لا الہ الا للہ کامعنیٰ
’’لا الہ الا اللّٰہ‘‘کا معنیٰ ہے۔’’لا معبود بحقّ الا اللّٰہ ‘‘کہ اللہ کے
سوا کوئی معبود بر حق نہیں۔یہ جملہ نفی اور اثبات دونوں پر مشتمل ہے۔اس میں
’’لاالہ‘‘ نفی ہے ‘جبکہ ’’الا اللّٰہ‘‘ اثبات ہے۔جبکہ لفظ جلالہ(اللّٰہ) ’’لا‘‘
کی محذوف خبر سے بدل ہے۔لہذا تقدیر عبارت یوں ہو گی’’لا الہ حقّ الا
اللّٰہ‘‘اس ’’حق‘‘ کی تقدیر ماننے سے ان لوگوں کا اشکال دور ہو جاتا ہے
جوکہتے ہیں کہ۔
’’تم کیسے دعویٰ کرتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں حالانکہ اللہ کے
سوا بھی کئی معبودوں کی عبادت کی جارہی ہے‘اور اللہ تعالیٰ نے بھی ان کا
نام (الہ) معبود رکھا ہے۔جیسے قرآن مجید میں موجود ہے کہ:
(فما اغنت عنھم اٰلھتھم الّتی یدعون من دون اللہ من شییٔ لمّا جاء امر ربّک
)[ھود:۱۰۱]
انہیں ان کے معبودوں نے کوئی فائدہ نہ پہنچایا‘جنہیں وہ اللہ کے سوا پکارا
کرتے تھے ‘جبکہ تیرے پروردگار کا حکم آ پہنچا۔
اسی طرح اللہ فرماتے ہیں کہ
(ولا تجعل مع اللہ الھاً اٰخر)[الاسرائ:۳۹]
اللہ کے ساتھ کسی کو معبود مت بنانا۔
’’تو ان لوگوں کا اشکال خبر مقدّر ماننے سے دور ہو جاتاہے۔کہ اللہ کے سوا
معبود تو ہیں‘لیکن تمام کے تمام معبودباطل ہیں۔پس یہ کلمہ اللہ کے علاوہ
کسی اور کے معبود ہونے کی نفی کرتا ہے ‘ جبکہ اللہ کے معبود بر حق ہونے کا
اثبات کرتا ہے۔پس اللہ کے علاوہ کسی بشر‘ جن‘فرشتے وغیرہ کی عبادت کرنا
باطل ہے۔کیونکہ معبود بر حق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
(ذٰلک بانّ اللہ ھو الحقّ وانّما یدعون من دونہ ھو الباطل ) [حج:۶۲]
اللہ بر حق ہے ‘اور اس کے سوا جسے بھی وہ پکارتے ہیں وہ سب باطل ہے۔
اسی طرح اللہ فرماتے ہیں کہ
(ومن یدع مع اللہ الٰھاً اٰخر لا برھان لہ بہ فانّما حسابہ عند ربّہ انّہ
لا یفلح الکٰفرون)[المؤمنون:۱۱۷]
جو شخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو معبود پکارے ‘جسکی کوئی دلیل اس کے پاس
نہیں‘پس اس کا حساب تو اس کے رب کے اوپر ہی ہے۔بے شک کافر لوگ نجات سے
محروم ہیں۔
اس معنیٰ میں اور بہت ساری آیات موجود ہیں ‘ جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں
کہ یہ ایک عظیم کلمہ ہے ۔اور اپنے قائل کو اس وقت تک فائدہ نہیں دے سکتا
‘اور شرک سے نہیں نکال سکتا جب تک وہ اس کے معنیٰ کو نہ سمجھ لے ‘اور اس پر
عمل کرتے ہوئے اس کی تصدیق نہ کر دے۔منافقین بھی اس کلمہ کو پڑھتے تھے لیکن
عدم تصدیق کی وجہ سے جہنم کے نچلے درجے میں ہوں گے ۔اسی طرح مشرکین بھی یہ
کلمہ پڑھتے ہیں‘لیکن عدم تصدیق اور بے عملی کی وجہ سے نجات سے محروم ہیں۔
کلمہ کی شروط
اس کلمہ (لا الہ الا اللّٰہ)کے مفید ہونے کی درج ذیل شروط ہیں۔
(۱) علم :۔اس کلمہ کے معنیٰ کا علم ہو ‘جو جہالت کے منافی ہو۔جیسا کہ اس کا
معنیٰ گزر چکا ہے کہ’’اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں‘‘پس اللہ کے سوا
تمام معبود جن کی لوگ عبادت کرتے باطل ہیں۔
(۲) یقین :۔اس کلمہ پر یقین ہو ‘جس میں شک نہ ہو۔یعنی اللہ کے معبود برحق
ہونے پر پختہ یقین ہو۔
(۳) اخلاص:۔ یعنی بندہ اپنی تمام عبادات کو خالصتاً اللہ ہی کے لئے کرے ۔جب
آدمی اپنی عبادات کو اللہ کے علاوہ کسی نبی ‘ولی‘جن‘فرشتہ‘بت وغیرہ کی طرف
