اسلام وہ دین ہے جو انسانی زندگی
کے تمام نشیب و فراز کی ہمہ جہت رہنمائی کرتا ہے تاکہ انسان اﷲ اور رسول کی
منشاء کے مطابق اپنے امور زیست سرانجام دے کر فلاح اخروی حاصل کرے۔ سورۃ
الملک کی ابتداء میں اﷲ ذوالجلال نے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے: برکت والی
ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے جس نے موت اور حیات کو پیدا فرمایا
تاکہ تمہیں امتحان میں ڈالے کہ تم میں کون اچھا عمل کرتا ہے۔ موت وہ پیالہ
ہے جو ہر نفس کو پینا ہے اور قبر وہ دروازہ ہے جس میں ہر کسی کو داخل ہونا
ہے۔ بعض بزرگوں نے فرمایا کہ قبر سے مراد موت کے بعد کا مقام۔لیکن عام طور
پر احسن طریقہ وہی ہے جو کوے نے انسان کو سکھایا کہ مٹی کی امانت مٹی کے
سپرد کیجائے۔ یعنی ہر میت کو سپرد خاک کیا جائے ۔دنیا میں پہلاانسان جو قتل
ہوا اسے کھڈا کھود کر سپرد خاک کیا گیا۔ اسکے بعد کس کا نمبر آیا ؟ معلوم
نہیں البتہ ابوالبشر اور ام البشر علیہما السلام کی تدفین ضرور ہوئی جیسا
کہ بعض روایات کے مطابق جدہ شریف میں انکی قبور مبارک ہیں ۔ علماء اسلام
میں یہ طے شدہ امر ہے کہ حضرات انبیاء کرام، علماء صلحاء امت،اولیاء کرام
کی قبور مبارک پر عمارت کا بنانا جائز ہے تاکہ لوگ ان کی علمی ادبی ،
روحانی یادیں تازہ کریں اور انکی قبور سے فیض حاصل کریں۔وقد ذکر الغزالی
رضی اﷲ عنہ فی وسیط و الاحیاء کلاما یدل علی جواز البناء علی قبور علماء
الدین و مشائخ الاسلام و سائر الصلحا کما یوخذمن الفتاویٰ الکبریٰ لا مام
الشہاب ابن حجر فی کتب الجنائز۔ اسی طرح بزرگوں کی قبور پر قبے بنانے کا
عمل اسلاف امت سے اخلاف امت نے سیکھا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی اسلام
کی انفرادی شان ہے کہ جن لوگوں نے اﷲ کے دین اور اﷲ کی رضامیں بے مثال محنت
کی اور قربانیاں دیں اﷲ تعالی نے انکے ناموں اور کاموں کو زندہ وجاوید
کردیا تاکہ لوگ انکی تعلیمات اور عمل سے اپنی اصلاح کرسکیں۔ صرف اسلام ہی
وہ دین ہے جو اﷲ کے رسول ﷺ سے وابستگی کے نتیجہ میں مادی اور روحانی مراتب
عطا کرتا ہے۔ قرآن کریم میں اﷲ نے اپنے دوستوں کی بڑی شان بیان فرمائی۔انکی
قبور پر اﷲ کی رحمت کا نزول ہوتا رہتا ہے۔حضرت الشیخ الشاہ علامہ عبد الحق
محدث دہلوی اشعۃ اللمعات ترجمہ مشکوۃ شریف جلد اول باب زیارۃ القبور میں
لکھتے ہیں کہ امام شافعی گفتہ است قبر موسیٰ کاظم تریاق مجرب است مراجابت
دعا و حجۃ الاسلام امام غزالی گفتہ ہر کہ استمداد کردہ شود در حیات استمداد
کردہ می شود بوے بعد از وفات کہ حضرت موسیٰ کاظم رضی اﷲ عنہ کی قبر قبولیت
دعا کا مجرب نسخہ ہے امام غزالی رحمۃ الہ علیہ فرماتے ہیں کہ حیات میں جن
سے مدد لی جاتی ہے بعد از وفات بھی ان سے مدد حاصل کی جاتی ہے۔ آگے فرماتے
ہیں کہ بتحقیق ثابت شدہ است بآیت واحادیث کہ روح باقی است و اورا علم و
شعور بزائران و احوال ایشاں ثابت است و ارواح کاملاں را قربے و مکانتے در
جناب حق ثابت است قرآن پاک اور احادیث سے ثابت ہے کہ روح باقی ہے اور اسے
اپنے زیارت کرنے والوں کے بارے علم و شعور اور انکے حالات کا علم ثابت ہے
کاملان کا اﷲ پاک کے حضور قرب اور درجات ثابت ہیں۔ اس بارے تفصیل میں جائے
بغیر کہوں گا کہ حضرت علی بن عثمان ہجویری عرف داتا گنج بخش رحمۃ اﷲ علیہ
1077 عیسوی میں لاہور دفن ہوئے جبکہ حضرت خواجہ غریب نواز 1141 - 1236 جب
آپکے مزار پاک کی زیارت کو آئے تو چالیس روز نشست فرمائی (آپکی نشست گاہ آج
