وطن عزیز میں گیس چوری اور بجلی چوری کے انسداد کے لئے آج
کل مہم عروج پر ہے اس مہم میں ضلعی ٹیموں کے ساتھ ساتھ پولیس اور ضلعی
انتظامیہ بھی شامل ہیں جو ان چوروں کے خلاف کاروائی میں اپنا اپنا بھر پور
کردار ادا کر رہی ہیں اب تک کی اطلاعات کے مطابق پنجاب کے بڑے شہروں جن میں
فیصل آباد، لاہور ،راولپنڈی اور دیگر علاقوں میں کروڑوں روپے کی گیس اور
بجلی چوری پکڑی جا چکی ہے اور ان ملوں یا فیکٹریوں کے مالکان کے خلاف
مقدمات درج کیے جا رہے ہیں جو اس گھنونے دھندے مین ملوث ہیں گزشتہ دنوں
وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر اعظم پاکستان نے اس گیس فیکٹری کا دورہ بھی کیا
جہاں ایک اندازے کے مطابق کروڑوں روپے کی گیس چوری کی جارہی تھی اس بات کو
میڈیا نے بھی ہائی لائٹ کیا ان سب باتوں میں جو سب سے عجیب ہے وہ ان محکموں
کے افسران کے خلاف کاروائی نہ کرنا ہے جن کے علاقے میں یہ کام ہو رہا تھا-
پاکستان میں یہ چیز عام طور پر دیکھی جاتی ہے کہ آپ محکمہ واپڈا میں چلے
جائیں گیس کے محکمہ میں چلے جائیں یا ٹیکس آفس یا کسی بھی سرکاری کارپوریشن
میں چلے جائیں جب آپ سے ان کی کسی سروس کا مطالبہ کرتے ہیں تو وہ آپ کو دو
طریقوں سے گائیڈ کرتے ہیں پہلا طریقہ قانونی اعتبار سے درست طریقہ کار ہوتا
ہے جس میں سب سے پہلے آپ کو اپنے ضروری کاغذات کی تکمیل کا کہا جاتا ہے اور
اس کے ساتھ ہی کسٹمر کے کان میں کہہ دیاجاتا ہے کہ اس طریقے سے وقت کا ضیاع
ہو گا اور پیسے بھی اتنے خرچ ہوں گے ساتھ ہی دوسرا طریقہ بھی بتایا جاتا ہے
جس کے مطابق سب کام وہ سرکاری اہلکار خود کرتے ہیں لیکن رقم کچھ زیادہ ہوتی
ہے آج کل نفسا نفسی کا دور ہے ہر کوئی وقت بچانے کے چکر میں ہے اس لئے ایسے
گاہک بڑے آرام سے ان لوگوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں اور اس طرح لاکھوں روپے کی
کرپشن دن بھر میں ان محکموں میں ہو جاتی ہے جس کا کوئی اندازہ بھی نہیں کر
سکتا مزے کی بات یہ ہے کہ ایسے لوگ یہ رقم اکیلے خود نہیں کھاتے بلکہ اس کا
حصہ اوپر تک جاتا ہے اب یہ کتنے اوپر تک جاتا ہے اس کا کسی کو صیحح اندازہ
نہیں اسی طرح ان محکموں میں شامل لوگوں سے جب کسی کام کی بابت بات کی جائے
تو ان کو ہزاروں طریقے آتے ہیں کہ کس طرح لوگوں کو محکمانہ ٹیکس سے بچا
سکیں اور وہ اس کام کی اپنی فیس وصول کر کے حکومت کو لاکھوں روپے کی پھکی
دے جاتے ہیں اور یہ بھی نہیں سوچتے کہ جو محکمہ ان کے روزگار کا ذریعہ ہے
یہ لوگ اسی کے جڑیں کاٹ رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان سٹیل مل، پاکستان
ریلوے اور پاکستان ائیر لائن خسارے میں جا رہی ہیں اور ان کو ہر سال حکومت
کئی ارب روپے کی اگر گرانٹ نہ دے تو یہ کب کی دفن ہو چکی ہوں ایسی صوتحال
کے زمہ دار ایسے ہی لوگ ہیں جو دیمک کی طرح ان نفع بخش اداروں کو نوچ رہے
