اس تحریر میں ہم نے مایوسی کے
خاتمے کی جو تجاویز پیش کی ہیں، ان کو یہاں مختصراً بیان کیا جارہا ہے اور
اس کے ساتھ کچھ نئی تجاویز بھی پیش کی جارہی ہیں۔ جو بھائی یا بہنیں مایوسی
اور ڈپریشن کا شکارہوں، ان سے گذارش ہے کہ وہ تحریر کے اس حصے کو اپنے
سامنے والی دیوار پر چسپاں کرلیں یا پھر اپنے پرس میں رکھ لیں اور جب بھی
مایوسی حملہ آور ہو تو محض ان تجاویز کو ایک نظر دیکھ ہی لیں تو انہیں
مایوسی سے نجات کا کوئی نہ کوئی طریقہ سمجھ میں آ ہی جائے گا۔ سب سے پہلے
یہ طے کر لیجئے کہ آپ مایوسی اور ڈپریشن سے ہر قیمت پر نکلنا چاہتے ہیں اور
اس کے لئے ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔ اپنی خواہشات کا جائزہ لیجئے
اور ان میں سے جو بھی غیر حقیقت پسندانہ خواہش ہو، اسے ذہن سے نکال دیجئے۔
اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ پرسکون ہو کر خود کو suggestion دیجئے کہ یہ
خواہش کتنی احمقانہ ہے۔ اپنی سوچ میں ایسی خواہشات کا خود ہی مذاق
اڑائیے۔اس طرح ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر اک خواہش پہ دم نکلے کو غلط ثابت
کیجئے۔اپنی خواہشات کی شدت کو کنٹرول کیجئے۔ اپنی شدت کی ایک controllable
limit مقرر کر لیجئے۔ جیسے ہی یہ محسوس ہو کہ کوئی خواہش شدت اختیار کرتی
جارہی ہے اور اس حد سے گزرنے والی ہے ، فوراً الرٹ ہو جائیے اور اس شدت کو
کم کرنے کے اقدامات کیجئے۔ اس کا طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس خواہش کی
معقولیت پر غور کیجئے اور اس کے پورا نہ ہو سکنے کے نقصانات کا اندازہ
لگائیے۔ خواہش پورا نہ ہونے کی provision ذہن میں رکھئے اور اس صورت میں
متبادل لائحہ عمل پر غور کیجئے۔ اس طرح کی سوچ خواہش کی شدت کو خود بخود کم
کردے گی۔ آپ بہت سی خواہشات کے بارے میں یہ محسوس کریں گے کہ اگر یہ پوری
نہ بھی ہوئی تو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ یہ بھی خیال رہے کہ خواہش کی شدت
اتنی کم بھی نہ ہوجائے کہ آپ کی قوت عمل ہی جاتی رہے۔ خواہش کا ایک مناسب
حد تک شدید ہونا ہی انسان کو عمل پر متحرک کرتا ہے۔دوسروں سے زیادہ توقعات
وابستہ مت کیجئے۔ یہ فرض کر لیجئے کہ دوسرا آپ کی کوئی مدد نہیں کرے گا۔ اس
مفروضے کو ذہن میں رکھتے ہوئے دوسروں سے اپنی خواہش کا اظہار کیجئے۔ اگر اس
نے تھوڑی سی مدد بھی کردی تو آپ کو ڈپریشن کی بجائے خوشی ملے گی۔ بڑی بڑی
توقعات رکھنے سے انسان کو سوائے مایوسی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور دوسرے نے
کچھ قربانی دے کر آپ کے لئے جو کچھ کیا ہوتا ہے وہ بھی ضائع جاتا ہے۔مایوسی
پھیلانے والے افراد ، کہانیوں، ڈراموں، کتابوں ، خبروں ، نظموں اور نغموں
سے مکمل طور پر اجتناب کیجئے اور ہمیشہ امنگ پیدا کرنے والے افراد اور ان
کی تخلیقات ہی کو قابل اعتنا سمجھئے۔ اگر آپ مایوسی اور ڈپریشن کے مریض
