لباس انسانی شخصیت کا آئینہ دار
ہوتا ہے۔ انسان اور لباس کا تعلق زمانہ قدیم سے ہے۔ لباس، جسے انسان نے
اپنے آپ کو محفوظ کرنے کیلئے بنایا تھا، آپ کی تہذیب اور وقار کی علامت
ہوتا ہے۔
یہ آپ کی شخصیت اور مزاج کے علاوہ آپ کی ثقافت،تہذیب کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
موزوں لباس کا انتخاب جہاں آپ کی شخصیت کو نکھارتا ہے، وہاں نا مناسب لباس
کے انتخاب سے آپ کی شخصیت کا منفی تاثر قائم ہوتا ہے۔ لباس کے انتخاب میں
مختلف عوامل اثر انداز ہوتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب انسان کی پہچان اس کے لباس
سے ہوتی تھی کیونکہ اس کا لباس اس کے علاقے کو نمایاں کرتا تھا۔ اس کی وجہ
شاید یہ بھی ہوسکتی ہے کہ لباس کو ہر علاقے کی ضرورت کے مطابق بنایا گیا
تھا۔ جیسے گرم اور سرد علاقے کے ملبوسات میں کافی فرق ہوتا تھا۔ مختلف
تہواروں پر مخصوص لباس پہنے جاتے۔ہمارے یہاں شلوار قمیض پہنی جاتی ہے اور
شیروانی کو قومی لباس کہا جاتا ہے۔ ہماری نوجوان نسل نئے کلچر کے رنگ میں
رنگی جا رہی ہے ہیں۔ درس گاہیں جوکہ کبھی درس و تدریس کا مرکز ہوا کرتی
تھیں اب ایک فیشن شو کی طرح نظرآتی ہیں۔ تعلیم کوجہاں اہمیت دینی چاہیے تھی
وہاں لباس کوزیادہ ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ جامعات جہاں پر کسی دور میں
تعلیمی اور ادبی مقابلے ہوا کرتے تھے، اب وہاں پر مہنگے ملبوسات کے مقابلوں
نے ان کی جگہ لے لی ہے۔ طالب علم مہنگے لباس پہنتے ہیں اور غور طلب بات تو
یہ ہے کہ برینڈز کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ ان میں سے بھی مہنگے برینڈز کو
ترجیح دی جاتی ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ مغرب نے جہاں مسلمانوں کو کلچر
کو تبدیل کرنے کی کوشش کی، وہاں اس کے برعکس ردعمل ہوا اب اسلامی ملکوں ہی
میں نہیں دنیا بھر میں اسلامک فیشن کی اہمیت ہوگئی ہے۔ لباس کے انتخاب میں
پہلے مذہبی اور ثقافتی پہلوؤں کو پیش نظر رکھا جاتا تھا۔فیشن کی دنیا میں
’’ اسلامک فیشن انڈسٹری ‘‘کا رجحان بڑی تیزی سے فروغ پارہا ہے۔ اس انڈسٹری
کا سب سے اہم جز ’عبایا‘ ہے جو مسلمان خواتین ملبوسات کے اوپر پہنتی ہیں۔
عبایا کی مختلف کلرز، ڈیزائنز اور ورائٹی کی موجودگی کے سبب اس کی خرید
وفروخت خاص کر دبئی اور دیگر خلیجی ممالک میں ایک منافع بخش کاروبار کی
حیثیت اختیار کر تی جا رہی ہے-
حال ہی میں انڈونیشین دارالحکومت جکارتہ میں اسلامک فیشن شو ہوا مگر یہ
کوئی روایتی فیشن شو نہیں تھا، یہاں جسم نمایاں کرنے والے ملبوسات، برہنہ
