عقلیت پسندوں کے گروہ اس بات کے
قائل نہیں ہیں کہ عقل سے بڑھ کر بھی کوئی چیز ہے اور جو بات عقل میں نہ سما
سکے اس کی بھی کوئی حیثیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آخرت ،جنت و
دوزخ،ملائکہ،تقدیر،وحی اور اس طرح کے دیگر اسلامی عقائد کو نظر انداز کر
دیتے ہیں یا اگر کوئی صاحب عقل انکار نہ کرے تو اس سے آگے بڑھ کر ان عقائد
کی سائنسی اور عقلی بنیادوں پر توضیح بیان کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جو
بات وہ اپنے قول و عمل سے بیان کر رہے ہیں اس ہی کو دنیا بھی تسلیم کرلے۔
اس کا ایک مقصد اپنی حیثیت منوانا اور اپنی بات میں وزن پیدا کرنا ہوتا ہے
تو دوسرامقصد اسلامی تعلیمات، عقائد اور نظریات سے دوری پیدا کرناہوتا
ہے۔اسی لیے وہ کہتے ہیں کہ جو بات انسان ثابت نہ کر سکے وہ حقیقت نہیں۔جس
کو ثابت کیا جا سکتا ہے،جس کے ثبوت انسان تلاش کر چکا ہے اور جو تجربات کی
روشنی میں پرکھی جا چکی ہے بس وہی سچ ہے۔ایسے لوگوں کے بھٹکنے کی واحد وجہ
یہ ہے کہ وہ اﷲ کو اپنا رب اور رسولؐ کو اپنا رہبرتسلیم نہیں کرتے۔لیکن
افسوس! صد افسوس ان ا شخاص پر جو اﷲ کو بھی مانتے ہیں اور رسولؐ کو بھی
لیکن اس کے با وجود یہ لوگ بھی وہی طریقہ ِ استدلال اختیار کرتے ہیں جو
منکرین ِ حق اختیار کرتے رہے ہیں۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:"دیکھو، تمہارے
پاس تمہارے رب کی طرف سے بصیرت کی روشنیاں آگئی ہیں،اب جو بینائی سے کام لے
گا اپنا ہی بھلا کرے گا اور جو اندھا بنے گا خود نقصان اٹھائے گا، میں تم
پر کوئی پاسبان نہیں ہوں"(الانعام:۱۰۴)۔معلوم ہوا کہ عقلِ سلیم حق کو حق
تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے اور جو لوگ اﷲ پر ایمان لاتے ہیں ان کو یہ توفیق
حاصل بھی ہوجاتی ہے کہ وہ عقل کا صحیح استعمال کر سکیں اور جو چیزیں اﷲ نے
دنیا میں انسانوں کے غور و فکر کے لیے پیدا کیں ہیں ان کو دیکھیں، سمجھیں
اور تسلیم کر لیں۔ لیکن خدا سے بغاوت کے نتیجہ میں ان کی عقلیں کام نہیں
کرتیں اور وہ حق دیکھنے اور جاننے کے باوجودصحیح نتائج اخذ نہیں
کرپاتے۔لہذا خدا کو تسلیم کرنے کے معنی یہ ہیں کہ خدا کے دیے ہوئے غیبی علم
پر بھی ایمان لایا جائے۔کہا کہ:"یہ اﷲ کی کتاب ہے،اس میں کوئی شک
نہیں۔ہدایت ہے ان پرہیز گار لوگوں کے لیے جو غیب پر ایمان لاتے
ہیں"(البقرہ:۲)۔
شب قدر:
قرآن حکیم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:"ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل
کیا۔اور تم کیا جانوکہ شب قدر کیا ہے؟شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر
ہے۔فرشتے اور روح اس میں اپنے رب کے اِذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں۔وہ رات
سراسر سلامتی ہے طلوعِ فجر تک"(القدر:۵-۱)۔قدر کے معنی بعض مفسرین نے تقدیر
کے لیے ہیں، یعنی وہ رات جس میں اﷲ تعالیٰ تقدیر کے فیصلے نافذ کرنے کے لیے
فرشتوں کے سپردکر دیتا ہے۔ اس کی تائید سورۃ دُخان کی یہ آیت کرتی ہے:"اس
رات میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ صادر کر دیا جاتا ہے"(آیت:۵)۔بخلاف اس
