مسلمانان ہند کے نام

آج جب کہ ہندوستان کے مسلمان قیامت کے دور سے گذر رہے ہیں ‘ٹونک کے بعد کشمیر شعلوں میں جھلس رہا ہے ۔آج جب کہ شر پسندوں کے ارادے پورے ملک میں آگ لگانے کے ہیں۔ان کی نگاہیں ہماری اوقاف کی زمینوں ‘مساجد ‘مقدس مقامات اور عیدگاہوں کی اراضی پر ہے۔ آج جب کہ شہید بابری مسجد کے طرز پر پھر یہ دہشت گر د کو ئی اور مسجد ہتھیانا چاہتے ہیں اور انتظامیہ جس کے کاندھوں پر ’’ قومی سلامتی ‘‘کا فرض ہے وہ اس سے غافل ہو کر ان کی ہی ہم نوائی کر رہی ہے ۔آج جب کہ مسلم نوجوانوں کو ملک مخالف جرایم کا مجرم بنا کر جیلوں کو آباد کیا جارہا ہے ۔یا جو پہلے سے جیلوں میں ہیں ان کی بے گناہی ثابت ہونے کے باوجود انھیں رہا نہیں کیا جارہا ہے۔

ایسے قیامت قیامت حالات میں‘میں مسلمانان ہند سے مخاطب ہوں !وہ کہیں بھی رہتے ہوں ‘مشرقی ہند میں یا مغربی ہند میں۔شمال ان کا مسکن ہو یا جنوب ۔وہ وسطی ہند میں مقیم ہوں زیر یں ہند میں ۔افلاک و ارضین میں ان کا بسیر ا کہیں بھی ہو ․․․․میں سب سے درخواست گذار ہوں کہ خدا کے لیے’’ ایک ہو جا ئیے!‘‘بہت ہو چکا بگاڑ۔دوری اور افتراق کی مدت بہت طویل ہو گئی ۔بہت دن ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے خون کے پیاسے رہ لیے۔مسلکی انتشار بہت ہو گیا ․․․․․دنیا میں ہر چیز کی انتہا ہے مگر ہم انتہا کی حدوں کو بھی پار کر گئے ․․․․خدا کے لیے اب تو یہ سلسلہ رکنا چاہیے۔یہ مذموم رسم تھمنی چاہیے ․․․․ خاص طور سے ایسے حالات میں جب کہ امریکہ‘یورپ‘اسرائیل ‘ چین خود ہمارے برادران وطن اور دنیا کی تمام بڑی طاقتیں مسلم امہ کی جان کی پیاسی ہیں۔ خاص طورپر اس وقت تو ہمارا شیرزہ متحد رہے جب کہ آسمانوں میں ہماری بربادی کے مشورے کیے جارہے ہیں ۔

آسمانوں کی باتیں تو رہنے دیجیے اس وقت تو مسلمانوں کے ا تحادکی ضرورت دو چند ہوجاتی ہے جب ہما ر ے برادران وطن اپنی شر پسندیوں پر عمل درآمد کر تے ہو ئے ہماری تہذیبوں ‘ تمدن‘عبادات‘تعلیمات پر عمل اور ہدایات مقدسہ کے اپنا نے پر پابندیاں لگانے کی مانگ کررہے ہیں اور کہیں تو بلوا کر تے ہو ئے مسجدوں میں داخل ہو کر عین تراویح ‘یا نماز کے وقت ‘ یا ا س وقت جب ہم روزہ افطاکر رہے ہوں یاسجدہ ریز ہوں‘ہم پر حملے ہورہے ہیں ‘گولیوں سے ہمیں بھونا جارہا ہے ۔ہمارے قرآن اوراوراق مقدسہ کے بے حرمتی ہورہی ہے۔خاص طور پر اس وقت تو ہمیں سب کچھ بھول بھال کر گلے لگ جانا چاہیے جب یہ فرقہ پرست ‘شرپسند عناصر طوفانی بادل بن کر ہمیں غرق کر نے کو بے تاب ہیں ․․․․․․․

