پاکستان کا سب سے بڑا
مسئلہ دہشت گردی ہے اور دہشت گردی کو پھیلانے اور جاری رکھنے میں طالبان ،
القاعدہ اور دوسرے اندورونی و بیرونی دہشت گردوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے،جو
وزیرستان میں چھپے بیٹھے ہیں وزیرستان ملکی و غیر ملکی جہادیوں و دہشت
گردوں کا مرکز و گڑہ ہے۔ جہاں سے دہشتگرد مقامی پاکستانی اور دوسرے غیر
ملکی علاقوں میں باآسانی کاروائیاں کرتے ہیں . القاعدہ اور طالبان پاکستان
سمیت دیگر دوسرے گروپوں کی پناہ گاہیں پاکستان کے لیے بڑا مسئلہ
ہے۔وزیرستان کے علاقہ میں ہماری حاکمیت اور قانونی رٹ بھی موثر نہ ہے
کیونکہ ان دہشت گردوں نے ہماری خودمختاری کو چیلنج کیا ہوا ہے۔ملک میں
ہونیوالے 80 فیصد خود کش حملوں کے تانے بانے اسی قبائلی علاقے سے ملتے ہیں۔
سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا تھا کہ قبائلی علاقوں میں ہونے والی
دہشت گردی میں غیر ملکی ملوث ہیں، انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں غیر
ملکی مقامی لوگوں کی مدد سے دہشت گردی کر رہے ہیں.یہ لوگ اپنی تخریبی
کاروائیوں سے پاکستان کے استحکام کو کمزور کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں، وہ
پاکستان کی اقتصادیت ، سیکورٹی اور سالمیت کو براہ راست خطرہ ہیں.طالبان و
القائدہ بے گناہ لوگوں کو ہمیشہ قتل کرنے کی درپے رہی ہے چاہے وہ مسلمان
ہوں یا غیر مسلم۔
تحریک ِ طالبان پاکستان ،القاعدہ اور دوسرے دہشت گرد گروپوں میں اشتراک ِ
عمل پایا جاتا ہے اور وہ کارروائیوں کے لئے ایک دوسرے کو ”افرادی اور
تکنیکی“ معاونت فراہم کرتے ہیں جبکہ اس دوران مشرق ِ وسطیٰ اور وسطی
ایشیائی ریاستوں سے آنے والے القاعدہ کے ”ماہرین“ کی فنی مہارت اور ٹریننگ
کی خدمات بھی ان گروپوں کو حاصل رہتی ہیں۔ ان میں مسلکی ہم آہنگی بھی پائی
جاتی ہےاور یہ القائدہ کے نظریات کے قریب تر ہیں اور ان کی صفوں میں پنجاب
سے تعلق رکھنے والے جہادی عناصر موجود رہتے ہیں۔ القائدہ کا سرطان ،پاکستان
کی تباہی کے درپے ہے اور خودکش حملوں اور دہشت گردی کے بل بوتے پر پاکستان
کو غیرمستحکم کرنا چاہتے ہیں. پاک افغان علاقوں میں جنگ کا جاری رہنا
القائدہ کے لیے لائف لائن کے برابر ہے۔ علاقے میں قیام امن کا مطلب القائدہ
کی موت ہے اس علاقے میں امن بحال ہو جاتا ہے تو یہاں القائدہ کے لیے کوئی
جگہ نہیں رہے گی.
القائدہ نے تحریک طالبان ، پنجابی طالبان ،جیش محمد،حرکت الجہاد اسلامی ،حرکت
الجہاد العالمی، لشکرجھنگوٰی اور دوسرے دہشت گرد گروپوں کے ساتھ مل کر
پاکستان کے معصوم اور بے گناہ مسلمانوں ، طالبعلموں،اساتذہ،تاجروں اور
معاشرے کے دوسرے افراد کے خون کی ہولی کھیلی، 40،000 کے قریب لوگ اپنی جان
سے ہاتھ دہو بیٹھے اور معیشت کو 100 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا.