کے امام زُہری کہتے ہیں کہ قدر کے معنی عظمت و شرف کے ہیں، یعنی وہ بڑی
عظمت والی رات ہے۔اِسی معنی کی تائید اِسی سورۃ کے ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے
کہ :"شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے"۔سوال یہ ہے کہ وہ کون سی رات ہے
؟اس سلسلے میں حضرت عُبادہ بن صامت کی روایت ہے کہ رسوالؐ اﷲ نے فرمایا کہ
شب قدر رمضان کی آخری دس راتوں میں سے طاق ہے، اکیسویں،یا تیئسویں، یا
پچیسویں، یا ستائیسویں،یا انتیسویں، یا آخری(مسند احمد)۔حضرت عائشہ ؓ کی
روایت ہے کہ نبی ؐ نے فرمایا کہ" شب قدر رمضان کی آخری دس راتوں میں سے طاق
راتوں میں تلاش کرو"(بخاری،مسلم،احمد، ترمذی)۔یہ وہ عظیم رات ہے جس میں
تمام حکیمانہ امور کا فیصلہ ہوا۔ اس رات میں قدریں، بنیادیں اور پیمانے وضع
ہوئے، اس رات میں افراد کی قسمتوں سے بڑھ کر قوموں، نسلوں اور حکومتوں کی
قسمتوں کا فیصلہ ہوا، بلکہ اس سے بھی زیادہ عظیم امر، حقائق، طور طریق اور
قلوب کی قدریں طے ہوئیں۔معلوم ہوا کہ اس رات کی قدر بے انتہا ہے اور اگر اس
کو کوئی بنا عزر حاصل کرنے کی سعی نہ کرے تو وہ اﷲ کی نصرت و تائید سے
محروم ہے۔ انس بن مالکؓ نے سے بیان کیا ہے، آپؐ نے فرمایا:"تمہارے اوپر یہ
مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے، اور اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے
بہتر ہے، جو اس سے محروم رہ گیا، وہ تمام ہی خیر سے محروم رہ گیا، اور اس
سے وہی شخص دور رہتا ہے جو خیر سے محروم ہے"(سنن ابن ماجہ)۔
شب قدر کے اعمال :
صحیحین کی روایت ہے کہ رسولؐ اﷲ نے فرمایا:"جس کسی نے شب قدر میں اﷲ کی
عبادت ایمان اور احتساب کی حالت میں کی ، اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے
جائیں گے"۔کہا کہ جو عبادت بھی کی جائے وہ ایمان اور احتساب کی حالت میں
ہو۔ ایمان کا مطلب ہے کہ شب قدر جن عظیم مطالب و معانی سے وابستہ ہے (دین،
وحی، رسالت اور قرآن) انھیں ہم ذہن میں تازہ کریں اور احتساب کا مطلب ہے کہ
عبادت صرف اﷲ کی رضا کے لیے اخلاص کے ساتھ ہو۔اس صورت میں قلب بیدار ہوگا،
عبادت کی حقیقت واضح ہو گی نیز قرآنی تعلیمات اور احکامات پر عمل درآمد
آسان ہوجائے گا۔ اس کے برخلاف اظہار ِ عبادت قلب میں وہ قوت پیدا نہیں کر
سکتی جو مطلوب ہے۔حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ:" جب رمضان کا آخری عشرہ آ
جاتا تو نبی صلی اﷲ علیہ و سلم اپنا تہہ بند مضبوط باندھتے(بہت زیادہ مستعد
ہو جاتے) رات کو خوب جاگتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے"(صحیح بخاری)۔ اس
حدیث سے تین باتیں واضح ہوتی ہیں i)آخری عشرہ میں روزہ داروں کو اس بات کا
شعوری علم ہونا چاہیے کہ یہ آخری عشرہ دیگر عشروں کے بالمقابل زیادہ اہمیت
رکھتا ہے لہذا اس میں پوری توجہ اور مستعدی کے ساتھ پہلے گزرے دو عشروں کے
مقابلہ زیادہ عبادت کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔ ii)دن کی مصروفیت کو جاری
رکھتے ہوئے رات میں عبادت زیادہ کی جائے اور یہ عبادت تب ہی ممکن ہے جب کہ