ٹانگیں وغیرہ کے نظارے موجود نہیں تھے۔ لیکن اس کے باوجود لوگوں کی اس میں
دلچسپی موجود تھی۔ ہ اسلامک فیشن فیئر شو میں شریک ہر ماڈل سر سے پاؤں تک
ڈھکی ہوئی تھی۔
دبئی میگزین ’’عربین بزنس ‘‘ نے ایک سروے کرایا جس کے مطابق دبئی میں جس
کمپنی کے سب سے زیادہ عبایا مشہور ہیں وہ ہے ’عبایا ایڈیکٹ‘۔ خلاف توقع اسے
میڈیکل کے پیشے سے وابستہ ڈاکٹر ڈی اننا خلیل نے اپنے شوہر احمد ایوب کے
ساتھ ملکرقائم کیا تھا۔ قسمت نے ان کا بھر پور ساتھ دیا اور عبایا ایڈکٹ
دیکھتے ہی دیکھتے ہرجگہ مقبول ہوگئی۔
’’ اسلامک فیشن ابھی بالکل نیا تصور ہے اور اس میں کوئی مارکیٹ لیڈر موجود
نہیں۔کچھ ڈیزائنرز عبایا ڈیزائن کررہے ہیں لیکن وہ ایک عام مسلمان عورت کے
روزمرہ پہننے کے لئے لمبی اور ڈھیلی ڈھالی آستیوں والے لباس کے لئے کوئی
نئی چیز مارکیٹ میں نہیں لا رہے۔ ان لوگوں کے لئے ،جو بہت زیاد جدید انداز
کے فیشن کے بجائے معتدل فیشن پر یقین رکھتے ہیں، کچھ عرصے پہلے تک کہا جا
رہا تھا کہ جو کلچر ہماری یونیورسٹیوں میں نظر آتا ہے وہ ہمارے اسلامی
معاشرے اور تہذیب کے بالکل برعکس ہے۔ ہماری ثقافت ہم سے دور ہوتی نظر آتی
ہے۔انہیں اپنی ثقافتی اقدار اور ان کی اہمیت سے روشناس نہیں کرایا اور نہ
ہی یہ بتایا جاتا لیکن اس کے باوجود اسلامی دنیا سے وابستہ لوگ سمجھتے ہیں
کہ فیشن میں عریانیکی وجہ سے کیا نقصانات ہورہے ہیں اور ہمیں اور ہماری
تہذیب کو کون سے مسائل درپیش ہیں۔ ہماری ثقافت میں قومی اور علاقائی
ملبوسات کو بھی اہمیت ہے ۔ یہ ملبوسات ہمارے کلچر کا حصہ ہیں۔اور ہماری الگ
شناخت کا اظہار بھی ہیں۔ اس وقت اس بات کی ضرورت بھی ہے کہ ہم ایک ایسے
معاشرے کو تشکیل دے سکیں جوکہ اپنی تہذیب و ثقافت سے گہرا تعلق رکھتا ہو۔
بھارت اپنی فلموں اور ڈراموں سے اپنی ثقافت کی یلغار کئے ہوئے ہے۔ لیکن
ابھی ہمارے لوگوں کو سمجھ ہی نہیں کہ اسلامی فیشن کی کتنی بڑی مارکیٹ ہے۔
رواں سال نومبر میں’عبایا ایڈیکٹ‘ ملائیشیا میں ہونے والے مرسیڈیز بینز
فیشن ویک میں بھیحصہ لے رہی ہے۔ جبکہ لاس اینجلس ، نیویارک ،میامی
،شکاگواور ٹیکساس میں ہونے والے فیشن شوز میں بھی کمپنی کی شرکت یقینی ہے۔
مڈل ایسٹ اور دبئی ایسی مارکیٹ ہے جس میں اسلامک فیشن کے حوالے سے بہت
گنجائش موجود ہے۔مغربی اور پین ایشین ملکوں میں پہلے ہی یہ فیشن اپنی جگہ
بنا چکا ہے۔ فیشن کی دنیا کے ایک ماہر کا کہنا ہے ’بلومبرگ ‘کے تازہ سروے
نے اسلامک فیشن انڈسٹری کے بارے میں جاننے کے لئے جو سرو ے کیا اس میں
چونکا دینے والا انکشاف ہوا کہ اسلامک فیشن کی مارکیٹ کا حجم96بلین ڈالرز
ہے۔‘
عبایا ایڈیکٹ کی جانب سے کرائے جانے والے آن لائن سروے کے مطابق معتدل فیشن
