مسلمان موت سے نہیں ڈر سکتا جبکہ
مذہب یہ تعلیم نہیں دیتا ہے کہ ہمیشہ موت کے لیے تیار رہیں بلکہ آنے والے
مسائل کا بہادری سے مقابلہ کرنا سکھاتا ہے تاکہ ہم اسلام اور پاکستان کی
عزت کو بچا سکیں۔یہ الفاظ قائد اعظم محمد علی جناح نے "Muslim League
Working Committee" کے پہلے اجلاس میں کہے تھے جب آپ کا نام بطور گورنر
جنرل نامزد کیاگیا تھا۔(Stanty Wolpert)
ٓاصول و ضوابط کا پابند، قول و فعل کے تضاد سے مبرا، بے لوث راہنمااور سب
سے بڑھکر جس کا سیاسی طور پر بھی کوئی ثانی نہ تھا،ہمیں ملا۔جس نے ایک ایسی
انہونی کر دکھائی کہ کانوں کو یقین نہ ہو رہا تھا اور آنکھوں میں دھندلا سا
نقشہ تک نہ ابھر پاتا تھا کہ پاکستان بن چکا ہے۔ جبکہ ہماری نوجوان نسل اس
نظریہء پاکستان سے ہی عاری دکھائی دیتی ہے کہ اس کی خاطر کتنے گلاب مرجھا
گئے ۔ کتنوں کا خون ہوا اور کتنی ہی ماؤں اور بہنوں نے اپنی عصمتوں کو لٹا
دیا ۔ لیکن اس وقت میرا موضوع قائد اعظم یا تحریک پاکستان نہیں ہے بلکہ
موجودہ حالات ہیں کہ کس طرح پاکستان اپنا منفرد کردار ادا کرنے والا ہے جس
کی پیشن گوئیاں قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں مختلف مکاتب فکر کے لوگ
کر چکے ہیں۔ان الفاظ کو اس لیے لکھ رہا ہوں تاکہ ہم اس کے مطابق اپنے آپ کو
تیار کر سکیں اور امید دے سکوں کہ ہم پر بہت بڑی ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔
"پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ" (اقبال)
کیا ہم ان لمحات کا تصور اذہان میں لا سکتے ہیں جب یہ ملک بنا تھاکہ وہ شب
جمعہ تھی، ۲۷ رمضان المبارک ۱۳۲۲ھ (۱۴ اگست ۱۹۴۷ء)اور خصوصاََ"لیلتہ
القدر"تھی ۔ یہ لمحات اﷲ کا انعام تھے جسے پاکستان کے لوگوں کو عطا کیا
گیا۔ایسا لگ رہا تھا کہ عالم اسلام کی امامت کے لیے یہی جگہ چن لی گئی ہے۔
اور یہ وہ لمحات تھے جس کی عظمت پر تمام عالم اسلام متحد و متفق ہے۔ یہ دن
اور یہ وقت ۱۲، ۱۳ یا ۱۵ ، ۱۶ اگست بھی ہو سکتا تھا لیکن ایک اٹل فیصلہ ہو
چکا تھا۔یعنی اس میں قدرت راضی تھی کہ قرآن، پاکستان اور رمضان ایک ساتھ
رہیں گے ۔ مطلب اس خطے میں نظام قدرت ہی کار فرما رہے گا کیونکہ "پاکستان
بنا نہیں بنایا گیا تھا" ذیل میں چند اقتباسات درج ہیں جو امید دلائیں گے
کہ ہم بہت بڑا کردارادا کرنے والے ہیں کہ جس کی علامتیں ظاہر ہونے کو ہیں
بس وقت مقررہ آنے کو ہے۔ بقول اقبال۔
نصیب خطہ ہو یارب وہ بندہء درویش
کہ جس کے فقر میں انداز ہوں کلیمانہ
علامہ اقبال ہی کی زیر قیا دت ۱۹۳۰ء کے خطبے میں تصور پاکستان پیش کیا
گیاتو ایک اﷲ والے نے اس خطبہ کا اردو ترجمہ" صوفی رسالہ" میں شائع کرنے کو
کہاتو اس کا ایڈیٹر ہچکچانے لگا کہ ابھی تو پاکستان کا قیام محض ایک تجویز
ہے"دیکھیں کیا گزرے ہے، قطرے پہ گھر ہونے تک۔ وہ بزرگ کہنے لگے ! اوتھے وس
گیا ، مدینہ طیبہ وس گیا اے ۔واسو کہندا اے او وس گیا اے "
پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے جس کی بنیاد کلمہء طیبہ ہے جبکہ مدینہ طیبہ کی
حکومت کی بنیا د بھی یہی تھی۔ مدینہ طیبہ کا پہلا نام یثرب تھا جس کے
معنی"بیماریوں کا گڑھ"جبکہ پاکستان بھی پہلے ہندوستان تھا جس کی بنیاد شرک
تھا۔ تو مدینہ طیبہ بھی پاک جگہ یا شہر اور پاکستان بھی پاک جگہ یا مقام۔
پروفیسر عبدالرحمن بخاری نے تقریر میں باقاعدہ باور کرایا جسے پروفیسر سرور
شفقت صاحب نے رقمطراز کیا۔ (پاکستان انڈیا سے ایک دن پہلے آزاد ہوا اور اس
لحاظ سے اس کا انٹر نیشنل ڈائلنگ نمبر ۹۱ ہونا چاہئیے تھا لیکن اﷲ نے اس
ملک کو ۹۲ نمبر عطا کیا ۔۔۔۔۔۔کیونکہ حضرت محمدﷺ کے نام کے اعداد بھی ۹۲
ہیں اور کائنات کے بنیادی عناصر بھی ۹۲ ہیں۔یہ سب محض اتفاق نہیں ہو سکتا
بلکہ حقیقت اٹل حقیقت!