بھی موجود ہے۔ ) حضرت داتا صاحب کے توسل سے اس قدر روحانی فیض ملا کہ آپکے
اشعار تاریخ کا حصہ بن گئے۔گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا ۔ ناقصاں را پیر
کامل کاملاں را رہنما
یہ تخصص صرف رسول پاک ﷺ کے غلاموں کو حاصل ہے کسی اور مذہب کے رہنماؤں کے
نہ مزارات ہیں نہ وہاں سے کچھ کسی کو ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں
شائد ہی کوئی علاقہ ہو کہ جہاں کسی اﷲ والے کی قبر سے مخلوق خدا کو فیض
رسانی نہ ہو۔ شام میں رسول اﷲ ﷺ کی عالی مرتبت صابرہ و شاکرہ نواسی سلام اﷲ
علیہا کے مزار پاک کی بے حرمتی پر امت ماتم کناں تھی کہ سیف من سیوف اﷲ
فتوحات شام کے سرخیل جرنیل اعظم سیدنا حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ کے
روضہ مبارک کی بے حرمتی کی خبر آگئی۔ آہ جن کی محنت کے صدقے آج مسلمان دنیا
کے عظیم حصے پر قابض ہیں انہیں محسنوں کی قبور مبارک کی بے حرمتی کررہے ہیں
تو اس سے بڑ ھ کر اور انکی شان میں کیا گستاخی ہوسکتی ہے؟ وہ اﷲ کی نشانیاں
ہیں۔ انکی محنت کا نتیجہ ہے کہ آج مسلمان ان علاقوں پر حکمران ہیں۔ ورنہ آج
تو مسلمان بیت المقدس بھی یہودیوں سے آزاد نہ کراسکے۔اخلاف نے ہمیشہ اپنے
اسلاف کی قدر کی انکی حیات میں اور بعد وصال بھی ان سے فیوض و برکات حاصل
کیں۔ اپنے بزرگوں کی قبور پر قبے اور روضے بنوائے۔ مکہ معظمہ میں جنت
المعلیٰ مدینہ طیبہ میں جنت البقیع میں امہات المؤمنین ، دختران رسول کریم
ﷺ سیدنا امام حسن اور سیدنا عباس بن عبدالمطلب عم رسول اوردیگر بزرگ ہستیوں
کی قبور پر قبے بنوائے گئے ۔ سعودی خاند ان نے برسر اقتدار آتے ہی تمام قبے
گرادیئے، اور قبور مبارکہ کو زمین برابر کردیا۔ یہ انتہائی بڑی گستاخی اور
بے ادبی تھی جسکی مثال کسی اسلامی تاریخ میں نہیں ملتی۔البتہ اندلس سے جب
مسلمانوں کا اقتدار ختم ہوا تو مسلمانوں کی قبریں عیسائیوں نے اکھیڑدیں کہ
آج وہاں ایک مسلمان کی قبر بھی نہیں۔ مگر وہ سب کچھ عیسائیوں نے مسلمانوں
کیخلاف اپنے خبث باطن کا اظہار کیا۔ لیکن آل سعود نے لارنس آف عریبیہ کے
کہنے پر ایک سازش کے تحت کیا کہ مسلمانوں کو بے دین کرنے کے لیئے پہلا قدم
یہ ہے کہ اپنے آبا اور بزرگوں کی شان میں گستاخانہ اقدامات کریں۔ آج مسلمان
سیدہ زینب رضی اﷲ عنہا کی قبر مبارک کی بے حرمتی پر نوحہ کناں ہیں تو اس سے
قبل سیدہ کی نانیوں ، خالاؤں، سیدہ کی والدہ ماجدہ خاتون جنت سلام اﷲ علیہا
کے مزار پاک کا تقدس پامال ہوا۔ انکی دادی سیدہ فاطمہ بنت اسد کی قبر کی بے
حرمتی ہوئی۔ کس کس صدمہ پر دل آماجگاہ حزن و ملال ہیں۔ ہاں وہ مرد مومن
صدام حسین رحمۃ اﷲ علیہ کہ جس نے عراق میں تمام بزرگوں کے مزارات کو وسعت
دی۔ سنگ مرمر لگائے، تمام مزارات ایرکنڈیشنڈ کرائے کہ زائرین کو سکون ملے۔
میں خود حضرت صدام کی دعوت پر زیارات عراق سے مشرف ہوا۔ افریقی ممالک ، چین
، ایشیا کے دیگر ممالک میں اﷲ والوں کے مزارات موجود ہیں۔ جہاں شامی ناظم
الامور کوہمارے دفتر خارجہ نے طلب کرکے سیدہ کے مزار پاک کی بے حرمتی پر
احتجاج کیا وہیں اس سے زیادہ اہم انکی نانیوں، دادی ، والدہ محترمہ اور
دیگر عظیم ہستیوں کی بے حرمتی پر سعودی حکومت سے مطالبہ کیا جائے کہ ہمارے
رسول ﷺ کے پیاروں کی قبور مبارک کا ادب و احترام بحال کیا جائے۔ شعائر
اسلام جو انکے ظالمانہ اقدامات سے بچ گئے ہیں انہیں قائم رکھا جائے۔ کیونکہ
پوری دنیائے اسلام انکی غلامی میں برابر کی شریک ہے۔ |