نہیں بھی ہیں ، تب بھی ایسی چیزوں سے بچئے۔ اس بات کا خیال بھی رکھئے کہ
امنگ پیدا کرنے والے افراد اور چیزوں کے زیر اثر کہیں کسی سے بہت زیادہ
توقعات بھی وابستہ نہ کرلیں ورنہ یہی مایوسی بعد میں زیادہ شدت سے حملہ آور
ہوگی۔گندگی پھیلانے والی مکھی ہمیشہ گندی چیزوں کا ہی انتخاب کرتی ہے۔ اس
کی طرح ہمیشہ دوسروں کی خامیوں اور کمزوریوں پر نظر نہ رکھئے۔ اس کے برعکس
شہد کی مکھی ، جو پھولوں ہی پر بیٹھتی ہے کی طرح دوسروں کی خوبیوں اور
اچھائیوں کو اپنی سوچ میں زیادہ جگہ دیجئے۔ ان دوسروں میں خاص طور پر وہ
لوگ ہونے چاہئیں جو آپ کے زیادہ قریب ہیں۔اپنی خواہش اور عمل میں تضاد کو
دور کیجئے۔ اپنی ناکامیوں کا الزام دوسروں پر دھرنے کی بجائے اپنی کمزوریوں
پر زیادہ سوچئے اور ان کو دور کرنے کی کوشش کیجئے۔ ہر معاملے میں دوسروں کی
سازش تلاش کرنے سے اجتناب کیجئے اور بدگمانی سے بچئے۔ یہ طرز فکر آپ میں
جینے کی امنگ اور مثبت طرز فکر پیدا کرے گا۔ اس ضمن میں سورۃالحجرات کا بار
بار مطالعہ بہت مفید ہے۔اگر آپ بے روزگاری اور غربت کے مسائل کے حل کے لئے
کوئی بڑا سیٹ اپ تشکیل دے سکتے ہوں تو ضرور کیجئے ورنہ اپنے رشتے داروں اور
دوستوں کی حد تک کوئی چھوٹا موٹا گروپ بنا کر اپنے مسائل کو کم کرنے کی
کوشش کیجئے۔ اس ضمن میں حکومت یا کسی بڑے ادارے کے اقدامات کا انتظار نہ
کیجئے۔ اگر آپ ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو آپ کی مایوسی انشاء اﷲ شکرکے
احساس میں بدل جائے گی۔خوشی کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہونا سیکھئے اور
بڑے سے بڑے غم کا سامنا مردانہ وار کرنے کی عادت ڈالئے۔ اپنے حلقہ احباب
میں زیادہ تر خوش مزاج لوگوں کی صحبت اختیار کیجئے اور سڑیل سے لوگوں سے
پرہیز کیجئے۔اگر کوئی چیز آپ کو مسلسل پریشان کر رہی ہواور اس مسئلے کو حل
کرنا آپ کے بس میں نہ ہو تو اس سے دور ہونے کی کوشش کیجئے۔ مثلاً اگر آپ کے
دوست آپ کو پریشان کر رہے ہوں تو ان سے چھٹکارا حاصل کیجئے۔ اگر آپ کی جاب
آپ کے لئے مسائل کا باعث بنی ہو تو دوسری جاب کی تلاش جاری رکھئے۔ اگر آپ
کے شہر میں آپ کے لئے زمین تنگ ہوگئی ہے تو کسی دوسرے شہر کا قصد کیجئے۔اگر
آپ کو کسی بہت بڑی مصیبت کا سامنا کرنا پڑے اور آپ کے لئے اس سے جسمانی
فرار بھی ممکن نہ ہو تو ایک خاص حد تک ذہنی فرار بھی تکلیف کی شدت کو کم کر
دیتا ہے۔ اس کو علم نفسیات کی اصطلاح میں بیدار خوابی (Day Dreaming) کہا
جاتا ہے۔ اس میں انسان خیالی پلاؤ پکاتا ہے اور خود کو خیال ہی خیال میں
اپنی مرضی کے ماحول میں موجود پاتا ہے جہاں وہ اپنی ہر خواہش کی تکمیل کر
رہا ہوتا ہے۔ جیل میں بہت سے قیدی اسی طریقے سے اپنی آزادی کی خواہش کو
پورا کرتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق ہر شخص کسی نہ کسی حد تک بیدار
خوابی کرتا ہے اور اس کے ذریعے اپنے مسائل کی شدت کو کم کرتا ہے۔ مثلاً