پھیر دیتا ہے‘تو یہ اخلاص کے منافی ہے۔
(۴) تصدیق:۔ یعنی جو کلمہ وہ اپنی زبان سے ادا کر رہا ہے‘اس میں وہ سچّا
ہو۔اس کی زبان اس کے دل‘ اور اس کا دل اس کی زبان کے موافق ہو۔اگر صرف زبان
سے کلمہ پڑھتا ہے لیکن دل سے اس کی تصدیق نہیں کرتا‘تو یہ کلمہ اس شخص کو
کوئی فائدہ نہیں دے گا۔اور وہ شخص منافقین کی طرح کافر ہی ہو گا۔
(۵)محبت:۔ یعنی کلمہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے محبت بھی کرے۔
کیونکہ اگر کلمہ پڑھتا ہے لیکن اللہ سے محبت نہیں کرتا ‘تو وہ بھی منافقین
کی طرح کافر ہی ہے۔جو حقیقتاً اسلام میں داخل ہی نہیں ہوا۔دلیل یہ آیٔت ہے
کہ
(قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ)[آل عمران:۳۱]
اے نبی کہہ دیجئے!اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہوتو میری اتباع
کرو۔خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا۔
اسی طرح یہ آیٔت ہے
(ومن الناس من یتخذ من دون اللہ انداداً یحبونھم کحب اللہ والذین اٰمنوا
اشدّ حبّا للہ)[البقرۃ:۱۶۵]
بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کا شریک اور لوگوں کو ٹھہرا کر ان سے ایسی
محبت رکھتے ہیں ‘جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیئے۔اور ایمان والے اللہ کی
محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں۔
(۶) انقیاد:۔ یعنی آدمی اس کلمہ کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔اگر کلمہ تو
پڑھتا ہے لیکن اس کے تقاضوں پر عمل کرنے سے تکبر کرتا ہے ‘تو وہ شخص ابلیس
کی ہی طرح کافر ہے۔
(۷) قبولیت:۔یعنی کلمہ کے تقاضوں کو دل ودماغ سے قبول کر لے۔اور اپنی
عبادات کو خالصتاً اللہ کے لئے کرے ‘غیر اللہ کے لئے نہ کرے۔
(۸) غیر اللہ کا انکار کرنا:۔یعنی غیر اللہ کی عبادت سے براء ت کا اظہار
کرے اور عقیدہ رکھے کہ یہ باطل ہے۔جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں کہ
(فمن یکفر بالطاغوت ویؤمن باللہ فقد استمسک بالعروۃ الوثقیٰ)[البقرۃ:۲۵۶]
جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے معبودوں کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لائے
اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا۔
لہذا تمام مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس کلمہ کی تمام شروط کی رعایٔت رکھتے
ہوئے اس کلمہ کو ثابت کریں۔اگر کسی آدمی کے اندر یہ شرائط ہیں تو وہ مسلمان
ہے‘ اور اگر کسی کے اندر مذکورہ شرائط نہیں تو وہ غیر مسلم ہی ہے۔
امام حسن بصری ؒ سے پو چھا گیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ لا الہ الا اللہ کا
پڑھنے والا جنت میں ضرور داخل ہو گا ‘ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں مگر جس
نے اس کے شروط و تقاضوں کو پورا کیا۔
امام وہب بن منبہ ؒ سے ہوچھا گیا کہ کیا لا الہ الا اللہ جنت کی کنجی نہیں
ہے؟تو انھوں نے فرمایا کیوں نہیں ہے !مگر کنجی میں دندانے ہوتے ہیں اگر تم
دانت والی کنجی لاؤ گے تو اس سے جنت کا دروازہ کھلے گا ورنہ نہیں۔
کلمہ کے نواقض
اس کلمہ (لا الہ الا اللہ)کے منافی اور اس کو باطل کر دینے والے امور درج
ذیل ہیں۔
