حضرت زینب بنت رسول ا للہ عزوجل
وصلی اللہ علیہ وسلم ورضی اللہ عنہا کی ہجرت اور وفات :
دوجہاں کے سردار حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی سب سے بڑی
صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اعلانِ نبوت سے دس سال پہلے جبکہ
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی عمرشریف ٣٠ برس کی تھی پید ا
ہوئیںاور خالہ زاد بھائی ابو العاص بن ربیع سے نکاح ہوا۔ ہجرت کے وقت حضور
صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے ساتھ نہ جا سکیں ان کے خاوند بدر کی
لڑائی میں کفار کے ساتھ شریک ہوئے اور قید ہوئے اہل مکہ نے جب اپنے قیدیوں
کی رہائی کےلئے فدیے ارسال کئے تو حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بھی
اپنے خاوند کی رہائی کےلئے مال بھیجا جس میں وہ ہار بھی تھا جو حضرت خدیجہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جہیز میں دیا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ
والہٖ وسلم نے جب اس کو دیکھا تو خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یاد تازہ
ہوگئی آبدیدہ ہوئے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے مشورے سے یہ قرار پایا کہ
ابوالعاص کو بلافدیہ چھوڑدیا جائے اس شرط پرکہ وہ واپس جا کر حضرت زینب رضی
اللہ تعالیٰ عنہا کو مدینہ طیبہ بھیج دیں۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ
وسلم نے دو آدمی حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو لینے کے لیے ساتھ
کردئیے کہ وہ مکہ سے باہر ٹھہر جائیں اور ابوالعاص حضرت زینب رضی اللہ
تعالیٰ عنہا کو ان تک پہنچو ا دیں۔
چنانچہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے دیور کنانہ آپ رضی اللہ تعالیٰ
عنہاکو لے کر چلے ،آپ اونٹ پر سوارہو کر روانہ ہوئیں ،کفار کو جب اس کی خبر
ہوئی تو آگ بگولہ ہوگئے اور ایک جماعت مزاحمت کے لئے پہنچ گئی۔ جس میں
ہبّار بن اسودجو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے چچا زاد بھائی کا لڑکا
تھا اور اس لحاظ سے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بھائی ہوا وہ اور اس
کے ساتھ اور ایک شخص بھی تھا ان دونوں میں سے کسی نے ،اور اکثر نے ہبّارہی
کو لکھا ہے، حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو نیزہ مارا جس سے وہ زخمی ہو
کر اونٹ سے گریں چونکہ حاملہ تھیں اس وجہ سے پیٹ کا بچہ بھی ضائع ہوا۔
کنانہ نے تیروں سے مقابلہ کیا ابوسفیان نے ان سے کہا کہ محمد( صلی اللہ
تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم ) کی بیٹی اور اس طرح علی الاعلان چلی جائے یہ
گوارا نہیں۔اس وقت واپس چلو پھر چپکے سے بھیج دینا۔
کنانہ نے اس کو قبول کر لیا اور واپس لے آئے ۔دو ایک روز بعد پھر روانہ کیا
حضرت زینب کا یہ زخم کئی سال تک رہا اور کئی سال تک اس میں بیمار رہ کر ٨ھ
میںانتقال فرمایا رضی اللہ عنہا وار ضا ھاعنا ۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ
والہٖ وسلمنے فرمایا کہ وہ میری سب سے اچھی بیٹی تھی جو میری محبت میں
ستائی گئی۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، ذکربنات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،
ج٨،ص٢٦۔٢٧
و سیرۃ النبویۃ لابن ھشام،خروج زینب الی المدینۃ،ج١،ص٥٧٦)
حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جلی ہوئی پیٹھ: امیرالمومنین حضرت عمر
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک مرتبہ صحابی رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ
وسلم حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیٹھ نظر آگئی آپ رضی اللہ تعالیٰ
عنہنے دیکھا کہ پوری پشت مبارک میں سفید سفید زخموں کے نشان ہیں۔ دریافت
فرمایا کہ اے خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! یہ تمھاری پیٹھ میں زخموں کے نشان
کیسے ہیں ؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ امیرالمومنین آپ رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کو ا ن زخموںکی کیا خبر؟ یہ اس وقت کی بات ہے جب آپ ننگی
تلوار لیکر حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کا سر
کاٹنے کے لئے دوڑتے پھرتے تھے۔ اس وقت ہم نے محبت رسو ل صلی اللہ تعالیٰ
علیہ والہٖ وسلم کا چراغ اپنے دل میں جلا یا اور مسلمان ہوئے۔ اس وقت کفار
مکہ نے مجھ کو آگ کے جلتے ہوئے کوئلوں پر پیٹھ کے بل لٹا دیا میری پیٹھ سے
اتنی چربی پگھلی کہ کوئلے بجھ گئے اور میں گھنٹوں بے ہوش رہا مگر رب کعبہ
کی قسم ! کہ جب مجھے ہوش آیا تو سب سے پہلے زبان سے کلمہ لَااِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نکلا۔
امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مصیبت
سنکر آبدیدہ ہوگئے اور فرمایا: اے خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! کرتا اٹھاؤ!