موجودہ دور میں جو لوگ معاشرے کی خرابیوں پر بہت زیادہ جلتے کڑھتے ہیں، وہ
خود کو کسی آئیڈیل معاشرے میں موجود پا کر اپنی مایوسی کے احساس کو کم
کرسکتے ہیں۔ اسی طرز پر افلاطون نے یو ٹوپیا کا تصور ایجاد کیا۔ اس ضمن میں
یہ احتیاط ضروری ہے کہ بیدار خوابی اگر بہت زیادہ شدت اختیار کر جائے تو یہ
بہت سے نفسیاتی اور معاشرتی مسائل کا باعث بنتی ہے۔ شیخ چلی بھی اسی طرز کا
ایک کردار تھا جو بہت زیادہ خیالی پلاؤ پکایا کرتا تھا۔ اس لئے یہ ضروری ہے
کہ اس طریقے کو مناسب حد تک ہی استعمال کیا جائے۔آپ کو جو بھی مصیبت پہنچی
ہو، اس کے بارے میں یہ جان لیجئے کہ اپنی زندگی کا خاتمہ کرکے آپ کو کسی
طرح بھی اس مصیبت سے نجات نہیں ملے گی بلکہ مشہور حدیث کے مطابق موت کے بعد
وہی حالات خود کشی کرنے والے پر مسلط کئے جائیں گے اور وہ بار بار خود کو
ہلاک کرکے اسی تکلیف سے گزرے گا۔ اس سزا کی طوالت کا انحصار اس کے قصور کی
نوعیت اور شدت پر ہوگا۔ ہمارے یہاں خود کشی کرنے والے صرف ایمان کی کمزوری
کی وجہ سے ایساکرتے ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جن مصیبتوں سے بچنے کے لئے وہ
ایسا کرتے ہیں، اس سے بڑی مصیبتیں ان کی منتظر ہوتی ہیں۔ آپ نے ایسا بہت کم
دیکھا ہو گا کہ مصائب سے تنگ آ کر کسی دین دار شخص نے خود کشی کی ہو کیونکہ
اسے اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ زندگی اﷲ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ مصیبت
کا کیا ہے، آج ہے کل ٹل جائے گی اور درحقیقت ایسا ہی ہوتا ہے۔ان تمام
طریقوں سے بڑھ کر سب سے زیادہ اہم رویہ جو ہمیں اختیار کرنا چاہئے وہ رسول
اﷲ ؐ کے اسوہ حسنہ کے مطابق اﷲ تعالیٰ کی ذات پر کامل توکل اور قناعت ہے۔
توکل کا یہ معنی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہا جائے۔ اس کا انتہائی
معیار یہ ہے کہ انسان کسی بھی مصیبت پر دکھی نہ ہو بلکہ جو بھی اﷲ تعالیٰ
کی طرف سے ہو ، اسے دل و جان سے قبول کرلے۔ ظاہر ہے عملاً اس معیار کو
اپنانا ناممکن ہے۔ اس لئے انسان کو چاہئے کہ وہ اس کے جتنا بھی قریب ہو
سکتا ہو، ہو جائے۔ قناعت کا معاملہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے جتنا عطا کر دیا
ہے ، اسی پر خوش رہا جائے۔ اس سے زیادہ کی کوشش اگر چہ انسان ضرورکرتا رہے
لیکن جو بھی اسے مل جائے اسے اپنے رب کی اعلیٰ ترین نعمت سمجھتے ہوئے خوش
رہے اور جو اسے نہیں ملا ، اس پر غمگین نہ ہو۔ وہ آدھے گلاس میں پانی دیکھ
کر شکر کرے کہ آدھا گلاس پانی تو ہے، اس غم میں نہ گھلتا رہے کہ باقی آدھا
خالی کیوں ہے؟ اگر ہم ہمیشہ دنیا میں اپنے سے اوپر والوں کو دیکھنے کی
بجائے خود سے نیچے والوں کو ہی دیکھتے رہیں تو ہماری بہت سی پریشانیاں ختم
ہو جائیں۔گناہوں کی وجہ سے کبھی مایوس نہ ہوں بلکہ ہمیشہ اﷲ کی رحمت سے
امید رکھتے ہوئے اپنے گناہوں سے توبہ کیجئے اور آئیندہ یہ گناہ نہ کرنے کا
عزم کیجئے۔ |