نیٹو افواج کا آخری محاذ کیا کراچی بنے گا ؟

امریکی ادارہ برائے ترقی (یو ایس ایڈ) کے سربراہ کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ افغان خواتین کیلئے"پروموٹ"کے عنوان سے اس پروگرام کے تحت 18سے 30سال کی خواتین کو روزگار تلاش کرنے کی مہارت ، خواتین کو چھوٹے قرضے کی فراہمی سے کاروبار کرنے میں مدد اور پالیسی سازی میں کردار ادا کرنے کرنے میں دلچسپی فراہم کرنے والی خواتین کو فنڈز دئیے جائیں گے ۔ ان کے کہنے کے مطابق آسٹریلیا ، برطانیہ ، جاپان، اور یورپی یونین نے اس پروگرام کیلئے رقم فراہم کرنے میں تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔اس پروگرام کی مالیت اکتالیس کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالرز ہوسکتی ہے،۔ان کا یہ عمل افغانستان سے انخلا ء کے تناظر میں خواتین کیساتھ غیر مساوی سلوک رکھنے جانے کی خدشات کے پیش نظر کیا جارہا ہے۔ حالاں کہ امریکہ اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ پختون معاشرے میں خواتین کیساتھ روزگار کیلئے ا مریکیوں سے فنڈز حاصل کرنے کے بعد کیا صورتحال پیش آسکتی ہے ۔ لیکن اس کے باجود افغانستان کو خانہ جنگی سمیت قدامت پسند اور خواتین کے حقوق کے مخالف پر وپیگنڈے کو عمل جامہ پہنانے کے لئے یو ایس ایڈ پروگرام کے تحت باقاعدہ پلاننگ اور تشہیرشروع کردی گئی ہے۔ا،مریکہ کو اپنی واپسی کیلئے افغان فوج پر تکیہ کرنے کے سبب، سب سے بڑی پریشانی افغانیوں اور امریکی مخالف گروپ کا باہمی طور پر ایک دوسرے سے واقفیت و تمدن و ثقافت ہے ۔ جس بنا ء پر وہ افغان فوجیوں پر بھی اعتمادکرنے سے تامل برت رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کواپنا سات ارب ڈالر مالیت کاوہ عسکری سامان تلف کرنا پڑیگاجو وہ پاکستان اورافغانستان میں کسی کو بھی نہیں دیناچاہتا۔اندازے کے مطابق امریکی فوجی ستر ہزار ٹن مجموعی وزن کے حامل سازو سامان کوسکریپ میں بدل گے۔جس میں سات ارب ڈالر کی خطیر مالیت کے سامان کوتلف کردیا جائیگاجن میں بارودی سرنگوں کے خطرے سے محفوط تقریبا دو ہزار مشینوں کے علاوہ تعدادلاکھوں میں ہوگی۔ اس لئے ان کی جانب سے"پروموٹ" نامی پروگرام پریہ خام خیالی ہے کہ اس طرح وہ افغانیوں کی دل جیت پائیں گے تو یقینی طور پر امریکہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ کیونکہ جب وہ افغانیوں کودفاع کیلئے سازوسامان نہیں دے رہا اوراس کو اسکرئپمیں تبدیل کر رہا ہے توامریکہ کے دل جیتنے کی تمام اسی کوششیں بھی لاحاصل ہونگی کہ فوجی انخلا سے بیشتر پورے ملک میں ایسے مذہبی و تمدنی امور سے متعلق افسر مقرر کئے جائیں جو امریکیوں اور ان کے بعد افغان فوجیوں کے راہ میں رائے ہموار کریں ۔ کیونکہ ان کے خیال میں فوجی انخلا کے بعد سب سیبڑاچیلنج مقامی لیڈروں کا اعتماد حاصل کرنا ہے۔جس میں امریکہ، بر طانیہ اور نیٹو ممالک ناکام نظر آتے ہیں۔امریکہ اپنے تئیں ایسی پلاننگ اپناتا ہے جس میں اس کی دانست کے مطابق ایسے سو فیصد کامیابی مل سکتی ہے ۔ گو کہ وقتی طور پر جبر کے ذریعے وہ قابض تو ہوجاتا ہے لیکن کسی کے دل پر راج کرنا ان کیلئے ممکن نہیں ہے ۔بین الاقوامی تنظیم فرینڈز کمیٹی آف نیشنل لیجسلیشن کے مائیک شینک کہتے ہیں کہـ" ایسا کرنا ماحولیات کے نقصان دہ اور خوفناک ہے۔