صرف مسلمانوں تک محدود نہیں۔سروے میں حصہ لینے والے دس فیصد عیسائی مذہب کے
ماننے والے بھی تھے جنھیں چرچ جاتے وقت کسی مناسب لباس کی ضرورت ہوتی
ہے۔سات سو میں سے 70فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں مارکیٹ میں کوئی ایسی
چیز دستیاب نہیں جو مکمل طور پرکور بھی کرے اور اسٹائلش اور فیشن ایبل بھی
ہو۔
اب بڑے بڑ ے فیشن ڈیزائنرز بھی مناسب فیشن کی طرف لوٹ رہے ہیں۔’’ ویلن
ٹینو‘‘نے بھی لمبی آستین والے ڈھیلے ڈھالے لباس بنانے شروع کر دئیے ہیں
کیونکہ وہ جانتا ہے یہ ایک بڑی مارکیٹ ہے خاص طور پر یورپ میں اس کی بڑی
مانگ ہے۔ یورپ میں 34ملین مسلمان بستے ہیں۔صرف 10ملبوسات کے ساتھ ویب سائٹ
سے اپنے کام کا آغاز کرنے والی ’عبایا ایڈیکٹ‘ کے اب ہر مہینے 500آٹئمز
فروخت ہوتے ہیں اور فیس بک پر اسے فالوکرنے والوں کی تعداد 27,000ہے ۔
پاکستان کے فیشن کے دل کراچی میں حجاب کے استعمال میں مسلسل اضافہ ہورہا
ہے۔ حجاب سے مراد خواتین کا دوپٹے یا اسکارف سے منہ یا سر کا ڈھکنا ، نقاب
لگانا یا باقاعدہ برقع اوڑھنا ہے۔ عجب اتفاق ہے کہ ایک دور میں پورے ملک کا
فیشن کراچی کو دیکھ کر بدلتا تھا مگر اب یہی شہر ’’پردہ ‘‘کرنے میں باقی
ملک اور خاص کر سندھ اور پنجاب سے آگے نکل رہا ہے۔
کراچی یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک اسٹیڈیز کے لیکچرارعبدالرحمن کہتے ہیں کہ
ایک اندازے کے مطابق شہر میں حجاب استعمال کرنے والی خواتین کی تعداد اگر
کچھ سال پہلے تک 25یا 30فیصد تک تھی تو اب یہ تعداد تقریباً50فیصد ہوگئی
ہے۔ عبدالرحمن کا کہنا ہے کہ پہلے ان کے ڈپارٹمنٹ میں پردے میں آنے والی
طالبات کی تعداد 100میں سے 12یا 13ہواکرتی تھی تو اب یہ تعداد 50فیصد سے
بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ گزشتہ دنوں ملک بھر میں ’’ یوم حجاب ‘‘منایا گیا ہر
جگہ اس دن کے حوالے سے پوسٹرز اور بینرز دکھائی دیئے۔ رمضان کی آمد کے ساتھ
کراچی کی مارکیٹوں میں بھی عبایا مقبول ہے۔ ’یوم حجاب‘ فرانس میں مسلم
خاتون مروہ الشربینی کے حجاب لینے پر چھڑنے والے تنازع اور بعد ازاں اس کے
قتل کے سبب پاکستان میں شہرت کی وجہ بنا۔ قتل کا واقعہ کچھ سال پہلے 4
ستمبر کو پیش آیا تھا تب سے ہر سال اسی دن یوم حجاب کے طور پر منایا جاتا
ہے۔پاکستان کی دینی و مذہبی جماعتیں خاص طور پر اس دن کا اہتمام کرتی ہیں۔
یوم حجاب کی مناسبت سے کراچی میں عربی طرز کے برقعے ’’عبایا‘‘ عام ہونے لگے
ہیں۔ کسی زمانے میں سر تا پاؤں ایک ہی رنگ کا برقع چلا کرتا تھا جسے اس کی
