عید کا نام ذہن میں آتے ہی پردہ تصور پر خوشیوں کے رنگ
گھو ُمنے لگتے ہیں کیوں کہ عید نام ہی خوشیوں اور رنگوں سے سجے ہوئے تہوار
کا ہے‘جس میں عالم اسلام اپنوں‘ پرایوں‘ رشتہ داروں‘ پڑوسیوں اور دوستوں سے
گلے شکوے ختم کردیتا ہے۔ اس عظیم اسلامی تہوار کی کشش اور خوبصورتی یہی ہے
کہ اس دن ہم تہہ دل سے ایک دوسرے کی کوتاہیوں کو نظر انداز کردیتے ہیں۔
عید کے دن کو عام معافی سے منسوب کیا جاتا ہے۔حضرت سیدنا عبد اللہ ابن عباس
رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور ا نے فرمایا :” جب عیدالفطر کی مبارک
رات تشریف لاتی ہے تو اسے ”لیلة جائزہ“ یعنی انعام کی رات کے نام سے پکارا
جاتا ہے اور جب عید الفطر کی صبح ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو
تمام شہروں میں بھیجتا ہے چنانچہ وہ فرشتے زمین پر تشریف لا کر سب گلیوں
اور راہوں کے کناروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس طرح ندا دیتے ہیں ”اے اُمت
محمد ا اس رب کریم کی بارگاہ کی طرف چلو ! جو بہت ہی زیادہ عطا کرنے والا
اور بڑے سے بڑا گناہ معاف فرمانے والا ہے۔“پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے
یوں مخاطب ہوتا ہے۔”اے میرے بندو! مانگو! کیا مانگتے ہو؟ میری عزت و جلال
کی قسم! آج کے روز اس (نمازعید) کے اجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جو
کچھ سوال کرو گے وہ پورا کروں گا ۔جو کچھ دنیا کے بارے میں مانگو گے اس میں
تمہاری بھلائی کی طرف نظر فرماﺅںگا (یعنی اس معاملہ میں وہ کروں گا جس میں
تمہاری بہتری ہو) میری عزت کی قسم! جب تک تم میرا لحاظ رکھو گے میں بھی
تمہاری خطاﺅں پر پردہ پوشی فرماتا رہوں گا۔میری عزت و جلال کی قسم! میں
تمہیں حد سے بڑھنے والوں (یعنی مجرموں)کے ساتھ رسوانہ کروں گا۔بس اپنے
گھروں کی طرف مغفرت یافتہ لوٹ جاﺅ‘تم نے مجھے راضی کر دیا اور میں بھی تم
سے راضی ہو گیا۔ (الترغیب والترھیب)
سیدنا فاروق ا عظم رضی اللہ عنہا کے دو ر خلافت میں لوگ عید کے روز کاشانہ
خلافت پر حاضر ہوئے تو کیا دیکھا کہ امیر المو منین دروازہ بند کر کے زارو
قطار رو رہے ہیں ۔لوگ حیرت زدہ ہوکر سوال کرتے ہیں :” یا امیر المو منین !