اوراس ملک کیلئے بُرا،جہاں یہ کیا جائیگا۔لیکن ایساکرنا اسلحہ سازوں کیلئے سودمند ہوگاکیونکہ انھیں مستقبل میں نئی فرمائیشیں مل جائیں گی۔لیکن یہ امریکہ کے ٹیکس دہنددگان کے سات ارب ڈالر کانقصان ہوگا۔"اور یہ سب امریکہ کیخلاف اٹھنے والی تحریک مدارس کے طلبا سے ہوا ۔ جنھیں طالبان کا نام دیا گیا ۔ کیونکہ اسلحہ تلف کرنے کا معاملہ عراق اور کویت جنگ میں نہیں ہوا تھایہ صرف افغانستان میں ہورہاہے کیونکہ امریکہجانتا ہے کہ افغانستان میں علمی و مذہبی لحاظ سے جڑیں انتہائی مضبوط ہیں۔ پاکستان میں مدارس میں ڈرون حملے کرنے سے وہ اپنے خلاف جہاں پاکستان میں نفرتیں پیدا کر رہا ہے تو دوسری جانب ایسے نہیں بھولنا چاہیے کہ جب اس نے ویتنا م پر حملہ کیا تو اس قوم نے تعلیم کو اپنا سب سے بڑا ہتھیار بنایا۔ شمالی ویت نام یں تعلیم اور جنگ ساتھ ساتھ چل رہے تھے ، انھیں شروع شروع میں بڑی دقت ہوئی ، کبھی گولہ باری سے تعلیمی سلسلہ منقطع ہوجاتا لہذا ویت نام کے وزارت تعلیم نے فیصلہ کیا کہ جو کچھ بھی ہو تعلیم اور جنگ دونوں جاری رہیں گی۔ امریکی بم باری کے سبب درسگائیں ، دیہاتی علاقوں اور مضافات میں منتقل کردی گئیں۔دہاتی آبادی شہروں میں چلی جاتی اور اسکول تک پہنچنے کیلئے سرنگیں بنا دی گئیں تھیں۔طالب علم گھر سے زیر زمیں راستوں کیذریعے اسکول پہنچتا ان خندقوں کی چھتیں گھاس کے تنکوں کی بنائی جاتی تھیں بموں کی کرچیاں ان تنکوں میں پھنس جاتی تھی اس طرح جنگ بھی ہو رہی تھی اور تعلیم بھی ۔ اتنے برس امریکی جارحیت اور جنگی جاری کے باوجود رتعلیمی شرح میں برابر اضافہ ہوتا رہا۔ شمالی ویتنام کے وزرات تعلیم نے اس وقت کے پاکستان کے وزیر تعلیم عبدالحفیظ پیزادہ کو جو یادگاری تحفہ دیا تھا وہ شمالی ویت نام والوں کی بہادری کو ظاہر کرتا ہے۔ایک تباہ شدہ جہاز کے پچھلے حصے کا ماڈل بنایا گیا اور ایک بیل کو ایسے کھینچتے ہوئے ظاہر کیا گیا اس طرح علامتی طور پر یہ بتا یا گیا کہ ایک کمزور جانور ایک طاقتور مشین کو کھینچے لئے جا رہا ہے۔ یعنی شمالی ویت نام کے غریب اور کم ترقی یافتہ لوگ امریکہ جیسی بڑی قوت و طاقت کو لگام دے چکے ہیں۔تو اس بات کا تصور کیا جاسکتا ہے کہ ویتنام جیسی قوم نے جنگ کے باوجود تعلیم جاری رکھی، تو کیا جن کی رگ رگ میں اسلامی تعلیمات و جہاد موجود ہے انھیں"پروموٹ" جیسے پروگراموں سے ختم کیا جاسکتا ہے۔تعلیم کو جتنا نقصان امریکہ ، برطانیہ اور نیٹو افواج نے افغانستان میں پہنچایا اس سے کئی زیادہ بڑی بڑ ی بلڈنگوں والوں نے نہیں دیا بلکہ اب کچے مدارس میں جدید علوم کیساتھ ایک ایسے طالبان کی فوج تیار ہوچکی ہے جو افغانستان سے لیکر پاکستان تک امریکہ کو انخلا میں اسی طرح ناکوں چنوں چبا دی گی ۔نیٹو اب بھی افغانستان کے مخصوص علاقوں کے علاوہ آزادی ساتھ کہیں نہیں جاسکتے ، خودکشیوں کے بے تحاشا واقعات نے امریکی فوجیوں کو نفسیاتیمریض بنا دیا ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے مسلمان جانتے ہیں کہ برطانیہ دوغلے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ اسی طرح یورپ بھی ان کے نقش ِ قدم پر ہے۔