میں تمھاری اس پیٹھ کی زیارت کروں گا۔ اللہ اللہ ! یہ پیٹھ کتنی مبارک و
مقدس ہے جو محبت رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمکی بدولت آگ میں
جلائی گئی ہے۔
(الطبقات الکبری لابن سعد،خباب بن الارت،ج٣،ص١٢٣)
حضرت عما ررضی اللہ تعالیٰ عنہ آگ کے کوئلوں پر: اسی طرح حضرت عمار بن یاسر
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پہلے چوب اور کوڑوں کی مار سے کفار نے نڈھال کردیا۔
پھر آگ کے دہکتے ہوئے کوئلو ں پر پیٹھ کے بل لٹا دیا۔ مگر یہ استقامت کا
پہاڑ بن کر اسلام پر ثابت قدم رہے۔ اس حالت میں حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ
والہٖ وسلم ان کے قریب سے گزرے تو حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یا
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کہہ کر پکارا ،عماررضی اللہ
تعالیٰ عنہ کی یہ مصیبت دیکھ کر رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم
کا دل صدموں سے چور چور ہوگیا اور فرمایا:
یَا نَارُ کُوْنِیْ بَرْدًاوَّسَلٰمًاعَلٰی عَمَّارٍ کَمَاکُنْتِ عَلٰی
اِبْرَاھِیْمَ
یعنی اے آگ ! تو عمار پر اس طرح ٹھنڈک او رسلامتی بن جا جس طرح تو حضرت
ابراہیم علیہ السلام پر ٹھنڈک اور سلامتی بن گئی تھی۔ رحمت عالم صلی اللہ
تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زخموں پر اپنا
دست شفقت پھیرتے ہوئے فرماتے کہ ''عمار طیب و مطیب'' یعنی عمارپاکیزہ اور
خوشبودار ہے ۔
(الطبقات الکبری لابن سعد،عمار بن یاسر، ج٣،ص١٨٨)
ہجرت حبشہ اور شعب ابی طالب: مسلمانوں کو اور انکے سردار فخرد و عالم صلی
اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کو کفار سے جب تکالیف پہنچتی ہی رہیں اور آئے
دن ان میں بجائے کمی کے اضافہ ہی ہوتا رہا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ
والہٖ وسلم نے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو اس بات کی اجازت مرحمت فرمادی
کہ وہ یہاں سے دوسری جگہ چلے جائیں۔ بہت سے حضرات نے حبشہ کی طرف ہجرت
فرمائی۔ حبشہ کے بادشاہ اگر چہ نصرانی تھے اور اس وقت مسلمان نہ ہوئے تھے
مگر ان کے رحمدل اور منصف مزاج ہونے کی شہرت تھی ۔ چنانچہ اعلانِ نبوت کے
پانچویں برس رجب کے مہینہ میں پہلی جماعت کے گیارہ یا بارہ مرد اور چار یا
پانچ عورتوں نے حبشہ کی ہجرت کی۔ مکہ والوں نے ان کاپیچھا بھی کیا کہ یہ نہ
جاسکیں،مگر یہ لوگ ہاتھ نہ آئے وہاں پہنچ کر ان کو یہ خبر ملی کہ مکہ والے
سب مسلمان ہوگئے اور اسلام کو غلبہ ہوگیا۔ اس خبر سے یہ حضرات بہت خوش ہوئے
اور اپنے وطن کی طرف لوٹے۔ لیکن مکہ مکرمہ کے قریب پہنچ کر معلوم ہو ا کہ
یہ خبر غلط تھی اور مکہ والے اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ دشمنی اور
ایذارسانی میں مصروف ہیں تو ان میں سے بعض حضرات وہیں سے واپس ہوگئے اور
