دہشت گردی کی لہر نے انسان کو
کتنی مصیبت میں مبتلا کیا ہے یہ تو صرف وہی جانتے ہیں جو اس کے نتیجے میں
ہونی والی تکلیف اور اذیت سے گزر ے ہوں۔ باقی لوگ تو روزانہ صرف اخبارات یا
ٹی وی پر مرنے والوں کی تعداد دیکھتے ہیں اور پیچھے رہ جانے والوں کے آنسو۔
پھر وقت گیا بات گئی اور سب اپنے روزمرہ کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔ جن
کی دنیا اُجڑ گئی اُن کا کوئی پرسان حال نہیں ۔
اب تک ہزاروں فوجی ، سیکورٹی اہلکار اور پولیس والے دہشت گردی کے نتیجے میں
اپنی جان دے چکے ہیں ۔ لیکن اُن کے جذبے اور عزم و ہمت میں کمی نہیں آئی ۔
وہ اسی طر ح ہر اُس ہاتھ کو روکیں گے جو خود کش جیکٹ کی طرف بڑھے گا یا
ریموٹ کنٹرول سے بم اُڑانے کی کوشش کرئے گا۔ یہ صرف ملازمت کی بات نہیں
بلکہ اس سے بھی بڑھ کر وطن عزیز سے وفا کا معاملہ ہے۔ ان شہداء کے والدین ،
بہن بھائی ، بیوہ اور بچے بھی ہیں ۔ اس خبر کے ساتھ کہ اب اُن کے سر پر
ہاتھ رکھنے والا نہیں رہا اُن پر کیا گزرتی ہو گی ۔ چند لمحوں کے لئے تو
لوگ اُن کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں لیکن اُس کے بعد ان والدین کے آنسو ؤں کو
پونچھنے والا کوئی ہے جو یہ سوچ سوچ کر لرز جاتے ہیں کہ اُن کا بڑھاپا کیسے
گزرے گا ۔ کسی کو اُ ن بہن بھائیوں کی فکر ہوئی جو پڑھنا چاہتے تھے لیکن اب
خود گھر کا بوجھ اُٹھانے لگے ہیں ۔ صدمے سے گھِری ہوئی اُس بیوہ کا کسی نے
سوچا جو ہر وقت خوف سے زندگی گزارے گی کہ کہیں کوئی کچھ کہہ نہ دے اور وہ
بچے جو یتیم ہو گئے ہیں جن میں سے کئی بچوں کو تو سمجھ ہی نہیں آئی کہ اُن
کے ساتھ ہو کیا گیا ہے ۔ وہ تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ اُن سے محبت کرنے
والا اُن کا باپ اب کبھی نہیں آئے گا۔ حکومت چند لاکھ روپے ادا کر کے اپنے
فرائض نبھا دیتی ہے لیکن معاملہ پیسوں سے حل ہونے والا نہیں ہے۔ یہ معاملہ
صرف احساس اور عملی اقدام سے حل کرنے کی ضرورت ہے ۔ سِول آبادی میں سے بھی
ہزاروں کی تعداد میں بچے اس دہشت گردی کے نتیجے میں متاثر ہوئے ہیں ۔ اس
لئے ہماری توجہ یہ ہونی چاہئے کہ ان متاثرہ بچوں کے ذہنوں کو منفی اثرات سے
بچائیں ۔ اُنہیں سہارا دیا جائے ۔ اُن کی تعلیم اور معاشرتی نشو نما کا
خیال رکھا جائے گاتب ہی تو یہ بچے ان حالات کو مثبت انداز میں لیں گے اور
پاکستان کے لئے ایک اچھے شہری بنیں گے۔ اس کے بر عکس اگر ان بچوں کے ذہن
میں انتقام یا منفی سوچ ڈال دی گئی تو یہ نہ صرف اپنی ذات بلکہ دوسروں کو
بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔ دہشت گردی کے خوفناک اثرات سے نئی نسل کو بچانا
بہت ضروری ہے ۔ اس کے لئے ایسے تمام بچوں کے اعداد و شمار ہونے چاہئیں ۔پھر
ان بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کرنی چاہئے ۔ بہت سے
بچے خوفزدہ ہو کر نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں جس کا احساس شروع میں نہیں ہوتا
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اُن بچوں میں یا تو خوف حاوی ہوجاتا ہے اور وہ الگ
تھلگ رہنے لگتے ہیں۔ یا اُن کا رجحان تشدد کی طرف ہوجاتا ہے ۔ ہمیں ان سب
باتوں کاا حساس کر کے ایسے پروگرام ترتیب دینے چاہئیں جن میں والدین اور
اساتذہ کو آگاہی دی جائے کہ وہ بچوں کے ساتھ کیسا رویہ اپنائیں ۔ دہشت گردی
کی وجہ سے ہم نے اپنے اتنے انمول ہیرے کھو دیے اب ان انمول موتیوں کی تو
حفاظت کرنی چاہئے جن کے ساتھ قوم کا مستقبل وابستہ ہے ۔ |