حضرت عمار ا ور ان کے والدین رضی
اللہ تعالیٰ عنہم : حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ماںباپ کو بھی
سخت سے سخت تکلیفیں پہنچائی گئیں۔ مکہ کی سخت گرم او رریتلی زمین میں ان کو
عذاب دیا جاتا اور حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کا اس طرف
گزر ہوتا تو صبر کی تلقین فرماتے اور جنت کی بشارت فرماتے، آخر ان کے والد
حضرت یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ا سی حالت تکلیف میںوفات پاگئے کہ ظالموں نے
مرنے تک چین نہ لینے دیا اور ان کی والدہ حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے
بھی سخت تکالیف اٹھائیں ابو جہل نے ان کی ناف کے نیچے بر چھا مارا جس سے وہ
شہیدہو گئیں مگر اسلام سے نہ ہٹیں حالانکہ بوڑھی تھیں ضعیف تھیں مگر اس بد
نصیب نے کسی چیز کا خیال نہیں کیا۔
اسلام میں سب سے پہلی شہادت ان کی ہے اور اسلام میں سب سے پہلی مسجد حضرت
عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بنائی ہوئی ہے۔ جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ
والہٖ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے گئے تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ
والہٖ وسلم سے عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ
علیہ والہٖ وسلم کے لئے ایک سایہ دار مکان بنانا چا ہئے جس میں تشریف رکھا
کریں اور دوپہر کو آرام فرمالیا کریں اور نماز بھی سایہ میں پڑھ لیا کریں،
تو قبا میں حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اول پتھر جمع کئے اور پھر
مسجد بنائی۔ لڑائی میں نہایت جوش سے شریک ہوتے تھے ایک مرتبہ وجد میں آکر
کہنے لگے اب جا کر دوستوں سے ملیں گے محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم
اور ان کی جماعت سے ملیں گے اتنے میں پیاس لگی اور پانی کسی سے مانگا اس نے
دودھ سامنے کیا اس کو پیا اورپی کر کہنے لگے میں نے حضور صلی اللہ تعالیٰ
علیہ والہٖ وسلمسے سنا کہ تودنیا میں سب سے آخری چیز دودھ پئے گا اس کے بعد
شہید ہوگئے، اس وقت چورانوے برس کی عمر تھی بعض نے ایک آدھ سال کم بتلائی
ہے۔ (ماخوذمن اسدالغابۃ،ج٤،ص١٤١)
ان کی والدہ حضرت سمیہ بنت خُبَّاط رضی اللہ تعالیٰ عنہا مظلومانہ شہادت کے
علاوہ اور بھی سختیاں جھیل چکی ہیں ان کو گرمی کے وقت سخت دھوپ میں کنکریوں
پر ڈالا جاتا، لوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں کھڑا کیا جاتا تاکہ دھوپ کی
گرمی سے لوہا تپنے لگے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کا ادھر سے
گزر ہوتا تو صبر کی تلقین اور جنت کا وعدہ فرماتے یہاں تک کہ سب سے بڑ ے
دشمن اسلام ابو جہل کے ہاتھوں انکی شہادت ہوئی۔ رضی اللّٰہ عنھا وارضاھا
عنا. (اسدالغابۃ،ج٧،ص١٦٧)
حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اسلام: حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ
بھی حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کے ساتھ مسلمان ہوئے ۔نبی اکرم صلی
اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم حضرت ارقم صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان
پر تشریف فرماتھے کہ یہ دونوں حضرات علیحدہ علیحدہ حاضر خدمت ہوئے اور مکان
کے دروازے پر اتفاقیہ اکٹھے ہوگئے ہر ایک نے دوسرے کی غرض معلوم کی تو ایک
ہی غرض یعنی اسلام لانا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے فیض
سے مستفیض ہونا دونوں کا مقصود تھا۔ اسلام لائے اور اسلام لانے کے بعد
جوکچھ اس زمانہ میں قلیل اورکمزور جماعت کو پیش آتا تھا وہ پیش آیا۔ ہر طرح