بناوٹ کے سبب ’’شٹل کاک برقع‘‘ بھی کہا جاتا تھا مگر اب یہ صرف خیبر پختواہ
یا بلوچستان تک محدود ہوگیا ہے ، اس کے مقابلے میں کراچی میں عبایا بہت
زیادہ استعمال ہوتا ہے۔
اس وقت شہر کی تقریباً ہر بڑی چھوٹی دکان میں عبایا اور حجاب فروخت ہورہے
ہیں۔ یہ مختلف اقسام اور اسٹائل کے ہوتے ہیں۔ ان میں کئی قسم کی کڑھائی اور
موتیوں کا کام بھی کیا جاتا ہے۔ ایسا عبایا یا اسکارف بہت زیادہ مقبول ہے۔
خواتین اور نوجوان لڑکیاں چمک دمک والے اور نت نئے اسٹائلز والے عبائے اور
اسکارف استعمال کر رہی ہیں۔
حجاب کی بڑھتی ہوئی مانگ کے سبب بازارو ں میں حجاب کی دکانوں میں بھی اضافہ
دیکھنے میں آرہا ہے۔جو دکانیں پہلے صرف کپڑوں کی ہوا کرتی تھیں اب ان پر
صرف عبایا فروخت ہوتے ہیں۔حجاب کی بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے قیمتوں میں
بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ایک دکاندارنے اس بارے میں بتایا کہ عبائے کی قیمت اس
کے کپڑے اور اس کی کڑھائی و موتیوں کے کام پر منحصر ہوتی ہے۔ مارکیٹ میں دو
ہزار سے لے کر آٹھ ہزار تک کے عبائے اور برقعے فروخت ہورہے ہیں۔ انہوں نے
بھی اس بات کی تصدیق کی کہ حجاب اور عبائے کے استعمال میں بہت تیزی سے
اضافہ ہورہا ہے۔
ایک اور دکاندار نے بتایا کہ ہر خریدار خاتون نئے سے نئے اسٹائل والے اور
کام والے عبائے مانگتی ہے جسکی وجہ سے عبایا بنانے والے کارخانوں میں اضافہ
ہوگیا ہے جبکہ عبائے کے کاریگروں کی مانگ بھی برھ رہی ہے۔ انہوں نے مزید
کہا کہ ایک وقت تھا کہ بھاری کام والے کپڑے زیادہ فروخت ہوتے تھے لیکن اب
کپڑوں کے ساتھ ساتھ برقعوں اور عبایوں کی خریدوفروخت بڑھ رہی ہے۔دوسری جانب
عرب دنیا بھی بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔ سوچ کے اعتبار سے ، معاشرتی اعتبار
سے یہاں تک کہ اٹھنے بیٹھنے کے اعتبار سے بھی یہاں واضح فرق نظر آرہا ہے۔۔۔
اب یہاں بھی وقت سے آگے نکلنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ تبدیلی کے اثرات مردوں
تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ عورتوں نے بھی جدید دنیا کے تراش خراش کو اپنا
لیا ہے۔ایک زمانہ تھا جب کسی عرب شہزادی کی عوامی مصروفیت کے بارے میں کوئی
سوچ بھی نہیں سکتا تھا مگر آج یہاں کی خواتین نہ صرف اپنے لباس کے انتخاب
میں آزاد ہیں بلکہ وہ انتہائی فیشن ایبل دنیا کے معروف ڈریس ڈیزائنررز کے
جدید تراش خراش والے کپڑے پہن کر مردوں کے شانہ بہ شانہ’ مووو‘ کرتی نظرآتی
ہیں۔ ایسی خواتین کو ’’مسلم دنیا کا جدید چہرہ‘‘ قرار دیا ہے۔آج کے دورمیں
