نوجوان نسل کی تربیت میں والدین کا کردار

محمد مسعودفیصل آبادکا بہت بڑا تاجر ہے ۔اپنے علاقہ کی سرکردہ شخصیات میں وہ سرفہرست ہے ۔سیاست ،تجارت ،عبادت،معاملات ،اخلاقیات، ہمدردی نیک نیتی اورلوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں اپنی مثال آپ ہے ۔گزشتہ کئی سالوں سے وہ فی سبیل اﷲ لوگوں کے تنازعات ختم کروانے اور آپس میں صلح صفائی کروانے کے کار ِخیرمیں مصروف ہے ۔محمد مسعودکا گھریلو ماحول دیندارانہ اور شریفانہ ہے۔تعلیم تعلم اور کسب حلال اس کے خاندان کی پہچان ہے۔بے باکی دلیری، بہادری اور صاف گوئی اس کے خاندان کے وہ اعلی اوصاف ہیں جن کی وجہ سے اس کے خاندان کا ہرفرد علاقائی سطح پراپنا ایک بلند مقام رکھتاہے ۔گزشتہ چھ دہائیوں سے محمد مسعوداپنے آباؤ اجدادکے ان بلند پایہ اوصاف کی حفاظت کیے ہوئے تھا ۔ چھ دہائیوں بعد اس کے خاندان کی شناخت کو مسخ کرنے کے لیے ا س کے گھر سے ایک گندا چشمہ ابلنا شروع ہواجوچند سالوں میں محمد مسعود اور اس کے خاندان کے تما م بلندپایہ اوصاف اوربے نظیر کارناموں اور لازوال قربانیوں کو اپنی رَو میں بہاکر لے گیا۔ وہ اس طرح کہ محمد مسعود کے چھوٹے بیٹے ذیشان نے میڑک کے بعد کالج میں داخلہ لے لیا۔کالج کا ماحول نہایت خراب تھا،مخلوط تعلیم اور اوباش قسم کے طلبہ کاہجوم کالج میں بہت تھا۔ ان اوباش طلبہ نے ذیشان کو ہائی جیک کیااور اپنی کمپنی میں شامل کرلیا۔ذیشان کی ان کے ساتھ میل جول نے چند دنوں میں محمد مسعود کے خاندان کی مضبوط جڑوں کو کاٹنا شروع کردیا۔ہر دوسرے دن ذیشان کے بھیانک جرائم کی با زگشت محمد مسعود کے گھر تک پہنچتی ،مگر چھوٹاہونے اور بے انتہا ء لاڈپیا ر کی وجہ سے یہ جرائم دب کر رہ جاتے ۔کئی مرتبہ اس کے والدین کو کالج کی انتظامیہ کی طرف سے بھی شکایا ت کی گئیں مگر اس کے والدین ہر بار سمجھانے کا کہہ کر بات گول کر دیتے ۔تین ماہ بعد ذیشان چرس پیتاہو ا پکڑاگیا ،پولیس اسے اٹھا کر تھانہ لے گئی مگر محمد مسعود نے ذیشان کو سیاسی اثر ورسوخ استعمال کرکے تھانے جانے سے قبل ہی رہا کروالیا ۔والدین کی طرف سے لاڈ پیار اور بھر پور سپوٹ ملنے کی وجہ سے ذیشان کے برے جذبات اور نفسانی خواہشات کو مہمیز ملتی رہی ،یوں وہ سگریٹ سے چرس ،چرس سے شراب اور شراب سے زناء تک بڑھتا چلاگیا۔پھرایک دن ذیشان نے علاقہ کی معروف شخصیت کے خاندان کی عصمت پر ڈاکہ ڈالا اور اس کی معصوم بیٹی کواپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اغوا کرلیا۔اس بار بھی محمد مسعود نے ڈھٹائی کے ساتھ بیٹے کی فیور کرنا شروع کردی اور اس کی سپوٹ کے لیے اپنی دولت،جاہ جلالت ،خاندان کی شرافت اور عزت تک کو داؤ پر لگادیا،مگر اس بار اس کا مقابلہ اپنے سے زیادہ مضبوط خاندان سے تھا۔لہذا اس بار وہ شکست کھاگیا اوراور اس کا لاڈلا بیٹا ذیشان سلاخوں کے پیچھے چلا گیا۔

کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہم معاشرے کی اصلاح کے لیے باتیں کرتے ہیں مگر ہمار ا عمل اس کے برعکس ہوتاہے ،ہم اپنے آپ کو مسلمان تو کہتے ہیں مگر ہمارا طرز ِعمل شریعت کے متضاد ہوتا ہے ،دوسروں کو برا تو کہتے ہیں مگر اپنے گریبان میں جھانکنا پسند نہیں کرتے ۔محمد مسعود جیسے بے شمارنیک صالح والدین ہیں جن کا معاشرے میں نیک نامی کا طوطی بولتاہے مگر اپنی اولاد کے معاملہ میں وہ اپنی نیک نیتی ،قدرومنزلت اور معاشرتی فلاح اور امن وامان کو داؤپر لگالیتے ہیں۔حیرت کی بات ہے کہ اگر کوئی دوسراآدمی اس کی اولاد کے غلط چال چلن سے مطلع بھی کرے تو اس کی بات کو ہوا میں اڑادیا جاتاہے اور بجائے اپنی اولاد کی سرزنش اور اصلاح کے الٹا ان کا دفاع شروع کردیاجاتاہے ۔آج ہماری نوجوان نسل جس بری طرح معاشرتی جرائم میں ملوث ہے ۔اس وجوہات میں اگرچہ انٹرنیٹ ،کیبل ،ٹی وی او رموبائل فونز کا بہت بڑا دخل ہے مگر سرفہرست وہ والدین ہیں جو اپنی اولاد کو فرشتے سمجھتے ہیں اوربلاوجہ لاڈ پیار کے ذریعہ ان کے لیے جرائم کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ ماں کی گود کوبچہ کی پہلی درسگاہ قرار دیاگیاہے ،اگر یہ گود صحیح معنوں میں اس کی تربیت نہیں کرے گی تو وہ دنیاکی بہترین درسگاہوں میں بھی صحیح تربیت حاصل نہیں کرسکے گا۔اولاد کے معاملہ میں سب سے زیادہ مائیں حساس ہوتی ہیں۔یہ مائیں دوسروں کے بچوں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں پرتوہر مجلس میں طنز کرتی ہیں مگر اپنے بچوں کو پا ک صاف خیال کرتی ہیں۔جس کانتیجہ ذیشان کی صورت میں دیکھنا پڑتا ہے ۔ یہ معاملہ تونوجوان نسل کی معاشرتی برائیوں اور والدین کے ان کے بارے میں’’حسن ظن‘‘ اور نرم رویوں کاتھا ۔عبادات کے معاملے میں بھی والدین حد درجہ غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔اولاد جوان ہوجاتی ہے مگروالدین میں یہ ہمت نہیں پڑتی کہ بچوں کو نماز کی ادائیگی اور روزہ رکھنے کا کہہ سکیں۔ جب کہ حدیث پاک کا مفہوم تو یہ ہے کہ بچہ جب سات سال کاہوجائے توا سے نماز پڑھنے کی تلقین کی جائے اور جب دس سال کی عمر کوپہنچ جائے اوروہ نماز کے معاملہ میں سستی کرے تو ڈانٹ ڈپٹ اور مارپیٹ کے ذریعہ نماز کا حکم کیا جائے ۔عبادات کے معاملہ میں بچوں کی غفلت اور سستی کی سب سے بڑی وجہ معاشرتی برائیوں کی طرح خود والدین ہیں ۔اکثر وبیشتردیکھنے میں یہی آیا ہے کہ جولوگ عبادات کی ادائیگی میں اہتمام کرتے ہیں ان کی اولاد بھی عباد ات میں دلچسپی کا مظاہرہ کرتی ہے ۔لیکن جو لوگ نماز ،روزہ سے دور رہتے ہیں ان کی اولاد شاذ ونادر ہی اس کا اہتمام کرتی ہے۔

والدین نوجوان نسل کے لیے ایک آئینہ کی حثیت رکھتے ہیں۔آئینہ صاف ہو تو عکس واضح نظرا ٓتا ہے اوراس سے فائدہ اتنا ہی زیادہ ہوتاہے۔لیکن اگر آئینہ گردآلود ہو تو اس کا استعمال ہیچ اور عبث ہے ۔لہذا والدین کو صاف شفاف آئینہ بننا چاہیے اور اپنی اولاد کے سامنے اپنے آپ کو ایک رول ماڈل بناکر پیش کرنا چاہیے تاکہ ان کی اولاد اپنا واضح عکس دیکھ کر آگے بڑھ سکیں اور سماجی ومعاشرتی برائیوں سے دور رہ کر دین اسلام کے احکامات پر عمل کرنے والے بن سکیں اورملک وملت کی ترقی میں اپنا کردار اداکرسکیں۔
Ghulam Nabi Madni
About the Author: Ghulam Nabi Madni Read More Articles by Ghulam Nabi Madni: 45 Articles with 38320 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.