ستائے گئے۔ تکلیفیں پہنچائی گئیں۔ آخرکار ہجرت کا ارادہ فرمایا تو کافروں
کو یہ چیز بھی گوارا نہ تھی کہ یہ لوگ کسی دوسری جگہ جا کر آرام سے زندگی
بسر کریں۔
اس لئے جس کی ہجرت کا حال معلوم ہوتا تھا اسکو پکڑنے کی کوشش کرتے تھے کہ
تکالیف سے نجات پا نہ سکے۔ چنانچہ ان کا بھی پیچھا کیا گیا، اور ایک جماعت
ان کو پکڑنے کے لئے گئی انھوں نے اپنا ترکش سنبھالا جس میں تیر تھے اور ان
لوگوں سے کہا کہ دیکھو تم کو معلوم ہے کہ میں تم سے زیادہ تیر انداز ہوں
ایک بھی تیر میرے پاس باقی رہے گا تو تم لوگ مجھ تک آنہیں سکو گے اور جب
ایک بھی تیر نہ رہے گا تو میں اپنی تلوار سے مقابلہ کروں گا یہاں تک کہ
تلوار بھی میرے ہاتھ میں نہ رہے اس کے بعد جو تم سے ہوسکے کرنا۔ اس لئے اگر
تم چاہو تو اپنی جان کے بدلہ میں اپنے مال کا پتابتا سکتا ہوں جو مکہ میں
ہے اور دوباندیاں بھی ہیں وہ تم سب لے لو! اس پروہ لوگ راضی ہوگئے حضرت
صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا مال دیکر جان چھڑائی اس بارہ میں آیت پاک
نا زل ہوئی۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰہِط
وَاللّٰہُ رَءُ وْفٌم بِالْعِبَادِo (پ٢،البقرۃ:٢٠٧)
ترجمہ کنزالایمان: اور کوئی آدمی اپنی جان بیچتا ہے اللہ کی مرضی چاہنے میں
اور اللہ بندوں پر مہربان ہے۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم اس وقت قبامیں تشریف فرما تھے صورت
دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ نفع کی تجارت کی۔ صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے
ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم اس وقت کھجور تناول فرما رہے
تھے اور میری آنکھ دکھ رہی تھی ساتھ کھانے لگا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ
والہٖ وسلمنے فرمایا کہ آنکھ تو دکھ رہی ہے اور کھجوریں کھاتے ہو۔ میں نے
عرض کیا: حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم اس آنکھ کی طرف سے کھاتا
ہوں جو درست ہے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم یہ جواب سنکر ہنس
پڑے۔ (اسدالغابۃ،ج٣،ص٣٩)
حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے ہی خرچ کرنےوالے تھے۔ حتی کہ حضرت عمر
رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے فرمایا کہ تم فضول خرچی کرتے ہو۔ انھوں نے
عرض کیا کہ ناحق کہیں خرچ نہیں کرتا ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جب
وصال ہونے لگا تو انھیں کو جنازہ کی نماز پڑھانے کی وصیت فرمائی تھی۔
(اسدالغابۃ،ج٣،ص٤١)
حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بہنوئی اور بہن: فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ
عنہ سے کون واقف نہیں؟ قبل اسلام یہ بھی نمایاں تھے اور اسلام و اہل اسلام
کی عداوت میں سرگرم یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم
کے قتل کے درپے رہتے تھے ایک روز کفار نے مشورہ کی کمیٹی قائم کی کہ کوئی
ہے جو محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم )کو قتل کردے؟ عمر نے کہا کہ
میں کروں گا! لوگوں نے کہا بے شک تم ہی کرسکتے ہو، عمر تلوار لٹکائے ہوئے
اٹھے اور چل دئیے ۔ اسی فکر میں جا رہے تھے کہ ایک صاحب قبیلہ بنو زہرہ کے
جن کا نام حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے۔ بعض نے حضرت نعیم
کا نام لکھاہے۔ انھوں نے پوچھا عمر کہاںجارہے ہو؟کہنے لگے محمد( صلی اللہ
تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم ) کے قتل کی فکر میں ہوں۔(نغوذباللہ عزوجل) سعد نے