مسلم شاہی خاندانوں کی خواتین ناصرف اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں بلکہ وہ انسانی
فلاح و بہبود کے کاموں میں بھی پیش پیش نظر آتی ہیں۔یہ خواتین انتہائی جدید
طرز زندگی رکھنے والی خواتین ہیں۔ ذیل میں ان کی معاشرتی زندگی پر ایک نظر
ڈالی گئی ہے، ملاخطہ کیجئے:
قطر کی شیخا موذہ بنت نصر ال مسنید
قطر یونیورسٹی سے سماجیات کی ڈگری رکھنے والی شیخا موذہ، قطر فاونڈیشن ،
الجزیرہ ٹی وی کے بچوں کے چینل اور قطر لگژری گروپ کی سربراہی انتہائی
کامیابی سے کر رہی ہیں۔60 سالہ موذہ امیر قطر حماد بن خلیفہ الثانی کی تین
بیویوں میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ان کا شمار دنیا کی بہترین خوش لباس خواتین
میں کیا جاتا ہے۔ موذہ منفرد انداز کے حجاب استعمال کرنے کے لئے شہرت رکھتی
ہیں۔عام طور پر وہ پگڑی کی شکل کے حجاب استعمال کرتی ہیں جو انتہائی مہنگے
اور گلیمرس ہوتے ہیں۔مراکش کی شہزادی لالہ سلمیٰ
کفتان کے ملبوسات سے شناخت کی جانے والی شہزادی لالہ آئی ٹی انجینئر
ہیں۔وہ’’ لالہ سلمیٰ کینسر فاونڈیشن ‘‘کی بانی اورعالمی ادارہ صحت کی
ایمبسیڈر ہیں۔ سلمیٰ شاہ محمد ششم کی بیو ی اوردو بچوں کی والدہ ہیں۔ان کی
خاص پہچان کفتان سلک کے ملبوسات اور کمر کے گرد پہنی گئی بیلٹ ہے۔۔ان کی
باوقار نند شہزادی مریم اور ان کی بیٹی شہزادی سکینہ ان کی ہی طرح اپنے
بہترین گلیمرس لباس کی وجہ سے شہرت رکھتی ہیں۔
اردون کی ملکہ رانیہ
امریکن یونیورسٹی قاہرہ سے بزنس کی ڈگر ی حاصل کرنے والی ملکہ رانیہ اردن
کے شاہ حسین دوئم سے شادی سے قبل سٹی بینک اور’’ اپیل‘‘ کے ساتھ وابستہ
تھیں۔انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی ملکہ رانیہ یونیسیف ، ورلڈ اکنامک
فورم اور انٹرنیشنل یوتھ فاونڈیشن میں بھی فعال کردار ادا کرتی ہیں۔
تینتالیس سالہ ملکہ رانیہ کا شمار دنیا بھر کے صف اول کے فیشن آئیکون میں
کیا جاتا ہے۔وہ اپنی دن بھر کی مصروفیات کے دوران ٹخنوں تک لمبے ملبوسات
اور جیکٹس استعمال کرتی ہیں جبکہ ریڈ کارپٹ کے لئے گاون پہننا پسند کرتی
ہیں۔نقادوں نے ملکہ رانیہ کو دورہ فرانس کے دوران کارلا برونی سرکوزی سے
زیادہ خوش لباس قرار دیا تھا۔
اردون کی شہزادی ثروت الحسن
پاکستانی نڑاد کراون پرنسیس ثروت الحسن کا پہناوا روایتی ساڑھیاں اور
ڈیزائنررز کوٹ ہیں۔ان کے پسندیدہ ڈیزائنرز رضوان بیگ ہیں۔تین دھائیوں سے
کراون پرنسیس چلی آ رہی کیمبرج سے تعلیم یافتہ تائی کوانڈو میں بلیک بیلٹ
حاصل کرنے والی شہزادی ثروت کے والد محمد اکرام اﷲ پاکستان کی وزارت خارجہ
کے فرسٹ سیکریٹری تھے جبکہ ان کی والدہ بیگم شائستہ سہروردی پاکستا ن کی
