاں تو فرمانبرداری کرتی
نہیں اور بہوکی تھوڑی سی تاخیر اس کے لئے وبال جان بن کر رہ جاتی ہے۔
سسر اور دیور بھی یہ آس لگالیتے ہیں کہ اب ان کی بہو یا بھابھی ان کے کام
دوڑ دوڑ کر کرے گی۔ایک لڑکی جو اپنا گھر بار چھوڑ کر آئی ہے اسے نئے ماحول
میں ڈھلنے میں کچھ وقت لگتا ہے لیکن یہ ”کچھ “ وقت ہی اس کی اچھائی اور
برائی کا تعین کربیٹھتا ہے۔کسی ایک شخص کی خواہش پوری نہ ہو تو اسے برا
لگتا ہے اور وہ اپنی رائے کا کھلے عام اظہار بھی کردیتا ہے۔ ہر کوئی اپنا
حق وصول کرنے کی فکر میں لگا رہتا ہے مگر بہو کے حق کی بابت کوئی نہیں
سوچتا ۔
میں نے اپنی ایک دوست سے بات کرتے ہوئے پوچھا کہ وہ کیا کچھ اچھا پکالیتی
ہے۔ اس نے جواب دیا۔” آلو گوشت‘ لوکی ‘ شلجم ‘ کوفتے ‘ مولی کا ساگ وغیرہ“
مجھے کچھ حیرت ہوئی اور میں نے اس سے دریافت کیا۔”ارے ! تمہیں تو سبزیاں
پسند ہی نہیں تھیں ؟“
اس نے ایک پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا ۔”ہاں ‘ مگر یہ باتیں شادی سے پہلے
کی تھیں۔ اب تو جو سسرال میں پکتا ہے وہ کھانا پڑتا ہے۔“
یہ سادہ سی گفتگو ہے لیکن اس کے پیچھے ہر بہو کی تکلیف بول رہی ہے۔ مشترکہ
خاندانی نظام میں کیا پکے گا اور کیا نہیں یہ ساس یا نندیں طے کرتی ہیں جب
کہ بہو ناپسندیدہ ڈش نہ صرف پکانے بلکہ کھانے پر بھی مجبور ہے۔ اگر وہ گھر
میں پکا ہوا نہیں کھانا چاہے اور شوہر سے کوئی فرمائش کربیٹھے تو نہ صرف
اسے بلکہ اس کی گھر والوں تک کو فضول خرچی سمیت دیگر باتوں کے طعنے دے دیئے
جاتے ہیں۔
بیٹیوں کی لمبی زبانوں سے نظریں چراتے ہوئے بہوﺅں سے فرمانبرداری کی توقع
کی جاتی ہے۔ اگر برداشت ختم ہوجائے اور کوئی جائز جواب دے دیا جائے تو وہ
بے بھاﺅ کی پڑتی ہیں کہ سرلپیٹ کر بیٹھ جانے میں ہی عافیت محسوس ہوتی ہے۔
کئی گھرانوں میں سسر اور دیوروں کو بہو کے حق میں جاتا دیکھا جاتا ہے کیوں
کہ عام طور پر گھر کے مرد عورتوں کی سیاست سے دور بھاگتے ہیں لیکن یہ بات
بھی بہو کے خلاف چلی جاتی ہے۔
بیوی اگر بیٹا گھمانے پھرانے لے جاتا ہے یا پھر شاپنگ کراتا ہے تو ساس کے
نزدیک یہ بھی ایک جرم ہے ۔ بقول ان کے بہو ان کے بیٹے کی دن رات کی محنت کی
کمائی اپنی عیاشیوں میں خرچ کررہی ہے۔بیٹے کا بہو کی جانب جھکاﺅ ماﺅں سے
برداشت نہیں ہوتا ۔ بقول شخصے یہ حکومت کی جنگ ہے جو ماں اور بیوی کے
درمیان لڑی جاتی ہے اور پستا ہے بیٹا۔
اگر بیٹا اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کرلیتا ہے تو صورت حال میں معمولی سی
تبدیلی دیکھنے میں آتی ہے۔ بہو کے برائی والے عہدے میں تو کوئی فرق نہیں
آتا لیکن بیوی والا عہدہ قدرے معتبر ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں بیویاں کم از
کم شوہروں سے اپنا جائز حق حاصل کرلیتی ہیں ۔ ایسے شوہر اپنی بیویوں کے لئے
ماﺅں سے گفت و شنید کے مراحل طے کرتے نظر آتے ہیں لیکن مائیں لوگوں کو ایسی
بہوﺅں کے ”سائے “سے بھی بچنے کی تاکید کرتی نظر آتی ہیں۔
میں نے حال ہی میں مشترکہ خاندانی نظام سے علیحدہ ہونے والی اپنی ایک
انتہائی زندہ دل اور خوش اخلاق دوست سے علیحدگی کا سبب پوچھا کیوں کہ وہ
ہمیشہ سے مشترکہ خاندانی نظام کے حق میں باتیں کرتی نظر آتی تھی۔
اس نے اپنے مخصوص انداز میں ہنستے ہوئے کہا۔”میرے سسرال والے تو بہت اچھے
ہیں میں ہی ان کے معیار کی نہیں ہوں۔“
میں کیوں کہ اس کے سسرال والوں کو بھی جانتی تھی اور اپنی دوست کے خاندانی
پس منظر سے بھی واقف تھی اس لئے مجھے سخت تعجب ہوا ۔
مجھے حیرت میں دیکھ کر وہ گویا ہوئی۔”ارے یار مسئلہ یہ ہے کہ میرے سسرال
