یہ شہادت کہ الفت میں قدم رکھنا
ہے
لوگ سمجھتے ہیں کہ آسان ہے مسلمان ہونا
حضرت ابو بکرصدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا حال: ابتدائے اسلام میں جو شخص
مسلمان ہوتا تھا وہ اپنے اسلام کو حتی الوسع مخفی رکھتا تھا۔ حضور اقدس صلی
اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی طرف سے بھی، اس خیال سے کہ ان کو کافروں سے
اذیت نہ پہنچے، اخفا کی تلقین ہوتی تھی۔ جب مسلمانوں کی تعداد انتالیس تک
پہنچی توحضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اظہار کی درخواست کی اور
چاہا کہ کھلم کھلا علی الاعلان تبلیغ اسلام کی جائے۔ حضور اقدس صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمنے اول انکار فرمایا مگر ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ
عنہکے اصرار پر قبول فرمالیا اور ان سب حضرات رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو ساتھ
لیکر مسجدحرم شریف میں تشریف لے گئے۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے خطبہ شروع کیا، یہ سب سے پہلا خطبہ
ہے جو اسلام میں پڑھا گیا اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے چچا
سید ا لشہداء حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اسی دن اسلام لائے ہیں اور اس کے
تین دن بعد حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مشرف بہ اسلام ہوئے ہیں۔ خطبہ کا
شروع ہونا تھا کہ چاروں طرف سے کفار و مشرکین مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے ۔ حضرت
ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بھی باوجودیکہ مکہ مکرمہ میں عام طورپر
ان کی عظمت و شرافت مسلم تھی ،اس قدر مارا کہ تمام چہرہ مبارک خون میں بھر
گیا ، ناک کان سب لہولہان ہوگئے۔ پہچانے نہ جاتے تھے، جوتوں سے مارا پاؤں
میں روندا جونہ کرنا تھا سب کچھ ہی کیا، حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ بے ہوش ہوگئے، بنو تیم یعنی حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے
قبیلے کے لوگوں کو خبر ہوئی تو وہاں سے اٹھا کر لائے۔
سب کو یقین ہو چلا تھا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس وحشیانہ
حملہ سے زندہ نہ بچ سکیں گے بنو تیم مسجد میں آئے اور اعلان کیا حضرت ابو
بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہکی اگر حادثہ میں وفات ہوگئی تو ہم لوگ ان کے
بدلہ میں عتبہ بن ربیعہ کو قتل کریں گے عتبہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ
تعالیٰ عنہکو مارنے میں بہت زیادہ بدبختی کا اظہار کیا تھا۔ شام تک حضرت
ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہکو بے ہوشی رہی باوجود آوازیں دینے کے بولنے
یا بات کرنے کی نوبت نہ آتی تھی۔ شام کو آوازیں دینے پر وہ بولے تو سب سے
پہلے الفاظ یہ تھے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کا کیا حال ہے؟
لوگوں کی طرف سے اس پر بہت ملامت ہوئی کہ ان ہی کے ساتھ کی بدولت یہ مصیبت
آئی اوردن بھر موت کے منہ میں رہنے پر بات کی تو وہ بھی حضور صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ والہٖ وسلم ہی کا جذبہ اور ان ہی کے لَےْ ۔
لوگ پاس سے اٹھ کر چلے گئے ،بددلی بھی تھی، اور یہ بھی کہ آخر کچھ جان ہے
کہ بولنے کی نوبت آئی اور آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی والدہ ام خیر سے کہہ گئے
کہ ان کے کھانے پینے کیلئے کسی چیز کا انتظام کردیں۔ وہ کچھ تیار کرکے
لائیں اور کھانے پر اصرار کیا مگر حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہکی
وہی ایک صد ا تھی کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کا کیا حال ہے؟
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمپر کیا گزری؟ انکی والدہ نے کہاکہ مجھے
تو خبر نہیں کیا حال ہے، آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہنے فرمایا:ام جمیل (حضرت عمر
کی بہنرضی اﷲ تعالیٰ عنہما)کے پاس جاکر دریافت کر لو کہ کیا حال ہے؟ وہ
بیچاری بیٹے کی اس مظلومانہ حالت کی بیتا بانہ درخواست پوری کرنے کیلئے ام
جمیل رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس گئیں اور محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ
وسلم کا حال دریافت کیا۔ و ہ بھی عام دستور کے مطابق اس وقت اپنے اسلام کو
چھپائے ہوئے تھیں۔ فرمانے لگیں میں کیا جانوں کون محمد( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