ابتدائی خواتین پارلیمنٹرینز میں شامل تھیں۔
سعودی شہزادی عمیرہ التاویل
سعودی شہزادے ولید بن طلال آل سعود کی چوتھی بیوی عمیرہ التاویل الولید بن
طلال فاونڈیشن کی ایگزیکٹو کمیٹی کی سربراہ ہیں اور سیلاب کے وقت امدادی
کارروائیوں کے سلسلے میں پاکستان کا دورہ کر چکی ہیں۔برطانوی شاہی شادی میں
ان کا زیب تن کیااورزہیر مراد کا ڈیزائن کردہ لباس سب کی توجہ کا مرکز رہا۔
عمیرہ سعودی شاہ عبداﷲ کی چہیتی ہیں۔ اسلامی دنیا مغرب سے فیشن میں مقابلے
کے ساتھ ساتھ کھیم میں بھی موجود ہے۔ کچھ عرصہ قبل جوڈو کراٹے کی عالمی
تنظیم نے سعودی عرب کی خاتون ایتھلیٹ وجدان علی سراج کے حجاب پہن کر
مقابلوں میں حصہ لینے کو جوڈو کے اصولوں اور قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے
ہوئے، اولمپکس میں حجاب پہن کر کھیلنے پر پابندی لگا دی تھی جس پر سعودی
حکومت نے شدید ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے اولمپکس مقابلوں سے بائیکاٹ کی
دھمکی دی تھی۔
فیشن کیا ہے؟ کہا جاتا ہے جب بھی کوئی پرانا یا نیا طور طریقہ کسی بھی دور
کے لوگوں کے رہن سہن کے مروجہ طریقوں میں رواج پا جائے وہی بنیادی طور پر
اس دور کا فیشن کہلاتا ہے۔فیشین کا لفظ اتنا وسیع ہے کہ اپنے اندر ہزاروں
سالوں کے رواج اور خصوصیات سمیٹ سکتا ہے۔ یہ صرف کپڑوں یا میک اپ کا ہی
نہیں ہوتا بلکہ گھر میں پینٹ کے رنگوں اور کھانا سرو کرنے والے برتنوں سے
لے کر اپنے لان میں پھولوں اور پودوں کی کانٹ چھانٹ سمیت ہر چھوٹی سے چھوٹی
بات کو اپنے اندر سمو لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اکثر یہ ہوتا ہے کہ جو فیشن
چل پڑا باقی سب آنکھیں بند کئے ویسے ہی کپڑے بنوا لاتے ہیں۔ یہ بھی نہیں
سوچا ہوتا کہ اس ٹائپ کے کپڑے ہماری شکل, عمر, قد کاٹھ , اور رنگ و روپ کو
سجانے کا باعث بنیں گے یا لوگوں کو مفت میں ہنسانے کا سبب ہوں گے۔ حجاب یا
اسلامک فیشن غیر مسلم خاندانوں میں بھی مقبول ہے۔ برطانیہ کی نوروچ
یونیورسٹی کی اکیس سالہ طلباء جیسی روڈز کا کہنا ہے’ میں ہمیشہ حجاب پہننے
کی کوشش کرتی ہوں تاہم میرے خیال میں ایک غیر مسلم عورت ہونے کی وجہ سے یہ
ایک آپشن نہیں ہے‘۔ انہوں نے بتایا جب ان کی دوست نے انہیں حجاب پہننے کا
موقع فراہم کیا تو اس کے بعد انہوں نے اس کا استعمال شروع کیا۔ جیسی روڈز
کے مطابق ان کی دوست نے انہیں اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ حجاب استعمال
کرنے کے لیے مسلمان ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور ظاہری طور پر اس کا اسلام سے