بعض کسی کی پناہ لے کر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ یہ حبشہ کی پہلی ہجرت
کہلاتی ہے۔
اس کے بعد ایک بڑی جماعت نے(جو ٨٣مرد اور ١٨عورتیں بتائی جاتی ہے) متفرق
طور پر ہجرت کی اور یہ حبشہ کی دوسری ہجرت کہلاتی ہے۔ بعض صحابہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہم نے دونوں ہجرتیں کیں، اور بعض نے ایک ۔کفار نے جب دیکھا یہ لوگ
حبشہ میں چین کی زندگی بسر کرنے لگے تو ان کو اور بھی غصہ آیا اور بہت سے
تحائف کے ساتھ نجاشی شاہ حبشہ کے پاس ایک وفد بھیجا جو بادشاہ کے لئے بہت
سے تحفے لے کر گیا۔ اور اس کے خواص اور پادریوں کےلئے بھی بہت سے ہدیے لے
کر گیا۔ جاکر پادریوں اور حکام سے ملااور ہدیے دیکر ان سے بادشاہ کے یہاں
اپنی سفارش کا وعدہ لیا اور بادشاہ کی خدمت میں یہ وفد حاضر ہوا۔ اول
بادشاہ کو سجدہ کیا اور پھر تحفے پیش کرکے اپنی درخواست پیش کی اور رشوت
لینے والے حکام نے تا ئید کی۔ انھوں نے کہا اے بادشاہ! ہماری قوم کے چند
بیوقوف لڑکے اپنے قدیمی دین کو چھوڑ کر ایک نئے دین میں داخل ہوگئے جسکو ہم
جانتے ہیں اور نہ آپ جانتے ہیں، آپ کے ملک میں آکر رہنے لگے ۔ہم کو شرفائے
مکہ نے اور ان کے باپ چچا نے اور رشتہ داروں نے بھیجا ہے کہ انکو واپس
لائیںآپ ان کو ہمارے سپرد کردیں۔بادشاہ نے جواب دیا جن لوگوںنے میری پناہ
لی ہے بغیر تحقیق ان کو حوالے نہیں کرسکتا ان سے بلاکر تحقیق کرلوں اگر یہ
صحیح ہو ا تو حوالے کردوں گا۔
چنانچہ مسلمانوں کو بلایا گیا۔ مسلمان بہت پریشان ہوئے کیا کریں مگر اللہ
عزوجل کے فضل نے مدد کی اور ہمت سے یہ طے کیاکہ چلنا چاہیے اور صاف بات
کہنا چاہئے بادشاہ کے یہاںپہنچ کر سلام کیا ۔کسی نے اعتراض کیا تم نے
بادشاہ کو آداب شاہی کے موافق سجدہ نہیں کیا ان لوگوں نے کہا کہ ہم کو
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمنے اللہ عزوجل کے سوا کسی
کو سجدہ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اس کے بعد بادشاہ نے ان سے حالات دریافت
کئے حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگے بڑھے اور فرمایا:ہم لوگ جہالت میں
پڑے ہوئے تھے نہ اللہ عزوجل کو جانتے تھے نہ اس کے رسولوں علیہم السلام سے
واقف تھے۔ پتھروں کو پوجتے تھے۔ مردار کھاتے تھے۔ برے کام کرتے تھے رشتے
ناطے توڑ تے تھے ہم میں کا قوی ضعیف کو ہلاک کردیتا تھا ہم اسی حال میں تھے
کہ اللہ عزوجل نے ایک رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم بھیجا جس کے
نسب، جس کی سچائی، اور امانت داری کو ہم خوب جانتے ہیں۔ اس نے ہم کو ایک
اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کی طرف بلایا اور پتھر اور بتوں کے پوجنے سے
منع فرمایا۔ اس نے ہم کو اچھے کام کرنے کا حکم دیا۔ نماز ، روزہ ، صدقہ
خیرات کا حکم دیا اور اچھے اخلاق تعلیم کئے ۔زنا ، بدکاری ، جھوٹ بولنا،