والہٖ وسلم) اور کون ابوبکرصدیق (رضی اﷲ تعالیٰ عنہ) تیرے بیٹے کی حالت سن
کر رنج ہو ا اگر تو کہے تو میں چل کر اسکی حالت دیکھوں ام خیر نے قبول کر
لیا ان کے ساتھ گئیں اور حضرت ابوبکرصدیقرضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی حالت دیکھ کر
تحمل نہ کر سکیں بے تحاشا رونا شروع کر دیا کہ بد کرداروں نے کیا حال
کردیا۔ اﷲ تعالیٰ ان کو ان کے کئے کی سزا دے حضرت ابوبکرصدیقرضی اﷲ تعالیٰ
عنہنے پھر پوچھا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کا کیا حال ہے؟ ام
جمیلرضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے حضرت ابوبکرصدیقرضی اﷲ تعالیٰ عنہکی والدہ کی
طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ وہ سُن رہی ہیں،آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہنے فرمایا کہ
ان سے خوف نہ کرو ۔ ام جمیلرضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے خیریت سنائی اور عرض کیا
کہ بالکل صحیح سالم ہیں۔ آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہنے پوچھا کہ اس وقت کہاں ہیں
انہوں نے عرض کیا کہ ار قم کے گھر تشریف رکھتے ہیں۔
آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ مجھ کو خد اعزوجل کی قسم ہے کہ اس وقت
تک کوئی چیز نہ کھاؤں گانہ پیؤں گا جب تک کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ
وسلم کی زیارت نہ کرلوں۔ ان کی والدہ کو تو بیقراری تھی کہ وہ کچھ کھا لیں
اور انہوں نے قسم کھا لی کہ جب تک حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی
زیارت نہ کرلوں کچھ نہ کھاؤں گا۔ اس لئے والدہ نے اس کا انتظار کیا کہ
لوگوں کی آمدورفت بند ہوجائے۔ مبادا کوئی دیکھ لے اور کچھ اذیت پہنچائے۔ جب
رات کا بہت سا حصہ گزر گیا تو حضرت ابوبکر صدیقرضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو لیکر
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی خدمت میں ارقم کے گھر پہنچیں۔ حضرت
ابوبکرصدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہحضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم سے لپٹ
گئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم بھی لپٹ کر روئے۔ اَور مسلمان بھی
رونے لگے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہکی حالت دیکھی نہ جاتی تھی۔
اس کے بعد حضرت ابوبکرصدیقرضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے درخواست کی یہ میری والدہ
ہیں آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم ان کے لئے ہدایت کی دعا فرمادیں اور
ان کو اسلام کی تبلیغ بھی فرمادیں حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ
وسلمنے ان کو اسلام کی ترغیب دی وہ بھی اس وقت مسلمان ہوگئیں۔ (البدایہ
والنہایہ،ج۳،ص۳۰)
حضرت ابوذرغفاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہکا جذبہ اسلام: حضرت ابو ذرغفاری رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ مشہور صحابی ہیں ، جن کا شمار صحابہ کر ام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم
کے جلیل القدر زاہدوں اور عظیم علماء میں ہے، حضرت علی کر م اﷲ وجہہ کا
ارشاد ہے کہ ابوذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ایسے علم کے حامل ہیں جن سے لوگ عاجز
ہیں مگرانھوں نے اسے محفوظ رکھا ہے ۔جب ان کو حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
والہٖ وسلم کی نبوت کی پہلے پہل خبر پہنچی تو انہوں نے اپنے بھائی کو حالات
کی تحقیق کے لئے مکہ بھیجا کہ جو شخص یہ دعوی کرتا ہے کہ میرے پاس وحی آتی
ہے اور آسمان کی خبریں آتی ہیں اسکے حالات معلوم کریں اور اس کے کلام کوغور
سے سنیں۔
وہ مکہ مکرمہ آئے اور حالات معلوم کرنے کے بعد اپنے بھائی سے جا کر کہا کہ
میں نے ان کو اچھی عادتوں اور عمدہ خیال کا حکم کرتے دیکھا اور ایک ایسا
کلام سنا جو نہ شعر ہے اورنہ کاہنوں کی خبریں۔حضرت ابوذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
کو اس مجمل بات سے تشفی نہ ہوئی، تو خود سامان سفر کیا اور مکہ پہنچے اور
سیدھے مسجد حرام میں گئے، حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کو پہچانتے
نہ تھے اورکسی سے پوچھنا مصلحت کے خلاف سمجھا، شام تک اسی حال میں رہے۔ شام
کو حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے دیکھا کہ ایک پردیسی مسافر ہے، مسافروں، غریبوں
، پردیسیوں کی خبر گیری اور ان کی ضرورت کا پور ا کرنا ان حضرت رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ کی عادت و طبیعت تھی، اس لئے ان کو اپنے گھرلے آئے میزبانی