میں نے مانا کہ افتراق و انتشار ہماری سرشت میں داخل ہے۔ہم کبھی دیوبندی ‘بریلوی‘وہابی ‘اہل قرآن ‘اہل حدیث‘شیعہ ‘سنی وغیرہ کے گورکھ دھندو ں سے نہیں نکل سکتے ‘یہ وہ گھٹیاں ہیں جو ہمیں پیدایش کے دن سے پلائی جاتی ہیں․․․ً․․ تو آئیے ہم کسی کتاب کے پنوں کی طرح بکھریں ‘کہ جدا بھی ہیں اور جلدکے دھاگے سے مربوط اور جڑے بھی ہو ئے ہیں ۔کتاب کی طرح‘ جس کے ہر صفحے کا عنوان الگ ‘رنگ الگ ‘ہدیات الگ ‘رسم الخط جدا‘باتیں علاحدہ مگر اس قدر انتشار کے باوجود کتا ب ایک ہوتی ہے جسے معمولی حالات میں بکھیرا نہیں جاسکتا․․․․پڑھنے والا پنوں کو ایک ایک کر کے پڑھتا ہے ‘الگ الگ سب سے استفادہ کر تا ہے ۔کہیں ان کے رنگ سے متاثر ہوتا ہے او رکہیں اسے کو ئی عبارت اس کی معلومات میں اضافہ کر تی ہے۔کہیں اسے کو ئی نئی بات معلوم ہوتی اور کہیں وہ اپنے مسایل کے حل سے آگاہ ہوتا ہے ۔اس طرح کی کامل و مکمل او رمفید کتاب کو پڑھ کر وہ جوڑ کر بند کر دیتا ہے ۔آئیے ہم ایسا طریقہ تلاش کر یں جو بکھر کر بھی ہمیں ایک رکھے ۔آئیے ہم ’’قرآن و حدیث ‘‘ کے مضبوط ‘لافانی اور لازوال دھاگوں سے جڑ کر بکھریں ․․․اس طرح ہماری دشمن اقوام اولا تو ہماری جانب قدم نہیں بڑھا ئیں گی اور اگر بفرض محال ان کی نیت میں فتور آیا تو ہمارا ’’اتحاد ‘‘ان کے ارادو ں کو فنا کر دے گا ․․․․․․اور ہم ․․․․ایک رہ کر بھی اپنے ’’انتشار ‘‘کا مقصد حاصل کر لیں گے۔

یہ طریقہ اس صورت میں اپنایا جاسکتا ہے جب ہم نے قسم ہی کھالی ہو کہ دنیا چاہے ادھر سے ادھر ہو جا ئے ہمارے اوپر سے کتنے ہی خون کے دریا گذر جائیں یا چا ہے آسمان نیچے اور زمین اوپر ہو جا ئے مگر ہم اپنی ’’روش ‘‘سے جدا نہیں ہوں گے ․․․․لیکن اگر اتنا بڑا اعتصام اور التزام نہیں ہے اور ہم میں ذرا بھی غیرت ایمانی ہے نیز ہمیں اپنے اوپر منڈلاتے خطرات وطوفانوں کا احساس ہے تو خدا کے لیے میں گذارش کر تا ہوں کہ
توڑ کر مسلک کے بت کو اور خدائے رسم کو
ایک ہو جائیں مسلماں چھوڑ کر افکار کو
آزمایش کی گھڑی ہے اور طوفاں سر پہ ہے
آؤ ہم حاصل کریں یوں طیبہ کے انوار کو

میں کو ئی انوکھا واعظ نہیں ہو ں کہ جس نے پہلی بار مسلمانوں کے اتحاد کی دہائی دی ہے بلکہ عہدخیرالقرون سے ہی مسلم اتحاد کی دعوتیں دی جاتی رہی ہیں ۔علامہ اقبال تو مسلمانوں کے شیرازے کو دیکھ کر ان کے پنپنے سے ہی مایوس ہو گئے تھے ۔چنانچہ انھوں نے کہا تھا:
فرقہ بندی ہے اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپے کی یہی باتیں ہیں