کیا یہ ذمہ داری ہماری نہ ہے کہ ہم تمام غیر ملکی جہادیوں کو پاکستان سے
نکال باہر کریں اور ملکی و غیر ملکی دہشت گردوں کا مکمل صفایا کر دیں؟ ہم
نے کس حد تک اس ذمہ داری کو نبھایا ہے ؟
غیر ملکی جہادیوں اور دوسرے دہشت گردوں کی وزیرستان میں مسلسل موجودگی
اوران کی پاکستان اور دوسرے ممالک میں دہشت گردانہ سرگرمیاں ہی ڈرون حملوں
کی اصل وجوہات ہیں۔
ڈرونز کی افادیت دشوار گزار اور مشکل ترین علاقوں میں دہشت گردوں کی خفیہ
پناہ گاہوں کو تباہ کرنے اور دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کے ضمن میں مسلمہ ہے
اور ڈرونز کا نشانہ بلا کا ہے۔
ڈرون حملوں سے حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے شدت پسند و دہشت گرد
ہوتےہیں۔ عام شہریوں کو کسی قسم کا خطرہ لاحق نہ ہے اور اگر کسی کو ڈرونز
سےخطرہ ہے، تو وہ یا تو دہشت گرد و شدت پسند ہیں یا ان کے حامی ۔ ڈرون
حملوں کی وجہ سے دہشت گردپریشان ہیں۔ ان کےلئے ممکن نہیں کہ ایک جگہ پر
اکٹھے اور مستقل رہ سکیں اور ڈرونز کی وجہ سے ان دہشت گردوںکی کارکردگی پر
فرق پڑا ہے اورڈرونز کی وجہ سے القائدہ و طالبان کے بڑے بڑے دہشت گرد مارے
گئے ہیں۔
ابھی حال میں تحریک طالبان کے نائب امیر ایک ڈرون حملہ میں مارے گئے، جس سے
طالبان کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ ڈرونز کا نشانہ بننے والے بیشتر افراد کی
اکثریت طالبان اور القاعدہ کے وفادار جنگجو تھے اور ان کی اکثریت غیر ملکی
تھی۔ اب تک ڈرونز کے حملوں میں بیشتراہم طالبان اور القائدہ جنگجو ہلاک
ہوچکے ہیں ۔ پاکستان میں ۹ دسمبر کو کئے گئے ایک ڈرون حملے میں القاعدہ کا
کا کمانڈر محمد احمد المنصور او ر۳ دوسرے فائٹر ہلاک ہوگئے۔اس سے پہلے
پاکستان میں کئے گئے ڈرون حملے میں القاعدہ کا سینئر رہنما اور ایمن
الظواہری کا جانشین شیخ خالدبن عبدالرحمان ہلاک ہوگیا۔https://search.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=43707
جولائی ۷ کو ہونے والے ڈرون حملہ میں حقانی نیٹ ورک کا ایک کمانڈر ملا اختر
زدران کے علاوہ القاعدہ لیڈر ابو سیف الجزائری، پنجابی طالبان کے کماندار
رانا اشرف و نوید بٹ اور بہت سے دہشت گرد ہلاک ہوئے۔
https://dawn.com/news/1023355/haqqani-al-qaeda-men-died-in-drone-attack
ناروے کی اوسلو یونیورسٹی سے منسلک تحقیق کار فرحت تاج جن کا تعلق بھی
پاکستان کے صوبۂ پختونخوا سے ہے، کہتی ہیں کہ میڈیا میں پایا جانے والا یہ
عمومی تاثر غلط ہے کہ ڈرون حملوں میں بڑی تعداد میں عام شہری ہلاک ہو رہے
ہیں۔ فرحت تاج کا کہنا ہے کہ آزاد میڈیا کو قبائلی علاقوں تک رسائی حاصل
نہیں ہے اور کئی صحافیوں کو ان علاقوں میں صرف اس لیے قتل کر دیا گیا کہ
انہوں نے کسی حد تک آزادانہ صحافت کرنے کی کوشش کی۔ پاکستانی و آزاد میڈیا
میں پایا جانے والا یہ عمومی تاثر غلط ہے کہ ڈرون حملوں میں بڑی تعداد میں
عام شہری ہلاک ہو رہے ہیں۔ آزاد میڈیا پاکستانی میڈیا کی خبروں پر ہی
انحصار کرتا ہے، جو خبریں گھڑتے ہیں، اور اس کے علاوہ بھی جن ذرائع کی مدد
لیتا ہے وہ بھی قابل اعتبار نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر رپورٹیں غلط
معلومات پر مبنی ہوتی ہیں۔ فرحت تاج کے مطابق ڈرون حملوں کے بارے میں میڈیا
کی سوچ میں ابھی تک تبدیلی نہیں آئی اور وہ پاکستان کے لوگوں کو ’اب بھی
گمراہ کر رہا ہے۔
القائدہ ،غیر ملکی و ملکی دہشت گردوں اور پاکستان کے دشمنوںکا مارا جانا اس
چیز کا بین ثبوت ہے کہ ڈرون حملے دہشت گردوں کے خلاف ہو رہے ہیں اور
پاکستان کے مفاد میں ہیں۔
موجودہ حالات میں پاکستان کے دشوار گزار قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کا
مکلمل خاتمہ کرنے کے لئے ڈرون سے بہتر کوئی حکمت عملی نہ ہے۔
|