جمشید خٹک
میلہ ہماری ثقافت ، تہذیب و تمدن اور تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے ۔زمانہ قدیم
سے لیکر عوام مختلف قسموں کے میلوں میں بڑے ذوق وشوق سے شرکت کرتے چلے آر
ہے ہیں۔میلوں کی تعداد اوراقسام کا ذکر کرنے کیلئے تو ایک طویل مضمون اور
ڈھیر سارا وقت درکار ہے ۔ لیکن میں ایک مقامی طور پر ایک میلے کا احوال
تحریر کئے دیتا ہوں۔بعض میلے کسی علاقے میں ارد گرد کے دیہات کیلئے خرید
وفروخت کی منڈی کے طو ر پر لگائے جاتے ہیں ۔بعض میلے کسی بزرگ کے عرس کے
موقع پر مزار پر منعقد کئے جاتے ہیں ۔بعض میلے سال میں ایک دفعہ ایک خاص
موسم کی مناسبت سے لگا ئے جاتے ہیں۔میلے جہاں بھی ہوں ۔اُس میں علاقائی
فنون و ثقافت کو پیش کیا جاتا ہے ۔میں جس میلے کا ذکر کرنا چاہتا ہوں ۔یہ
ایک ہفتہ واری میلہ ہے ۔جو قرب وجوار کے دیہات کے عوام اپنی ضرورت کی اشیاء
خریدنے اور بیچنے اس میلے کا رخ کرتے ہیں۔زمانہ قدیم میں میلے میں زیادہ تر
مال مویشی ، بھیڑ ، بکری ، خچر اور گدھے وغیرہ خرید وفروخت کیلئے پیش کئے
جاتے تھے ۔ آہستہ آہستہ اس میں خورد نوش کی اشیاء کے ساتھ ساتھ تازہ سبزیوں
، پھلوں کا بازار لگنا بھی شروع ہوگیا۔بڑھتے بڑھتے اس بازار میں اب انسانی
ضروریات کی تمام اشیاء ارزاں نرخوں پر دستیاب ہونے لگی۔حتیٰ کہ بچوں کی
تفریح کیلئے جھولے اور دیگر تماشے بھی میلے کا حصہ بن گئے ۔مداری ، دندان
ساز ، ، لاٹری والے نے الگ الگ جگہوں پر اپنے ارد گرد جمگھٹے لگائے ہوتے
ہیں ۔چوری کئے ہوئے موبائل فون ، کیسٹیں ، ریڈیو، سائیکل اور سائیکل کے
پرزہ جات کی خرید وفروخت کیلئے مخصوص جگہیں ہیں ۔ کباڑکی اشیاء اور پرانے
کپڑے بھی آویزاں کئے جاتے ہیں ۔کسانوں کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ہر قسم
کا بیج ، پودے ، پھلوں ، پھولوں کی بیماریوں کی روک تھام کیلئے دوائیاں بھی
دستیاب ہوتی ہیں۔خوردنوش کی اشیاء کی دوکانیں جن میں کباب اور مٹھائی بیچی
جاتی ہے ۔دور اُفتادہ دیہات سے آنے والے میلے کے شوقین کباب ضرور نوش
فرماتے ہیں ۔اور بچوں کیلئے میلے سے مٹھائی ضرور خریدتے ہیں ۔میلے دیکھنے
والے اکثر دیہاتی پورا دن میلے کا چکر لگانے کے بعد دوپہر کی روٹی اور کباب
ضرو ر کھاتے ہیں ۔کباب کے دوکاندار نے کباب کی کڑاہی کے نیچے آگ کے شعلے
تیز کئے ہوتے ہیں ۔تاکہ دور سے کباب کے شوقین کو اپنی طرف کھینچ لیں۔
میلے میں ہر قسم کے لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں ۔اس لئے طرح طرح کے واقعات لطیفے
اور چوریاں اکثر دیکھنے میں آتی ہیں ۔ ملانصرالدین کے میلے میں گدھے کے
چوری کے داستانیں کافی مشہور ہیں ۔ہر قسم کا ٹھگ اپنا مال بیچنے کیلئے میلے
میں اپنی دوکان سجا تا ہے ۔ ا ور مختلف طریقوں سے عوام سے پیسے بٹورتا ہے ۔مداری
کا سانپ ٹوکرے سے نکلتے نکلتے گھنٹوں لگ جاتے ہیں ۔لیکن سانپ کے اعضاء اور
تیل سے بنی ہوئی دوائی فروخت کیلئے کمپنی کی مشہوری کیلئے پیش کی جاتی ہے ۔آخر
میں سانپ پھن پھیلائے ٹوکری سے تو نکل آتا ہے ۔ لیکن اس سے قبل سپیرے نے
دوائی بھیج کر اپنی قیمت وصول کی ہوتی ہے ۔2 روپے کی’’ قسمت پڑی ‘‘ بیچنے
والے نے اپنا آدمی کھڑا کر کے 100 روپے کی لاٹری کی آواز محفل کو بھی گرما
دیتا ہے ۔سو روپے کا انعام دیکھکر کئی لوگ قسمت پڑی خریدنے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔
لیکن زہے نصیب کب کسی کا 100 روپے کا نوٹ نکلتا ہے ۔یہ تو محض فراڈ ہوتا ہے
۔ہمارے ایک دوست نے کسی زمانے میں ایک چھوٹا ریڈیو خریدا۔خریدنے کے بعد
دیکھکر بڑا خوش ہواکہ بھاری اور خوبصورت ریڈیو ہے ۔گھر لا کر جب بجلی دی
گئی ۔ تو آواز غائب ۔ جب مستری کے پاس لے گیا۔کھولنے کے بعد معلوم ہوا کہ
ریڈیو میں مشینری کی جگہ ایک اینٹ رکھ دیا گیا ہے ۔بیچارہ شرم کے مارے نہ
کسی سے اس کا ذکر کر سکا۔نہ ریڈیو کام آیا۔
ایک دفعہ میلے میں کھڑا ایک ٹھگ دور سے آدمی کو اشارہ کر کے اُس کو قائل کر
کے اُس کو پانچ روپے کے عوض ایک طاقت کی پڑیا تھما دیتا تھا۔ رش کی وجہ سے
ایک منٹ میں اُس کے سامنے سے دس آدمی گزرتے تھے ۔میں نے اُس سے سوال کیا۔’’
اس پڑیا میں کیا ہے ‘‘ اُ س نے جواب دیا کچھ بھی نہیں ۔میں نے پھر اُس سے
سوال کیا کہ وہ اس کو کیسے بیچتا ہے ۔کہنے لگا ایک منٹ میں دس گزرنے والے
آدمیوں میں سے ایک بھی بے وقوف نہیں ہوگا۔اگر ایک بے وقوف مل گیا تو اُس
کاکام بن گیا ۔اُس کی ایک دن کی مزدوری مل گئی ۔
میلے میں اشیاء بیچنے اور خریدنے کیلئے لوگوں کا جمگھٹا لگا ہوا ہے ۔آج کل
سیاسی میلہ زور وشور پر ہے ۔بازار سجا ہے ۔اٹھارہ کروڑ کی آبادی کے ملک
خداداد پاکستان میں 250 سیاسی پارٹیاں رجسٹرڈ ہوچکی ہیں۔قومی اسمبلی کی 342
اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کیلئے 728 متوقع اُمیدواران نے لنگوٹ کس لئے ہیں
۔آزاد اُمیدواروں کی تعداد اس کے علاوہ ہے ۔ایک اندازے کے مطابق ہر ایک
حلقے سے پانچ سے دس اُمیدوار مقابلے کیلئے میدان میں کود پڑے ہیں۔اس طرح
تقریباً 1084 نشستوں کیلئے تقریباً 10000 ہزار اُمیدواروں کے درمیان مقابلے
متوقع ہیں ۔اتنی کثیر تعداد میں اُمیدواران کو نشانات بھی الاٹ کئے گئے
ہیں۔شائد نشانات الاٹ کرنے کیلئے جانوروں ، پرندوں ، عام استعمال کی اشیاء
، کھیلوں کی سامان کی فہرست کم پڑگئی ہے ۔اور اُمیدواران کی فہرست پوری
نہیں ہورہی ہے ۔اس لئے بعض نشانات کو مختلف علاقوں میں کئی اُمیدواران کو
الاٹ کیا گیاہے ۔ہر شکاری ، مداری ، لکھاری نے اپنا اپنا پٹاری کھول دیا ہے
۔ بھانت بھانت کی بولیاں سنائی جارہی ہیں ۔عوام کو دلفریب نعروں سے راغب
کرنے کیلئے ہر حربہ استعمال ہورہا ہے ۔اُمیدواران کے دل میں غریب عوام
کیلئے دکھ اور درد کے سوا کچھ نہیں ۔اُن سے غریب عوام کی غربت دیکھی نہیں
جاتی ۔غربت اور بے روزگاری دور کرنے کیلئے اُن کے پاس ایسے ایسے نسخے موجود
ہیں کہ غربت ختم ہوجا ئے گی ۔جب غریب ختم ہو جائے گا۔تو واقعی غربت نہیں
رہیگی ۔ہر اُمیدوار نے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا ہوا ہے ۔اُن کے جذبات سے
کھیل رہا ہے ۔اُن کے مسائل کو حل کرنے کیلئے ہر قسم کا عہد وپیماں کررہا ہے
۔لیکن خیال رہے ۔یہ بھی ایک سیاسی میلہ ہے ۔اور گاؤں کے میلے کی طرح ہر
کوئی اپنا سودا بیچ رہا ہے ۔سودا بیچتے وقت قسمیں بھی کھاتا ہے ۔اپنے سودے
کی بڑھ چڑھ کر خوبیاں بھی بیان کرتا ہے ۔گھاٹے کی سودے کی بات نہیں کرتا ہے
۔میلے میں ہر قسم کے ٹھگوں کی بہتات ہوتی ہے ۔ ایسے کسی جھانسے میں نہیں
آنا ہے ۔
ووٹ ایک بنیادی حق ہے ۔ووٹ کااستعمال ہر شہری کا فرض ہے ۔لیکن سوچ سمجھ کر
ووٹ کا استعمال ایک تابناک مستقبل کا ضامن بن سکتا ہے ۔ہمارے ایک مرحوم
عالم دین کے ایک قول کے مطابق ’’ اچھا اچھا ہے اور برا برا ‘‘ یہ سب جانتے
ہیں ۔
|