یتیم کا مال کھانا، کسی پر تہمت لگانا اور اس قسم کے برے اعمال سے منع
فرمایا۔ہم کو قرآن پاک کی تعلیم دی ہم اس پر ایمان لائے اور اس کے فرمان کی
تعمیل کی جس پر ہماری قوم دشمن بن گئی اور ہم کو ہر طرح ستایا ہم لوگ مجبور
ہوکر تمھاری پناہ میں اپنے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے ارشاد
سے آئے ہیں۔
بادشاہ نے کہا جو قرآن تمھارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلملے کر
آئے ہیں وہ کچھ ہمیں سناؤ حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سورئہ مریم کی
اول کی آیتیں پڑھیں جسکو سنکر بادشاہ بھی رودیا اور ان کے پادری جو کثرت سے
موجود تھے سب کے سب اس قدر روئے کہ داڑھیاں تر ہوگئیں۔ اس کے بعد بادشاہ نے
کہا خداعزوجل کی قسم !یہ کلا م اور جوکلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام لیکر آئے
تھے ایک ہی نور سے نکلے ہیں۔ اور ان لوگوںسے صاف انکار کردیا کہ میں ان کو
تمھارے حوالے نہیں کر سکتا۔ وہ لوگ بڑے پریشان ہوئے کہ بڑی ذلت اٹھانی پڑی۔
آپس میں صلاح کی، ایک شخص نے کہا کہ کل ایسی تدبیر کرونگا کہ بادشاہ ان کی
جڑہی کاٹ دے ،ساتھیوں نے کہا ایسا نہیں کرناچاہئے، یہ لوگ اگرچہ مسلمان
ہوگئے ہیں مگر پھر بھی ہمارے رشتہ دار ہیں مگر اس نے نہ مانا۔ دوسرے دن پھر
بادشاہ کے پاس گئے اور جاکر کہا یہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں
گستاخی کرتے ہیں ان کو اللہ عزوجل کا بیٹا نہیں مانتے۔ بادشاہ نے پھر
مسلمانوں کو بلایا۔
صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کہتے ہیں کہ دوسرے دن کے بلانے سے ہمیں اور
زیادہ پریشانی ہوئی،بہرحال گئے ۔بادشاہ نے پوچھا تم حضرت عیسیٰ علیہ السلام
کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ انہوں نے کہا وہی کہتے ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ
تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم پر ان کی شان میں نازل ہو اکہ وہ اللہ کے بندے ہیں
اور اس کے رسول ہیں ۔وہ روح اللہ ہیںاور کلمۃاللہ ہیں جسکو خدا عزوجل نے
کنواری اور پاک مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف ڈالا۔نجاشی نے کہا حضرت
عیسیٰ علیہ السلام بھی اسکے سوا کچھ نہیں کہتے، پادری لوگ آپس میںسرگوشیاں
کرنے لگے نجاشی نے کہا تم جو چاہو کہو۔ اسکے بعد نجاشی نے وفد مکہ کے تحفے
واپس کردئیے اور مسلمانوں سے کہا تم امن سے ہو جو تمھیں ستائے اس کو تاوان
دینا پڑے گااور اس کا اعلان بھی کرادیا کہ جو شخص ان کو ستائے گا اسکو
تاوان دینا ہوگا۔
(السیرۃ النبویۃ،ذکرالہجرۃ الاولیٰ،ج١،ص٣٠٠،ارسال القریش الی الحبشۃ،ج١،
ص٣١٠)
اس کی وجہ سے وہاں کے مسلمانوں کا اکرام اور بھی زیادہ ہونے لگااوراس وفد
کو ذلت سے واپس آنا پڑا۔اس واقعہ سے کفار کا غصہ اور بھی بڑھ گیا ،دوسری