آج تو عید کا دن ہے ‘اس دن خوشی و شادمانی ہونی چاہےے اور آپ خوشی کی جگہ
رو رہے ہیں؟“سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا :”اے لوگو! یہ دن عید
کا بھی ہے اور یہ دن وعید کا بھی۔آج جس کے نماز روزے اور عبادات رمضان قبول
ہو گئیں بلا شبہ اس کے لئے آج عیدکا دن ہے اور جس کی عبادات رمضان رد ہو
گئیں اس کے لئے آج وعید کا دن ہے اور میں اس خوف سے رو رہا ہوں کہ مجھے
معلوم نہیں کہ میں مقبول ہوا یا رد کر دیا گیا ہوں۔“
نماز عید سے قبل مسنون اعمال
حضرت انس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضورا عید الفطر کے دن چند کھجوریں
تناول فرمالیتے اور وہ طاق ہوتیں ‘پھر نماز کے لئے تشریف لے جاتے۔(بخاری
شریف)
حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ا عید کو
(نمازعیدکے لئے ) ایک راستے سے تشریف لے جاتے اور دوسرے راستے سے واپس
تشریف لاتے۔(ترمذی شریف)
مذکورہ بالا احادیث کے علاوہ فقہ کی کتابوں میں فقہائے کرام نے یوم عید یہ
اعمال بھی سنت ذکر کئے ہیں(1)حجامت بنوانا(2)ناخن ترشوانا(3)غسل
کرنا(4)مسواک کرنا(5)اچھے کپڑے پہننا( 6) خوشبو لگانا (7)انگوٹھی پہننا (8)
نماز فجر مسجد محلہ میں پڑھنا (9)نماز عید ‘ عید گاہ میں ادا کرنا(10)عید
گاہ تک پیدل جانا (11)خوشی ظاہر کرنا(12)کثرت سے صدقہ کرنا(13)آپس میں
مبارک باد دینا (14)بعد نماز عید مصافحہ کرنا اور معانقہ یعنی بغلگیرہونا۔
عید کیوں کہ خوشی کا دن ہوتا ہے‘ ساری دنیا کے مسلمان مشترکہ طور پر اپنے
اپنے انداز‘ طور طریقوں اور اپنی اپنی تہذیب کے مطابق اظہار مسرت کرتے ہیں۔
اللہ عز و جل خوشیوں اور مسرتوں کے درمیان توازن کا حکم دیتا ہے یعنی ایسا
نہ ہو کہ مال دار تو عید پر خوب خوشیاں منائیں ‘ ان کے بچے نئے نئے کپڑے
پہنیں ‘ ان کے گھروں پر مختلف النوع میٹھے میٹھے پکوان بنائے جائیں مگر بے
چارہ غریب مادی آسائش کی عدم فراہمی کی وجہ سے نہ اپنے بچوں کی خواہش پوری
کرسکے‘ نہ اچھے کپڑوں اور مزے دار کھانوں سے ان کی خوشیوں کو دوبالا کرسکے
اور نہ ہی عیدی دے کراپنے بچوں کے چہروں پر خوشی کی روشنی بکھیر سکے۔ یہی
وجہ ہے کہ اس دن صاحب نصاب مسلمانوں کو کچھ متعینہ فطرہ ادا کرنے کا سختی
سے حکم دیاگیا ہے۔
عید الفطر کو محض رسم و رواج کا مجموعہ بنانا درست امر نہیں ہے۔یہ ہم سب کی
مشترکہ ذمہ داری ہے کہ اس کو حقیقی اور معنوی طور پر سمجھ کر پیام عید کو
عمل کی صورت میں فروغ و استحکام بخشیں‘ اللہ کی آواز پر لبیک کہیں ‘ ایسا
نہ ہو کہ ہمارا پڑوسی ‘رشتے دار‘ عزیز یا دوست تو خوشیوں سے محروم رہے اور
ہم ایک نہیں‘ دو نہیں بلکہ عید کے تینوں دن خوشیوں کی برسات میں بھیگتے
رہیں۔ اگر ہم میں سے ہر ایک یہ عہد کرلے کہ اس مبارک دن ہم اپنی بساط کے
مطابق غریبوں میں خوشیاں تقسیم کریں گے اور کوشش کریں گے کہ اس دن کوئی
غریب غمگین نہ رہے‘ کوئی بھوکا نہ سوئے اور کوئی بھی خوشیوں سے محروم نہ
رہے تو شاید اس عظیم تہوار کے دن ہر گھر میں خوشیوں کے چراغ جل اُٹھیں گے۔
تو پھر آئیے عہد کریں کہ اس سال عید پر کسی کے گھر میں دُکھ کے بادل نہیں
ہوں گے۔
|