فرانس کے وزیر داخلہ نے2012ء میں فرانس کے شہر سٹراس بگ میں ایک مسجد کے افتتاح کے موقع پر متعصبانہ بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ نہیں چاہتے "کہ اسلام زیر زمین پھیلنے والے مذہب بن جائے۔ "قابل ذکر بات یہ ہے کہ فرانس یورپ میں سب سے زیادہ مسلمانوں کا ملک ہے جہاں پچا س لاکھ سے زیادہ مسلمان آباد ہیں۔ فرانس کیلئے یہ بہت پریشان کن بات ہے کہ اسلام تیزی کے ساتھ یورپ میں پھیل رہا ہے اور ان کے منفی پروپیگنڈے ناکام ہورہے ہیں ۔ برطانیہ اور امریکہ کے مکروہ چہرے یورپ کے پڑھے لکھے عوام کے سامنے آچکے ہیں۔اس کے علاوہ مسلم ممالک بھی سمجھ چکے ہیں ہمیں ان کی طلسمی شکنجے سے باہر نکلنا ہے لیکن بد قسمتی سے مسلمانوں کے درمیان مسلکی اور فقہی اختلافات کا بھرپور فائدہ اٹھانے میں یورپ ماہر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب امریکہ میں بننے والی گستاخانہ فلم نے مسلمانوں کے جذبات مشتعل کردئیے تھے تو انھیں اسے فرو کرنے کیلئے ایسے ہھتکنڈے استعمال کرنے پڑے جس کے بعد میڈیا میں اس گستاخانہ فلم کی گونج کم ہوگئی ۔ امریکہ اور افغانستان میں قرآن کریم کی بے حرمتی اور ناروے میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد اب شام میں مذہبی مقامات پر متحارب گروپوں سے حملوں کا مقصد مسلم امہ میں ایک ایسی انارکی پیدا کرنا ہے کہ جس میں فرقوں کے نام پر بٹے مسلمان آپس میں لڑنے مرنے پر تیار ہوجائیں۔اور امریکہ اس کوشش میں کامیاب نظر آتا ہے ورنہ آج تک ایسا نہیں ہوا کہ فوجی آمریت کے خلاف نام نہاد جمہوری حکومتیں پابندیاں عائد نہ کریں ۔ یقینی طور پر امریکہ اور اس کے اتحاد افغانستان کی زبوں حالی کا فائدہ اٹھانے کی کوشش میں اب افغانستان میں ایسا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں جو پختون رواج کے برخلاف ہو ۔ یقینی طور پر اس پر جہاں چہ میگوئیاں ہونگی وہاں پختون اپنی روایات کی بنا ء پر مشتعل بھی ہوسکتا ہے اور اور امریکہ کو مزید رکنے کے لئے بہانہ مل سکتا ہے کہ افغانستان اب بھی محفوظ نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے اپنی فوج اور اسلحے کے انتقال کا مکمل ٹام فریم نہیں دیا جائے کبھی وہ اسلحہ تلف کرنے کا ارادہ ظاہر کرتا ہے تو کبھی اسے دیگر افغانستان کے ساتھ جڑے اور مخالف ممالک کو دینے کیلئے پلاننگ بنا تا ہے ۔ پاکستان جس نے لاتعداد جانی و مالی قربانیاں دیں اس پر ایسے یقین نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے طالبان ، پاکستانی کی سمندری حدود تک ایسی پلاننگ بنا چکے ہیں کہ جہاں امریکہ کو زیادہ سے زیادہ نقصان ملے۔ کوئٹہ ، پشاور کا آخری پڑاؤ اب بین الاقوامی اسٹبلشمنٹ کیلئے درد سر بنا ہوا ہے اور یہی اہم میدان جنگ ہے۔کراچی نیٹوافواج کے ساز وسامان کی ترسیل کے حوالے سے شدید درد سر بناہواہے۔دیکھنا تویہ ہے کراچی کی سرحدوں پربیٹھنے والے حکومتی طالبان ہیں یا انکا اپنا کوئی افغانستان سے دیا گیااجنڈا ہے جس میں امریکہ کی جانب سے آخری لمحوں تک یہ خطرہ موجود رہے گاکہ کراچی کے مقبوضہ علاقوں میں امریکہ اپنے مفادات کے لئے ڈرون حملے کرنے،افغانستان کی جانب سے پاکستان پر حملے سمیت کچھ بھی کرسکتا ہے کیونکہ جنگ میں سب جائز ہے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 659565 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.