والو ں کو میرے میکے والوں کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے میں جھجک ہوتی ہے ۔ مجھے
اپنے رشتہ داروں کے گھر وہ کبھی اس لئے لے کر نہیں جاتے کہ پڑھی لکھی اور
خوش اخلاق بہو کے آگے کہیں ان کی اپنی شخصیت دب کر نہ رہ جائے۔مجھے دوسروں
کے سامنے برا بھلا کہہ کر وہ اپنی جھنجلاہٹ دور کرتے ہیں ۔ یہ بات مجھے
پہلے سمجھ میں نہیں آئی تھی اور جس دن سمجھ میں آئی اس دن مجھے لگا کہ میں
ان کے ساتھ مزید آگے نہیں چل سکتی۔ اب شوہر کے طعنے تو سننے پڑتے ہیں لیکن
کم از کم گھر جاتے ہوئے دل گھبراتا تو نہیں ہے۔“
یہ بھی ایک بڑا المیہ ہے کہ شادی کے وقت بڑے گھرانوں کی پڑھی لکھی لڑکی کی
تلاش تو بڑی شدو مد سے ہوتی ہے لیکن بعد میں احساس کمتری عود آتا ہے جو بہو
سے خوشگوار تعلقات کی راہ کی رکاﺅٹ بن کر رہ جاتا ہے۔
ساس کو چاہئے کہ وہ اپنی سوچ کو تبدیل کریں اور یہ سمجھ لیں کہ یہ کسی اور
ک نہیں آپ کی ہی اپنی بیٹی ہے جو کہ خدا نے آپ کو ان بیٹیوں کی جگہ عطا کی
ہے جو کہ اپنے گھروں میں جاکر بس چکی ہیں ۔ جن بیٹیوں کو آپ نے جنم دیا وہ
اب کسی دوسرے گھر کی ہوچکی ہیں اور جو آپ کی خدمت کررہی ہے اب آپ کی بیٹی
ہے جسے اچھے سلوک کی ضرورت ہے ایسے کتنے ہی خاندان ہیں جہاں گھر کی بہو نے
سارے معاملات سنبھالا ہوا ہے جو ساس سسر کی خدمت کرنے کے ساتھ ہی بیماری
آزاری میں ان کے ساتھ ہے اور پھر شوہر اور بچوں کی ذمہ داریاں بھی پوری
کررہی ہے مگر اس کا صلہ کیا مل رہا ہے ؟ شوہر صبح گھر سے نکلتا ہے اور دفتر
میں سر کھپا کر آکر گھر میں آکر اطمینان کا سانس لے لیتا ہے مگر بیوی کی
ڈیوٹی تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی ۔ اس کے تو کوئی اوقات کار ہی مقرر
نہیں ہیں ۔ عیدالفطر ، بقر عید یا کسی تہوار پر گھر کے ملازموں کو چھٹی مل
جاتی ہے مگر لڑکی ان دنوں میں بھی روایتی چولہا ہانڈی اور صفائی ستھرائی
میں لگی ہوتی ہے اس کی ذمہ داریاں بڑھتی ہی رہتی ہیں کم ہونے کا یا ختم
ہونے کا نام ہی نہیں لیتیں ۔
میری ہر ایک سے صرف یہ استدعا ہے کہ براہ کرم گھر میں آنے والی بہو کو بھی
اپنی بیٹی ہی سمجھیں ، وہ اپنی خدمت اور وفا شعاری کے بدلے میں صرف پیار
محبت اور عزت کی طلبگار ہوتی ہے ۔ جب وہ آپ کے لئے سب کچھ کررہی ہے تو کیا
آپ اس کو وہ حق بھی نہیں دے سکتے کہ وہ چین اور سکون ہے جی پائے ۔ وہ اپنے
تمام پیاروں اور ہمدردوں کو چھوڑ کر آپ کے گھر کا حصہ بن گئی ہے تو کیا اسے
وہ ذہنی آسودگی بھی نہیں مل سکتی کہ جس کے بل پر وہ باقی زندگی کو خوشگوار
انداز سے گزار سکے ۔ ظاہر ہے کہ وہ تما تر تکالیف اور صعوبتیں اپنے شوہر کی
خاطر برداشت کرتی ہے اور اس شخص کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس کی عزت کرائے
اور وہ حق دلائے جو کہ اسے درحقیقت ملنا چاہئے ۔ جب شوہر حضرات اپنی بیویوں
کی حمایت اور طرفداری کریں گے اور اپنے والدین کے ساتھ ہی گھر والوں کی عزت
کرانا سیکھیں گے تو تب ہی یہ معاملات بہتری کی طرف مائل ہوں گے کیونکہ ان
کی خاموشی سدا سے ہی لڑکیوں کو ظلم کی چکی میں پسواتی رہی ہے ۔ دراصل ایک
دوسرے کے حق کو سمجھنا اور فرائض و ایماداری سے نبھانا بہت ضروری ہے ۔
تعلیم محض اگر یوں اور اسناد کو جمع کرنے کا نام نہیں بلکہ یہ ہمیں اخلاقی
سطح پر وہ اوصاف عطا کرتی ہے جس کے ذریعے ہم دنیاوی معاملات کو دیکھتے ،
سمجھتے اور پرکھتے ہیں ۔ اگر ہم صرف اپنا اخلاق بہتر کرلیں اور لوگوں کے
ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں تو انصاف پر مبنی ایک ایسا معاشرہ تشکیل پاجائے
گا جس کی مثال دی جاسکے گی جہاں ہر کوئی خوش و خرم دکھائی دے گا - |