کوئی تعلق نہیں ہے۔ جیسی روڈز ان ہزاروں غیر مسلم خواتین میں سے ایک ہیں جو
اب حجاب استعمال کر رہی ہیں۔ حجاب استعمال کرنے کی تحریک کی ابتدا نیویارک
کی ایک خاتون ناظمہ خان نے کی جن کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے۔ انہوں نے سماجی
رابطے کی ویب سائٹس کے ذریعے اس تحریک کو منظم کیا جس نے پوری دنیا کے پچاس
ممالک کی مسلم اور غیر مسلم خواتین کو متاثر کیا۔ متعدد افراد کے لیے حجاب
ظلم و ستم اور تقسیم کا نشان ہے اور مغربی ممالک میں حجاب اسلام کے بارے
میں بحث کا ایک آسان ہدف سمجھا جاتا ہے۔ حجاب کی تحریک منظم کرنے والی
ناظمہ خان نے بتایا کہ جب وہ گیارہ برس کی عمر میں بنگلہ دیش سے نیویارک
آئیں تو حجاب استعمال کرنے کی وجہ سے ان کے ساتھ برا سلوک روا رکھا گیا۔ ان
کے مطابق جب وہ نیویارک کے سکول میں پڑھتی تھیں تو انہیں ’حجابی لڑکی‘ کہا
جاتا تھا، جب وہ مڈل سکول میں تھیں تو انہیں ’بیٹ مین‘ یا ’ننجا‘ کے نام سے
پکارا جاتا تھا۔ ناظمہ خان نے بتایا کہ گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے بعد جب
وہ کالج پہنچیں تو انہیں ’اسامہ بن لادن‘ یا ’دہشت گرد‘ کہا جاتا تھا۔
ناظمہ خان کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ ایک دن ان کی اس مہم کو پوری
دنیا کی حمایت حاصل ہو جائے گی۔ ناظمہ خان کا کہنا ہے کہ برطانیہ،
آسٹریلیا، بھارت، پاکستان، فرانس اور جرمنی میں موجود درجنوں افراد نے ان
سے رابطہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ جیسی روڈز اور ان کی دوست ودیان نے سماجی
رابطے کی ویب سائٹ فیس بک کے ذریعے اپنے دوستوں کو اس مہم میں شریک ہونے کا
کہا۔ جیسی روڈز کا کہنا ہے کہ ان کے والدین نے اس آئیڈیا کو پسند کیا جس کے
بعد انہوں نے ایک ماہ کے لیے حجاب پہننے کا فیصلہ کیا۔ جیس روڈز کے مطابق
ان کے والدین اس بات پر فکر مند تھے کہ حجاب استمعال کرنے سے ان پر حملہ ہو
سکتا ہے۔ روڈز خود بھی حجاب استمعال کرنے کے حوالے سے فکر مند تھیں تاہم
حجاب کے مسلسل آٹھ روز استعمال سے انہیں اس کے مثبت پہلوؤں کا پتہ چلا۔چیچن
ریپبلک کے سربراہ رمضان کادیروو کی اہلیہ مدنی کادیرووا بھی فیشن کی دنیا
سے وابستہ ہیں۔ انکی ملکیت فیشن ڈیزائیننگ ہاؤس "فردوس" نے دبئی میں "لیڈی
چیچنیا" کے نام سے نئے فیشن ڈیزائن متعارف کرائے ہیں۔ نمایش کے ناظرین کو
روزمرہ استعمال کے اور شام کو ہونے والی تقریبات میں زیب تن کیے جانے والے
ملبوسات کے 70 سے زیادہ ڈیزائن دیکھنے کو ملے ہیں،جن میں مخمل، شیفون،
ابریشم اور کروشیے سے بنے شادی کے پیراہن بھی شامل ہیں۔ مہین کپڑے،پہلو پہ