فرمائی۔ لیکن ان سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ سمجھی کہ کون ہو اور کیوں آئے،
مسافر نے بھی کچھ ظاہر نہ کیا، صبح کو پھر مسجد میں آگئے تاکہ آپ صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمکے متعلق کسی سے کچھ دریافت کریں،لیکن کوئی ایسا شخص
نظرنہ آیا جو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمکے متعلق کچھ بتاتا۔دوسری
شام کو بھی حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو خیال ہو اکہ پردیسی مسافر ہے
بظاہر جس کیلئے آیا ہے وہ پوری نہیں ہوئی اس لئے پھر اپنے گھر لے گئے اور
رات کو کھلایا سلایا مگر پوچھنے کی اس رات کو بھی نوبت نہیں آئی۔
تیسری رات کو پھر یہی صورت ہوئی۔ تو حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے دریافت
کیا کہ تم کس کام کیلئے آئے ہو کیا غرض ہے؟ تو حضرت ابوذررضی اﷲ تعالیٰ عنہ
نے قسم اور عہدوپیمان کے بعد ان کو غرض بتائی۔ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے
فرمایا : وہ بے شک اﷲ عزوجل کے رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم ہیں اور
صبح کو جب میں جاؤں تو تم میرے ساتھ چلنا ،میں وہاں تک پہنچا دوں گا، لیکن
مخالفت کا زور ہے، اس لئے راستہ میں اگر مجھ سے کوئی ایسا شخص ملا جس سے
میرے ساتھ چلنے کی وجہ سے تم پر کوئی اندیشہ ہو تو میں استنجاء کے لیے رک
جاؤں گا یا اپنا جوتا درست کرنے لگوں گا، تم سیدھے چلے چلنا میرے ساتھ
ٹھہرنا نہیں جس کی وجہ سے تمہارا میرا ساتھ ہونا معلوم نہ ہو۔ چنانچہ صبح
کو حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کے پیچھے پیچھے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ
وسلم کی خدمت میں پہنچے وہاں جاکر بات چیت ہوئی، اسی وقت مسلمان ہوگئے۔
حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے انکی تکلیف کے خیال سے فرمایا
کہ اپنے اسلام کو ابھی ظاہر نہ کرنا چپکے سے اپنی قوم میں چلے جاؤ، جب ہمار
ا غلبہ ہوجائے اس وقت چلے آنا۔ انھوں نے عرض کیا یا رسول اﷲ! عزوجل وصلی اﷲ
تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ اس
کلمہ توحید کو ان بے ایمانوں کے بیچ میں چلا کرپڑھوں گا، چنانچہ اسی وقت
مسجد حرام میں تشریف لے گئے اور بلند آواز سے اَشْھَدُ اَنْ لَّآ ِالٰہَ
اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًارَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھا۔ پھر
کیا تھا چاروں طرف سے لوگ اٹھے اور اس قدر مارا کہ زخمی کردیا، مرنے کے
قریب ہوگئے۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو
اس وقت مسلمان بھی نہیں ہوئے تھے ،ان کے اوپر بچانے کے لئے لیٹ گئے اور
لوگوں سے کہا کیا ظلم کرتے ہو یہ شخص قبیلہ غفار کا ہے اور یہ قبیلہ ملک
شام کے راستہ میں پڑتا ہے ، تمہاری تجارت وغیرہ سب ملک شام کے ساتھ ہے اگر
یہ مرگیا تو شام کا آنا جانا بند ہوجائیگا ۔اس پر ان لوگوں کو بھی خیال
ہواکہ ملک شام سے ساری ضرورتیں پوری ہوتی ہیں ، وہاں کا راستہ بند ہوجانا
مصیبت ہے اس لئے ان کو چھوڑدیا دوسرے دن پھر اسی طرح انھوں نے جاکر با آواز
بلند کلمہ پڑھا اور لوگ اس کلمہ کوسننے کی تاب نہ لاسکتے تھے۔ اس لئے ان پر
ٹوٹ پڑے ، دوسرے دن بھی حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اسی طرح انکو سمجھا
کر ہٹایاکہ تجارت کا راستہ بند ہوجائے گا۔
(صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب قصۃ اسلام أبی ذرالغفاری رضی اﷲ عنہ،
الحدیث:۳۵۲۲۔۳۸۶۱،ج۲،ص۴۸۰)
حضرت ابوذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کایہ جوش اظہار غلبہ حق کے ولولہ کی بنا پر
تھا اور سرکار صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کا منع اظہار شفقت کی بنیاد
پر ، لیکن حضرت ابوذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے دیکھا کہ سرکار صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ والہٖ وسلم جب خود مصائب جھیل رہے ہیں تو ہمیں پیچھے رہنے کی کیا
ضرورت ؟ اس لئے اپنی راحت پر سرکار صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے
اتباعِ عمل کو ترجیح دی اور پھر اطاعت حق میں ہمیشہ سرگرم رہے۔(ماخوذ
از:کتاب،صحابہ کرام علیہم الرضوان کا عشق رسول)
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف و کرم سے مجھے
بس اک بار کہا تھا میں نے یا اﷲ مجھ پر رحم فرما مصطفی کے واسطے |