کہا ۔ بنو ہاشم اور بنو زہرہ سے کیسے مطمئن ہوگئے وہ تم کو بدلہ میں قتل
کردیں گے۔ اس جواب پر بگڑ گئے اور کہنے لگے معلوم ہوتا ہے تو بھی بے
دین(یعنی مسلمان) ہوگیا ہے لا پہلے تجھی کونمٹا دوں۔ یہ کہہ کر تلوار سونت
لی اور حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی یہ کہہ کر ہاں میں مسلمان
ہوگیا ہوں تلوارسنبھالی دونوں طرف سے تلوار چلنے کو تھی کہ حضرت سعد رضی
اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ پہلے اپنے گھر کی تو خبرلے تیری بہن اور بہنوئی
دونوں مسلمان ہوچکے ہیں۔
یہ سننا تھا کہ غصہ سے بھر گئے اور سیدھے بہن کے گھر گئے۔ وہاں حضرت خباب
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اڑبند کئے ہوئے ان دونوں میاں بیوی کو قرآن شریف
پڑھا رہے تھے عمر نے کواڑ کھلوائی ان کی آواز سے حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ
عنہ تو جلدی سے اندرچھپ گئے لیکن وہ صحیفہ جلدی میں باہررہ گیا جس پر آیات
قرانی لکھی ہوئی تھیں۔ ہمشیر ہ نے کواڑ کھولا عمر کے ہاتھ میں کوئی چیز تھی
جسکو بہن کے سر پر مار ا جس سے سر سے خون بہنے لگا اور کہا کہ اپنی جان کی
دشمن تو بھی بددین ہوگئی اس کے بعد گھر میںآئے اور پوچھا کیا کررہے تھے اور
یہ آواز کس کی تھی بہنوئی نے کہا کہ بات چیت کررہے تھے کہنے لگے کیا تم نے
اپنے دین کو چھوڑ کر دوسرا دین اختیار کرلیا۔ بہنوئی نے کہا اگر دوسرا دین
حق ہو تو؟ یہ سننا تھا کہ ان کی داڑھی پکڑ کر کھینچی اور بے تحاشا ٹوٹ پڑے
اور زمین پر گرا کر خوب مارا بہن نے چھڑانے کی کوشش کی تو ان کے منہ پر ایک
طمانچہ اس زور سے مارا کہ خون نکل آیا۔ وہ بھی آخر عمر ہی کی بہن تھیں کہنے
لگیں عمر !ہم کو اس وجہ سے مارا جاتا ہے کہ ہم مسلمان ہوگئے ۔ بے شک ہم
مسلمان ہوگئے جو تجھ سے ہو سکے تو کرلے۔
اس کے بعد عمر کی نظر اس صحیفے پر پڑی جو جلدی میں باہررہ گیا تھااور غصہ
کا جوش بھی اس مارپیٹ سے کم ہوگیا تھا اور بہن کے اس طرح خون میں بھر جانے
سے شرم سی آرہی تھی، کہنے لگے اچھا مجھے دکھلاؤ یہ کیا ہے بہن نے کہا کہ تو
ناپاک ہے اور اس کو ناپاک ہاتھ نہیں لگا سکتے ہرچند کوشش کی مگر وہ بے وضو
اور بے غسل کے دینے کو تیار نہ ہوئیں۔ عمر نے غسل کیا اوراس کو لے کر پڑھا
اس پرسورہ ئطٰہٰ لکھی ہوئی تھی اس کو پڑھنا شروع کیا اور '' اِنَّنِیْ
أَنَا اللّٰہُ لَآ اِلَہَ اِلَّا ۤأَنَا فَاعْبُدْنِیْلا وَاَقِمِ
الصَّلَاۃَ لِذِکْرِیْo''(پ١٦،طہ:١٤)تک پڑھا تھا کہ حالت ہی بدل گئی کہنے
لگے اچھا مجھے بھی محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے پاس لے چلو ۔یہ
الفاظ سنکر حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اندر سے نکلے اور کہا کہ اے عمر!
تمہیں خوشخبری دتیا ہوں کہ کل شب پنجشنبہ(بدھ) حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ
علیہ والہٖ وسلم نے دعا مانگی تھی کہ یااللہ عمر یا ابوجہل میں جو تجھے
زیادہ پسند ہو اس سے اسلام کو قوت عطا فرما(یہ دونوں قوت میں مشہور تھے)
معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی دعا تمہارے حق
میں قبول ہوگئی۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی خدمت
میں حاضر ہوئے اور جمعہ کی صبح کو مسلمان ہوئے۔
(تاریخ الخلفائ،فصل فی الأخبارالواردۃفی اسلامہ،ص٨٧)(ماخوذ از:کتاب،صحابہ
کرام علیہم الرضوان کا عشق رسول)
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف و کرم سے مجھے
بس اک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم فرما مصطفی کے واسطے |