زندگی میں بسا اوقات ہمیں ایسے
حالات سے واسطہ پڑ جاتا ہے جس میں ہمیں حقائق کو دیکھتے ہوئے فورا سے فیصلہ
کرنا پڑتا ہے اور تب ہی ہمیں باتوں کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے جو ہمارے
سامنے وقوع پذیر ہو رہی ہوتی ہیں۔آج آپ کو ایک ایسے ہی واقعے کی بابت بتانا
چاہوں گا واقعے کو پڑھ کر آپ میں سے اکثریت کو کچھ سوچنے کا موقعہ ملے
گا،ذرا سوچئے گا کہ اس طرح کے کتنے واقعات ہمارے سامنے پیش آتے ہیں اور ہم
کیا ردعمل ظاہر کرتےہیں۔۔۔
وہ مکمل پردے میں قاضی کے سامنے کھڑی تھی۔اس نے اپنے شوہر کے خلاف مقدمہ
دائر کیا تھا۔مقدمہ کی نوعیت بڑی عجیب تھی کہ میرے خاوند کے ذمہ مہر کی رقم
500 دینار واجب الادا ہےاور وہ ادا نہیں کر رہا،لہذہ مجھے مہر کی رقم دلائی
جائے۔قاضی نے خاوند سے پوچھا تو اس نے اس دعوے کا انکار کر دیا کہ اس کے
ذمہ عورت کی کوئی رقم ہے۔عدالت نے گواہ طلب کیئے۔
خاتون نے چند گواہوں کو پیش کیا۔گواہوں نے کہا کہ ہم اس خاتون کو دیکھ کر
ہی بتا سکتے ہیں کہ واقع ہی یہ وہی عورت ہے جس کی گواہی کے لیئے ہم یہاں
آئے ہیں،لہذا عورت سے کہا جائے کہ اپنے چہرے سے پردہ ہٹائے تا کہ ہم شناخت
کر سکیں۔عدالت نے عورت کو حکم دیا کے چہرے سے پردہ ہٹائے تاکہ شناخت ہو
سکے۔ادھر عورت تذبذب کا شکار تھی کہ گواہوں کے سامنے نقاب اتارے کے ناں
اتارے اور ادھر گواہ اپنے موقف پر مصر تھے۔اچانک اس کے خاوند نے غیرت میں
آکرکہا مجھے قطعا یہ گوارہ نہیں کہ کوئی نا محرم شخص میری بیوی کا چہرا
دیکھے لہذا گواہوں کو اس کا چہرا دیکھنے کی ضرورت نہیں۔اس کا مہر واقع ہی
میرے ذمے ہے۔
عدالت ابھی فیصلہ دینے ہی والی تھی کہ عورت بول اٹھی:
محترم!اگر میرا شوہر کسی کو میرا چہرا دیکھانا برداشت نہیں کرتا تو میں بھی
اس کی توہین برداشت نہیں کرسکتی لہذا مقدمہ کو خارج کیا جائے۔
میں نے اس کو اپنا مہر معاف کیا۔ میں غلطی پہ تھی جو ایسے شخص کے خلاف
مقدمہ کیا۔
دیکھئے ہمارے بہت سے مسئلے ہماری انا کی وجہ سے اکثر حل نہیں ہو پاتے ہیں
وہ کہتے ہیں نا کہ کبھی کبھی ہار کر بھی انسان جیت جاتا ہے تو ان واقعات
میں اکثر ایسا ہی ہوا کر تا ہے کہ انسان حق پر ہوتے ہوئے بھی جھک جاتا ہے ۔
کسی کے آگے جھک جانا اس کو تا حیات اس بات پر سوچنے پر مجبور کرے گا کہ کیا
واقعی وہ اپنی جگہ ٹھیک تھا؟ اس واقعے کو پڑھیں بار بار اور سمجھنے کی کوشش
کریں اور دوسروں کو بھی آگاہ کریں تاکہ ہم اپنے کردار میں تبدیلی لائیں اور
بہتر معاشرہ قائم ہو سکے۔ |