ہیں آپ ایف بی آر کی مثال ہی لے لیں اس میں کئی بار ایسا دیکھنے میں آیا ہے
کوئی انکم ٹیکس انسپکٹر ٹیکس نہ دینے کی وجہ سے چالان کرتا ہے تو ساتھ ہی
خفیہ طور پر ان کو اس چالان سے بچنے کا طریقہ بھی بتا دیتا ہے اور اس طرح
وہ اپنے محکمے میں افسروں کے سامنے سرخرو بھی ہو جاتا ہے اور کسٹمر کو بھی
مطمئن کر لیتا ہے یہی حال تقریبا محکمہ واپڈا ،پولیس ،پی آئی اے ،پاکستان
ریلوے اور دیگر اداروں کا ہے ۔اس بات کی خوشی سب لوگوں کو ہو رہی ہے کہ گیس
اور بجلی کے اتنے بڑے بڑے چور پکڑے گے سزا ہو نہ ہو یہ بعد کی بات ہے مگر
ہمیں اس بات کو بھی مد نظر رکھنا ہوگاکہ محکمہ واپڈا یا محکمہ سوئی گیس کی
تنصیبات کو کوئی عام آدمی ہاتھ لگانے کا سوچ بھی نہیں سکتا جب تک کہ کوئی
ماہر آدمی نہ ہو اس لئے ضرور ایسے لوگوں کے پیچھے ان محکموں کی وہ کالی
بھیڑیں چھپی ہوئی ہیں جنھوں نے ان لوگوں کو اس مکروہ کام کیلئے اکسیا اور
ان سے اپنی قیمت وصول کی اور اگر صیحح اور بہتر طریقے سے انوسٹیگیشن ہوئی
تو ایسے کئی کردار بے نقاب ہوں گے جنھوں نے ان فیکٹریوں سے لاکھوں کی نہیں
کروڑوں کی ماہانہ منتھلیاں لی ہوں گی مگر یہاں کون سچ کو دیکھاتا یاا س کے
بارے میں جاننے کی کوشش کرتاہے بس جس کی گردن پر چھری آگئی وہ گیا بے شک
سچا ہو یا جھوٹا اس لئے ضروت اس امر کی ہے کہ جن جن علاقوں میں یہ چوریاں
پکڑی گئی ہیں ان علاقوں میں ان محکموں کے سربراہوں کو شامل تفتیش کیا جائے
اور جو فیکٹری یا مل مالکان ملوث پائے گے ہیں ان سے اس بات تفتیش کی جائے
کہ ایسے کون سے عناصر ہیں جو ان کی پشت پناہی کر رہے تھے آپ یقین جانیے
دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا اور اس کے بعد سزا و جزا کے
مرحلے پر کسی سے کوئی رعایت نہ کی جائے چاہیے اس کا تعلق کسی بھی سیاسی
جماعت سے کیوں نہ ہو اگر ایسا ہو گیا تو کسی کی جرات نہیں ہو گی وہ گیس
پانی یا بجلی چوری کر سکے مگر۔۔۔۔ مگر ایسا ہونے کی توقع بہت کم ہے کیونکہ
ہمارے ہاں سیاسی مصلحت آڑے آجاتی ہے پھر ایسے لوگوں کے خلاف ہتھ ہولا رکھنا
پڑ جاتا ہے جس کی وجہ سے ایسے عناصر اب اس معاشرے کا طاقتور مافیا بن گئے
ہیں جوہر ایک کو آانکھیں دیکھاتے نظر آتے ہیں اور ان طاقتور لوگوں کے خلاف
کوئی بھی کسی قسم کی کاروائی نہیں کرتا کیونکہ ایسے لوگوں کو اگر سزا ہو
بھی جائے تو وہ آدمی جس نے ان کو ایسی سزا دلوانے میں اپنا دن رات ایک کیا
ہوتا ہے وہ اپنے گھر نہیں پہنچ پاتا کہ اس سے پہلے ایسے لوگ جیلوں سے رہا
ہو کہ اپنے گھر پہنچ چکے ہوتے ہیں اگر ہم نے ان مسائل کاحل نکالنا ہے ان
بحرانوں سے نجات پانی ہے تو ایسے کرداروں کو قرار واقعی سزا دلوانی ہوگی تب
جا کے ان چیزوں کی چوری کو لگام دی جا سکتی ہے دوسری صورت میں یہ کیا اس سے
کئی بڑی بڑی چوریاں ہمارے قومی خزانے کو نقصان پہنچاتی رہیں گی اور ہم ان
کا تماشا دیکھتے رہے گے ۔ |