ذیشان علی کو صرف وہ ورکشاپ یاد تھی، جہاں کبھی اس کے چچا
کام کرتے تھے اور موٹر سائیکلوں کی مرمت کی جاتی تھی۔ اب چھ سال بعد اس
پندرہ سالہ لڑکے کو دوبارہ اس کے گھر پہنچا دیا گیا ہے
ذیشان علی کو اس کے محلے کی اس ورکشاپ پر لے جایا گیا، جس کے دھندلے نقوش
ابھی تک اس کے ناپختہ ذہن سے چپکے ہوئے تھے۔ راولپنڈی میں ورکشاپ کے مالک
نے اسے دیکھتے ہی پہچان لیا اور ساتھ والی گلی میں ان کے گھر لے گیا، جہاں
اس کے اہلخانہ رہتے ہیں۔ ذیشان کو اس کی دادی اماں کے ساتھ دوبارہ ملا دیا
گیا ہے۔ تاج بی بی نے بھیگی ہوئی آنکھوں کے ساتھ فوری طور پر ذیشان کو اپنی
بانہوں میں لے لیا۔
|
|
گمشدہ بچوں کو ان کے گھر واپس پہنچانے کا منصوبہ پاکستان کی سب سے مشہور
فلاحی تنظیم ایدھی فاؤنڈیشن نے شروع کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ایدھی
فاؤنڈیشن کی بس پاکستان بھر میں ان پچاس لڑکوں کے اہلخانہ کو تلاش کر رہی
ہے، جن کی دیکھ بھال اب تک کراچی کے ایدھی سینٹر میں کی جا رہی تھی۔ یہ بچے
یا تو خود اپنا گھر چھوڑ کر بھاگ گئے تھے یا پھر لاپتہ ہو گئے تھے۔
ذیشان کی دادی اماں کا کہنا تھا کہ گزشتہ چھ برسوں میں وہ ذیشان کو یاد
کرتے ہوئے متعدد مرتبہ خود ہی روتیں اور خود ہی چپ کر جاتیں لیکن امید کا
دامن انہوں نے کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا تھا۔ ان کے دل میں یہ کرن ہمیشہ ہی
روشن رہتی کہ ذیشان کبھی نہ کبھی انہیں ضرور ملے گا۔ ذیشان کو اپنی ضعیف
اور کمزور بانہوں میں سمیٹے ہوئے تاج بی بی کا کہنا تھا، ’’ہم اس کے لیے
بہت روئے۔ ہم نے اس کو ہر جگہ تلاش کیا۔ اس کے بعد میں نے اپنے بیٹے کو
دلاسا دینا شروع کر دیا کہ میرا پوتا ایک دن ضرور واپس آئے گا۔‘‘
گمشدہ بچوں کے گھروں کو تلاش کرنے کے لیے ملک بھر میں بس چلانے کا آئیڈیا
پاکستان کی مشہور سماجی شخصیت عبدالستار ایدھی کا تھا۔ ایسا دوسری مرتبہ
ہوا ہے کہ لاپتہ ہوجانے والے یا پھر گھر سے بھاگ جانے والے بچوں کو ان کے
والدین سے ملانے کے لیے بس ملک بھر میں سفر کرے گی۔
|
|
کراچی میں ایدھی فاؤنڈیشن سے منسلک انور کاظمی کا نیوز ایجنسی اے پی سے
گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ سن 2008ء میں دس دنوں کے اندر اندر 55 میں سے
اڑتالیس لڑکوں کو ان کے والدین سے ملا دیا گیا تھا۔‘‘ اس مرتبہ یہ بس جب
کراچی سے روانہ ہوئی تو اس پر پچاس لڑکے سوار تھے اور ابھی تک ملک بھر میں
اکتالیس لڑکوں کو ان کے اہلخانہ سے ملا دیا گیا ہے۔ کراچی واپس جانے سے
پہلے اس بس کا آخری اسٹاپ صوبہ بلوچستان کے جنوب مشرقی شہر کوئٹہ میں ہوگا۔
