پاکستان میں سب سے پسا ہوا طبقہ
علاقائی صحافیوں کا ہے جو چوبیس گھنٹے بغیر معاوضہ کام کرتے ہیں لیکن سب سے
زیادہ لعن طعن بھی انہیں ہی برداشت کرنا پڑتی ہیں اس میں بھی کوئی شک نہیں
ہے کہ دوسرے شعبوں کی طرح شعبہ صحافت میں بھی کالی بھیڑوں کی کوئی کمی نہیں
ہے جو ٹولیوں کی شکل میں کیمرے لے کر نکلتے ہیں اور کسی نہ کسی سے ٹھگی
کرکے اپنی دیہاڑی بناتے ہیں لیکن اچھے لوگوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔اس
افراتفری اور مادہ پرستی کے دور میں کسی شخص کا پیسے کے حصول کے علاوہ گھر
سے نکلنا یا اپنا ذاتی کام کاج چھوڑ کر کسی کے مسائل کے لئے جانا انتہائی
مشکل لگتا ہے لیکن صحافی یہ کام انتہائی خوش اسلوبی سے انجام دیتے ہیں کہیں
سے گالیاں پڑتی ہیں اور کہیں لڑائی جھگڑے بھی جبکہ بعض اوقات فائرنگ کا
سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔آئے روز صحافیوں کی شہادت کی خبریں آتی ہیں صحافی
تنظیمیں کچھ روز احتجاج کرتی ہیں بعد میں بھول جاتی ہیں کہ شہید ہونے والے
صحافی کے اہل خانہ کس کرب سے گزر رہے ہیں۔صحافیوں کی بھی درجہ بندی ہے اچھے
اداروں سے تعلق رکھنے والے بڑے شہروں کے صحافیوں کو معاشی مسائل کا سامنا
نہیں کرنا پڑتا کیونکہ ان کو معقول معاوضہ ملتا ہے لیکن ان کی بھی سیکورٹی
کی صورتحال مخدوش ہے جبکہ ضلع ،تحصیل اور قصبوں میں کام کرنے والے صحافیوں
کو نہ تو کہیں سے معاوضہ ملتا ہے اور نہ ہی کوئی سہولیات میسر ہیں بلکہ سال
میں ایک یا دو دفعہ انہیں اپنے اپنے اداروں کو سپلیمنٹ بھی دینا پڑتے ہے جس
کے لئے انہیں مقامی سیاسی شخصیات ، کاروباری اداروں اور دیگر سے اشتہارات
لینے پڑتے ہیں جو کہ اپنی جگہ ایک کٹھن مرحلہ ہے اور کئی صحافیوں کو اپنی
جیب سے بھی سپلیمنٹ دینے پڑتے ہیں ان تمام مشکلات کے باوجود ان کا صحافت
کرنا صرف اس لئے ممکن ہے کہ ان کی اپنے اپنے علاقوں میں جان پہچان اچھی
ہوتی ہے اور مقامی افسران سے ملنا عام آدمی کی نسبت ذرا آسان ہوتا ہے جس کی
وجہ سے وہ اس شعبے سے چمٹے رہتے ہیں ۔اب عام انتخابات کے نتیجے میں نئی
حکومتیں تشکیل پا چکی ہیں وزیر اعظم پاکستان جناب نواز شریف ، وفاقی وزیر
اطلاعات ونشریات پرویز رشید،وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سمیت دیگر صوبائی
وزرائے اعلیٰ سے گزارش ہے کہ قصبوں،تحصیلوں اور ضلعوں میں کام کرنے والے
صحافیوں کو درپیش مسائل کے پیش نظر ان کے لئے رہائشی کالونیز،تعلیمی وطبی
سہولتوں کی فراہمی کویقینی بنانے کے لئے فوری اقدامات کریں۔ |