ڈالی کی تنگ سلوٹوں اور جدید فیشن کے دیگر تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھے جانے
کے باوجود کڑے سے کڑا ناقد بھی یہ اعتراض کرنے سے قاصر رہے گا کہ کسی بھی
ڈیزائن میں مسلمانوں کی روایات سے اغماض برتا گیا ہے۔ پوری آستینوں والے
پیرہن اور ٹحنوں تک کھنچے سکرٹ، میچنگ روسریاں(سر پہ باندھے جانے والے
رومال)، سب کے سب سختی کے ساتھ اسلامی اصولوں کے مطابق مگر دیکھنے میں دلکش
ہیں۔ چیچن فیشن ہاؤس کی نمائش صرف مسلمان خواتین کی توجہ کا ہی موجب نہیں
بنی بلکہ اس میں بہت سے معروف ڈیزائنروں نے بھی دلچسپی لی ہے۔ اسلامی دنیا
فیشن کے معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں ہے، روس کی اسلامی کمیٹی کے سربراہ
گائیدر (حیدر) جمال کہتے ہیں،"خاص طور پر ایران میں تو ایسے معروف بوتیک
موجود ہیں ،جہاں عورتوں کے اسلامی شریعت سے ہم آہنگ فیشنی ملبوسات فروخت
کیے جاتے ہیں۔ اسلام قدامت پرستی سے ہم آہنگ ملبوسات پہننے پر زور نہیں
دیتا اور نہ ہی نئی نسل کو لباس کے سلسلے میں پیشرووں کی پیروی کرنے پر
مجبور کرتا ہے۔ نئے ڈیزائن بھی ، جو موجودہ عہد کی خواتین کو پسند ہوں،
شرعی اصولوں کے مطابق ہو سکتے ہیں۔ اسلامی لباس کا مطلب یہ نہیں کہ عورتوں
کو اجڈ لوگوں کی طرح بالکل ہی ڈھانپ دیا جائے۔ بس اتنا ہونا چاہیے ،جیسے کہ
قرآن میں درج ہے کہ لوگ مسلمان عورتوں کو غیر مسلم عورتوں سے ممیز کر سکیں۔
پرانے زمانوں میں مسلمان عورتیں عباء پہنتی تھیں تاکہ ان کی چھاتیاں، گردن
اور بال نظر نہ آئیں-
آج دنیا میں عورت کے لباس کی شرعی نوعیت ایک سی نہیں ہے۔ یورپ کے بہت سے
ملکوں میں عوامی مقامات پر حجاب اوڑھنے پر پابندی ہے۔چیچن فیشن ہاؤس کی
جانب سے لگائی گئی نمائش ، ثقافتوں کے مابین مصالحت کے ضمن میں ایک بہت اہم
سرگرمی ہے، فن شناس خاتون اور روس کی ڈیزائنرز یونین کی رکن آلّا شیپاکینا
کہتی ہیں،" قومی روایات کا تو جرمنی، فرانس ، برطانیہ، آیرلینڈ اور روس کے
ملبوسات میں بھی عکس ملتا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کے لباس میں بھی ایسا کیا
جا سکتا ہے۔ اگر ڈیزائنر اچھا ہے تو وہ عالمی رجحانات کو کبھی نظر انداز
نہین کرے گا۔ وہ اپنی قومی روایات کو غیر ملکوں میں کیے جانے والے تقاضوں
سے ہم آہنگ کرے گا۔" رمضان کادیروو کی اہلیہ نے اپنے طور پر کہا کہ وہ عرب
خواتین کے لیے فیشن ایبل ملبوسات ڈیزائن کرائیں گی اور انہیں نے امید ظاہر
کی کہ اس کی دوسرے بھی پیروی کریں گے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ فیشن ہاؤس
"فردوس" کی آئندہ نمایش سعودی عرب میں ہوگی۔ |