"تو بتا سالار والے اس بابے نے جمعہ کی نماز کے بعد لوگوں کے سامنے نہیں
کہا تھا کہ ایک دن آنے والا ہے جب یو این او ہر قدم اٹھانے سے پہلے پو چھے
گا کہ ! کیا مجھے قدم اٹھانے کی اجازت ہے؟ اور انہوں نے کہا تھاکہ ایسا نہ
ہو ا تو میری قبر پر آکر تھوکنا۔۔ ۔ بتا کیا اس بابے نے جھوٹ بولا تھا؟۔۔۔۔۔۔وہ
بابا جھوٹ نہیں بولتا! کیا نورپور کے بابے نے اڑھائی سو سال پہلے نہیں کہا
تھا کہ یہاں ایک اسلا می شہر آباد ہوگا( آج اس جگہ اسلام آبادہے)! " بزرگوں
کی باتیں برحق ہوتی ہیں مگر تجھ میں سمجھ کی کمی ہے۔ تو ان کی بات کا رخ
نہیں سمجھتا۔
"پاکستا ن کی کوئی حیثیت نہیں ، کچھ حیثیت نہیں ساری اہمیت اﷲ کے دین کی ہے
وہ دن آنے والا ہے جب اﷲ کے دین سے پوری دنیا منور ہو گی اور اﷲ کا بھیجا
ہوا بندہ جس سے یہ دنیا پھر سے منور ہو گی پاکستان میں آئے گاانشاء اﷲ!مگر
دیکھ کوئی حتمی بات نہیں کہ سکتا کسی کو مجاز نہیں کہ وہ حتمی بات کرے وہ
قادر مطلق ہے جو چاہے کرے ۔ آخری فیصلہ اسی کے ہاتھ میں ہے! " (کٹیا والا
بابا از ممتاز مفتی۔کتاب الکھ نگری)
اس کے لیے ہمیں تیاری کرنی ہے اور اپنے اندر وہ اوصاف پیدا کرنے ہیں جس کی
نشان دہی قائد اعظم نے اگست ۱۹۴۸ء میں اپنی ایک تقریر میں کر دی تھی ؛ قدرت
کی فیاضی نے اس ملک کو ہر دولت سے مالا مال کر رکھا ہے لیکن ضرورت محض
محنت، خلوص، ایمانداری اورمنظم ہو کر کام کرنے کی ہے اور انشاء اﷲ یہ اوصاف
میری قوم میں پیدا ہو کر رہیں گے۔ میں مسلمانوں سے مایوس نہیں ہوں کیونکہ
میرے ہادی میرے پیغمبرﷺ کی تعلیمات میں مایوسی کا لفظ تک نہیں ہے۔ پھر ایک
سادہ سا حل بھی تجویز کیا :۔ مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ وہ مصیبتوں
، مشکلوں اور طوفانوں میں گھر جائیں تو غیر اﷲ سے رشتہ توڑ کر اپنے اﷲ سے
رجوع کریں کیونکہ وہ مصیبتوں کو راحتوں میں بدلنے پر قادر ہے۔ ۔۔تو امید
رکھیے اور دوسروں کو بھی دلائیے کہ ہم اس ماہ مبارک میں سچی توبہ کریں گے
اور اپنے خدا کی طرف رجوع کر لیں گے تو یہ دنیا بھی ہماری اور آخرت
بھی۔انشاء اﷲ!
(۱۲ رمضان المبارک ۱۴۳۳ھ) |