٭ہر وہ قول وفعل یا عقیدہ جو انسان کو شرک اکبر میں ڈال دے‘وہ اس کلمہ کے
منافی اوراس کلمہ کوباطل کردینے والاہے ۔ مثلاًمردوں‘فرشتوں
‘بتوں‘درختوں‘پتھروں‘ستاروںوغیرہ کوپکارنا‘یا ان سے اپنی حاجات پوری ہونے
کی امید رکھنا‘ یا ان کے لئے ذبح کرنا‘یا ان کے لئے نذر ماننا ‘یا ان کے
سامنے جھکنا(رکوع وسجدہ کرنا)وغیرہ وغیرہ۔یہ تمام امور اس کلمہ کے منافی
ہیں اور اس کے مقصد کو باطل کر دیتے ہیں۔
٭ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال جاننا۔جیسے زنا
‘شراب‘والدین کی نافرمانی‘سود وغیرہ کو حلال جاننا۔
٭یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے واجب کردہ چیزوں کا انکار کرنا۔جیسے نماز کی
فرضیت ‘زکوٰۃ‘ روزہ‘ حج‘والدین کی فرمانبرداری‘شہادتین کا زبان سے نطق
وغیرہ کا انکار کرنا۔
مذکورہ تمام امور اس کلمہ کو باطل کر دینے والے ہیں۔اس میں مذاق کرنے والا
‘سنجیدہ اور خائف تمام برابر ہیں۔البتہ مکرہ (یعنی جس کو زبر دستی مجبور
کیا گیا ہو)مستثنیٰ ہے۔
٭سو وہ اقوال وافعال اور اعتقادات جو توحید اور ایمان کو کمزور کر دیتے
ہیں‘اور اس کے کمال واجب کے منافی ہیں‘وہ بہت زیادہ ہیں۔مثلاًشرک اصغر جیسے
ریا کاری ‘ غیر اللہ کی قسم ‘ما شاء اللہ وشاء فلان کہنا‘ یا ھذا من اللہ
ومن فلان کہناوغیرہ وغیرہ۔
٭اسی طرح تمام گناہ توحید اور ایمان کو کمزور کر دیتے ہیں۔جو توحید کے کمال
واجب کے منافی ہیں۔لہذا انسان کو ایسے تمام امور سے بچنا چاہیئے ‘جو توحید
اور ایمان کو کمزور کر دیں اور ثواب میں کمی واقع ہو۔
کیونکہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک ایمان میں کمی وزیادتی ہوتی رہتی ہے۔ جس
پر واضح اور صریح دلائل موجود ہیں۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
(واذا ما انزلت سورۃ فمنھم من یقول ایکم زادتہ ھذہ ایمانافاما الذین
اٰمنوافزادتھم ایمانا وھم یستبشرون)[التوبۃ:۱۲۴]
جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے توبعض منافقین کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں
سے کسی کے ایمان کو زیادہ کیا ہے‘سو جو لوگ ایمان دار ہیں اس سورت نے ان کے
ایماان کو زیادہ کیا ہے‘اور وہ خوش ہو رہے ہیں۔
دوسری جگہ اللہ فرماتے ہیں کہ
(انما المؤمنون الذین اذا ذکر اللہ وجلت قلوبھم واذا تلیت علیھم اٰ یتہ
زادتھم ایمانا وعلیٰ ربھم یتوکلون)[الانفال:۲]
پس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے
دل ڈر جاتے ہیں‘اور جب اللہ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ
آیات ان کے ایمان کو اور زیادہ کر دیتی ہیں۔اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے
ہیں۔اسی طرح اللہ فرماتے ہیں کہ
(ویزید اللہ الذین اھتدوا ھدیً )[مریم:۷۶]
اور ہدایئت یافتہ لوگوں کو اللہ ہدائیت میں بڑھاتا ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒفرماتے ہیں کہ : جس شخص نے استطاعت کے باوجود
زبان سے کلمہ شہادت ادا نہیں کیا وہ متفقہ طور پرکافر ہے۔ہاں اگر وہ حسی یا
حکمی طور پر کلمہ پڑھنے سے عاجز و بے بس ہے تو اس کا حکم اس کی حالت پر
موقوف ہے۔
الله تعالی ہم سب كو لا الہ الا للہ کامعنیٰ‘ شرائط اور نواقض كو سمجھنے كی
توفيق عطا ء فرمائے۔آمین |