اس وقت گو ایسے خطرات نہیں تھے اور نہ آج کے سے حالات۔قرآن کے ساتھ بے حرمتی نہیں ہوتی ‘مقامات مقدسہ کی توہین نہیں کی جاتی تھی ۔پہلے لوگ ذاتیات پر حملہ آور نہیں ہوتے تھے مگر آج صورت حال بہت بدل چکی ہے ۔آج اس لیے میں انتہائی دردمندی سے گذار ش کر رہاہوں کہ ہمارے ’’اتحاد ‘‘اور سب کچھ بھول کر ’’ایک ‘‘ ہونے کی عہد حاضرمیں بے انتہا ضرورت ہے ۔
مذکورہ تمام احساسات صرف باتیں ہیں اورلوگ کہتے ہیں کہ
باتوں سے بھی بدلی ہے کسی قوم کی تقدیر
بجلی کے چمکنے سے اندھیرے نہیں جاتے

مگر اس کے باوجود میری ضد اور ہٹ دھرمی ہے کہ ہمیں اب ایک ہونا ہی چا ہیے‘اب ہماری دوری کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہوگی ۔مجھے یقین ہے کہ مسلمان ضرور متحد ہوں گے ۔ جب یہود و نصاریٰ جیسے ازلی دشمن ایک ہوسکتے ہیں تو پھر میں مسلمانوں سے کیسے ناامید ہوسکتا ہوں ۔میں یہاں تک پر امید ہوں کہ اب مسلمان بہت زیادہ دنوں تک مختلف ناموں سے بھی نہیں رہ سکتے بلکہ اب ان کا ایک ہی نام ہوگا ’’مسلمان!․․․․مسلمان․․․․مسلمان!!‘‘

احساس
میں نے مانا کہ افتراق و انتشار ہماری سرشت میں داخل ہے۔ہم کبھی دیوبندی ‘بریلوی‘وہابی ‘اہل قرآن ‘اہل حدیث‘شیعہ ‘سنی وغیرہ کے گورکھ دھندو ں سے نہیں نکل سکتے ‘یہ وہ گھٹیاں ہیں جو ہمیں پیدایش کے دن سے پلائی جاتی ہیں․․․ً․․ تو آئیے ہم کسی کتاب کے پنوں کی طرح بکھریں ‘کہ جدا بھی ہیں اور جلدکے دھاگے سے مربوط اور جڑے بھی ہو ئے ہیں ۔کتاب کی طرح‘ جس کے ہر صفحے کا عنوان الگ ‘رنگ الگ ‘ہدیات الگ ‘رسم الخط جدا‘باتیں علاحدہ مگر اس قدر انتشار کے باوجود کتا ب ایک ہوتی ہے جسے معمولی حالات میں بکھیرا نہیں جاسکتا․․․․پڑھنے والا پنوں کو ایک ایک کر کے پڑھتا ہے ‘الگ الگ سب سے استفادہ کر تا ہے ۔کہیں ان کے رنگ سے متاثر ہوتا ہے او رکہیں اسے کو ئی عبارت اس کی معلومات میں اضافہ کر تی ہے۔کہیں اسے کو ئی نئی بات معلوم ہوتی اور کہیں وہ اپنے مسایل کے حل سے آگاہ ہوتا ہے ۔اس طرح کی کامل و مکمل او رمفید کتاب کو پڑھ کر وہ جوڑ کر بند کر دیتا ہے ۔آئیے ہم ایسا طریقہ تلاش کر یں جو بکھر کر بھی ہمیں ایک رکھے ۔آئیے ہم ’’قرآن و حدیث ‘‘ کے مضبوط ‘لافانی اور لازوال دھاگوں سے جڑ کر بکھریں ․․․اس طرح ہماری دشمن اقوام اولا تو ہماری جانب قدم نہیں بڑھا ئیں گی اور اگر بفرض محال ان کی نیت میں فتور آیا تو ہمارا ’’اتحاد ‘‘ان کے ارادو ں کو فنا کر دے گا ․․․․․․اور ہم ․․․․ایک رہ کر بھی اپنے ’’انتشار ‘‘کا مقصد حاصل کر لیں گے۔
IMRAN AKIF KHAN
About the Author: IMRAN AKIF KHAN Read More Articles by IMRAN AKIF KHAN: 86 Articles with 62263 views I"m Student & i Belive Taht ther is no any thing emposible But mehnat shart he.. View More