طرف حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایمان لانے نے ان کو اور بھی جلا رکھا
تھا لہٰذا ہر وقت اس فکر میں رہتے تھے کہ ان لوگوں کا ان سے ملنا جلنا بند
ہوجائے اور اسلام کاچراغ کسی طرح بجھے ۔ اس لئے سرداران مکہ کی ایک بڑی
جماعت نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب کھلم کھلا محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ
والہٖ وسلم) کو قتل کردیا جائے لیکن قتل کرنا بھی آسان کام نہ تھا اس لئے
کہ بنوہاشم بھی بڑے جتھے اور اونچے طبقہ کے لوگ شمار ہوتے تھے ان میں اگرچہ
اکثر مسلمان نہیں ہوئے تھے لیکن جو مسلمان نہیں ہوئے تھے وہ بھی حضور صلی
اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے قتل ہوجانے پر آمادہ نہیں تھے۔
اس لئے ان سب کفار نے مل کر ایک معاہدہ کیا کہ سارے بنوہاشم اور بنو
عبدالمطلب کا بائیکاٹ کیا جائے۔ نہ ان کو کوئی شخص اپنے پاس بیٹھنے دے نہ
ان سے کوئی خرید و فروخت کرے، نہ بات چیت کرے، نہ ان کے گھر جائے، نہ ان کو
اپنے گھر میں آنے دے اور اس وقت تک صلح نہ کی جائے جب تک کہ وہ حضور اکرم
صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کو قتل کرنے کے لئے ہمارے حوالے نہ کر دیں
یہ معاہدہ زبانی ہی گفتگو پر ختم نہیں ہوا بلکہ یکم محرم ٧ نبوی کو ایک
معاہدہ تحریری لکھ کر بیت اللہ میں لٹکا یا گیا تاکہ ہر شخص اس کا احترام
کرے اور اس کو پورا کرنے کی کوشش کرے اور اس معاہدہ کی وجہ سے تین برس تک
یہ حضرات دو پہاڑوں کے درمیان ایک گھاٹی میں نظر بندرہے کہ نہ کوئی ان سے
مل سکتا تھا نہ یہ کسی سے مل سکتے تھے نہ مکہ کے کسی آدمی سے کوئی چیز خرید
سکتے تھے نہ باہر سے آنے والے کسی تاجر سے مل سکتے تھے اگر کوئی شخص باہر
نکلتا تو پیٹا جاتا اور کسی سے ضرورت کا اظہار کرتا تو صاف جواب پاتا
۔معمولی سامان غلہ وغیرہ جو ان لوگوں کے پاس تھا وہ کہاں تک کام دیتا۔
آخرفاقوں پر فاقے گزرنے لگے اور عورتیں اور بچے بھوک سے بیتاب ہوکر روتے
اور چلاتے اور ان کے اعزہ کو اپنی بھوک اور تکالیف سے زیادہ ان بچوں کی
تکالیف ستاتیں۔
آخر تین برس کے بعد وہ صحیفہ دیمک کی نذ رہوا اور ان حضرات کی یہ مصیبت دور
ہوئی۔ تین برس کا زمانہ ایسے سخت بائیکاٹ اور نظر بندی میں گزرا اور ایسی
حالت میں ان حضرات پر کیا کیا مشقتیں گزری ہونگی لیکن اسکے بعد بھی صحابہ
کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نہایت ثابت قدمی کے ساتھ اپنے دین پر جمے رہے
بلکہ اس کی اشاعت فرماتے رہے۔
(شرح العلامۃ الزرقانی،دخول الشعب وخبر الصحیفۃ،ج٢،ص١٢۔السیرۃ النبویۃ،
خبرالصحیفۃ،ج٦،ص٣٢٥)
(ماخوذ از:کتاب،صحابہ کرام علیہم الرضوان کا عشق رسول)
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف و کرم سے مجھے
بس اک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم فرما مصطفی کے واسطے |