بچوں کے والدین کو ڈھونڈنے کے لیے ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس وہی یادیں یا
معلومات ہوتی ہیں، جو بچے ان کو بناتے ہیں۔ ذیشان کو بھی راولپنڈی کی صرف
وہ ورکشاپ یاد تھی، جہاں کبھی اس کے چچا کام کیا کرتے تھے۔ بس راولپنڈی
پہنچی تو ذیشان کو راولپنڈی کی کئی سڑکوں پر گھمایا گیا اور آخر کار اس نے
ایک ورکشاپ کی نشاندہی کی، جو ویسی ہی دکھائی دیتی تھی، جیسی اس نے آج سے
چھ برس پہلے دیکھی تھی۔ ورکشاپ کا مالک دکان پر نہیں تھا۔ اس کا ایک ملازم
ذیشان اور ایدھی کی ٹیم کو قریب ہی واقع مالک کے گھر لے گیا۔ ورکشاپ کے
مالک نے ذیشان کے چچا کو فون کیا اور پھر چچا ذیشان کو اس کے اہلخانہ تک
لے گیا۔
|
|
ذیشان کا کہنا ہے کہ وہ ایک رات گھر کا راستہ بھول گیا۔ اس نے پولیس کو
بتانے کی بھرپور کوشش کی کہ وہ کہاں رہتا ہے۔ پولیس اس کا گھر تلاش کرنے
میں ناکام رہی اور پھر اسے لاہور کے ایدھی سینٹر بھیج دیا گیا، جہاں سے اسے
کراچی منتقل کر دیا گیا۔ ذیشان جس وقت گم ہوا تھا، تو اس وقت اس کی عمر آٹھ
یا نو برس کے قریب تھی۔
والدین کا تشدد
ایدھی سینٹر میں پہنچنے والے زیادہ تر بچوں کا تعلق غریب خاندانوں سے ہوتا
ہے۔ ان میں سے ایسے بھی بچے ہوتے ہیں جو والدین کے تشدد کی وجہ سے خود گھر
سے بھاگ جاتے ہیں۔ رمضان علی کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔ وہ سات سال پہلے گھر سے
بھاگا تھا۔ اس کا والد اسے اکثر مار پیٹ کا نشانہ بناتا تھا۔ اب اس کی عمر
چودہ برس ہے۔ لیکن اپنے والد سے متعلق تلخ یادوں کے باوجود وہ اپنے گھر
واپس جانا چاہتا ہے۔
ہر بچہ خوش قسمت نہیں
ایدھی فاؤنڈیشن کے منتظمین کا کہنا ہے کہ ہر مرتبہ ایسا نہیں ہوتا کہ لاپتہ
ہونے والے بچے کو اس کے والدین مل جائیں۔ عبدالصمد کی کہانی سے پتہ چلتا ہے
کہ بعض اقات والدین کو تلاش کرنا کس قدر مشکل ہے۔ آٹھ سالہ عبدالصمد کو صرف
اپنے والد کا نام یاد ہے اور یہ یاد ہے کہ وہ اسلام آباد کے مضافات میں دو
پہاڑں اور پٹرول اسٹیشن کے قریب رہتے تھے۔ جب ایدھی فاؤنڈیش کی ٹیم اس
علاقے میں پہنچی تو عبدالصمد نے اپنے محلے کو پہچان لیا۔ سوال کرنے پر
پڑوسیوں نے بتایا کہ چند سال پہلے یہاں ایک خاندان رہتا تھا یہ ان کا بچہ
ہے لیکن اب اس کے والدین کہاں رہتے ہیں، یہ کسی کو نہیں معلوم۔ ایک شخص نے
بتایا کہ اس کے اہلخانہ بازار کے قریب دودھ بیچتے ہیں لیکن اس سے بھی کوئی
مدد نہیں ملی۔ عبدالصمد کو ایدھی سینٹر اسلام آباد میں چھوڑ دیا گیا ہے
تاکہ اس کے والدین کی تلاش جاری رکھی جا سکے۔
بس اپنی اگلی منزل کی طرف روانہ ہو رہی ہے اور عبدالصمد کی آنکھوں سے زار و
قطار آنسو بہہ رہے ہیں۔ |