اس کے لیے ذہنی تیاری کر لی گئی ہو۔ iii) اور آخری بات ، عبادت خود بھی کی
جائے اور اس پر بھی توجہ دی جائے کہ ہمارے بیوی،بچے اور گھر میں رہنے والے
دیگر افراد بھی اِس عبادت سے فیض یاب ہوں۔ اس کے لیے پہلے عملی نمونہ ہمیں
خود پیش کرنا ہوگا تب ہی ممکن ہے کہ دوسروں کے لیے قابل تقلید بن سکیں ۔اور
یہ حقیقت ہے کہ عملی نمونہ بہ نسبت قولی نصیحت کے زیادہ پُراثر ہوتی ہے۔
اعتکاف :
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اﷲ رمضان کے عشرے میں اعتکاف
کرتے تھے۔ جب بیسویں رات گزر جاتی اور اکیسویں رات آ جاتی تو اپنے گھر واپس
آجاتے اور جو لوگ آپ کے ساتھ اعتکاف میں ہوتے وہ بھی واپس ہو جاتے۔ ایک
مرتبہ ایک رمضان میں آپ اس رات کو اعتکاف میں رہے جس میں آپ واپس ہو جاتے
تھے۔ اس کے بعد آپ نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیا اور جو کچھ اﷲ نے چاہا اس کا
حکم دیا پھر فرمایا "اس عشرے میں اعتکاف کرتا تھا مگر اب آشکارا ہوا کہ اس
آخری عشرے میں اعتکاف کروں، اس لیے جو لوگ میرے ساتھ اعتکاف میں ہیں وہ
اپنے اعتکاف کی جگہ میں ٹھہرے رہیں اور مجھے خواب میں شب قدر دکھائی گئی،
پھر وہ مجھ سے بھلا دی گئی۔ اس لیے اسے آخری عشرے اور ہر طاق راتوں میں
تلاش کرو اور میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ پانی اور کیچڑ میں سجدہ کر رہا
ہوں" پھر رات میں آسمان سے پانی بر سا اور نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے نماز
پڑھنے کی جگہ سے مسجد ٹپکنے لگی وہ اکیسویں رات تھی میں نے اپنی آنکھوں سے
دیکھا کہ آپ نماز صبح سے فارغ ہوئے اور آپ کا چہرہ کیچڑ اور پانی سے بھر
ہوا تھا،(صحیح بخاری)۔ دوسری روایت حضرت عائشہ ؓ سے ہے کہ نبی ؐ رمضان کے
آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے تھے، یہاں تک کہ اﷲ نے آپ کو اٹھا لیا پھر آپ کے
بعد آپ کی بیویاں بھی اعتکاف کرتی تھیں،(صحیح بخاری)۔ ان دونوں احادیث سے
جو باتیں سمجھ میں آتی ہیں وہ یہ ہیں : i)پہلے رسولؐ اﷲ دوسرے عشرہ میں
اعتکاف فرمایا کرتے تھے لیکن اب جب کہ ان پر حقیقت آشکارا ہو چکی اور شب
قدر کو بتا دیا گیا کہ وہ آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ہے تو ضروری ہوا
کہ آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے ہوئے شب قدر کی تلاش کر لی جائے اور اس کی
برکات حاصل کی جائیں۔ ii)رسولؐ اﷲ کو شب قدر بتائی گئی تھی لیکن پھر اس کو
بھلا دیا گیا، یہ اﷲ کی مصلحت ہے تاکہ مسلمان زیادہ سے زیادہ عبادت کر سکیں
اور انھیں اس کا بھر پور فائدہ اس دن حاصل ہو جبکہ اعمال نامہ بند کر دیے
جائیں گے۔ iii) رسولؐ اﷲ کی ازواج بھی اعتکاف کرتی تھیں اس لیے ہمارے گھر
کی عورتیں جن کے لیے ممکن ہو وہ بھی اس کا ضرور اہتمام کریں۔ iv)آخری بات
یہ کہ اسلام نے رہبانیت (ترکِ دنیا) سے منع کیا ہے لیکن یہ انسانی خواہش کہ
وہ اپنے رب سے گوشہ تنہائی میں گفتگو کرے اور اس کے حضور گڑ گڑا کر اپنے
گناہوں کی معافی مانگے اور آئندہ کے لیے اطاعت و وفاداری کا عہد و پیمان
کرے، اعتکاف کو مستحب قرار دے کر انسان کی اس خواہش کی تکمیل کی گئی ہے۔
شب قدر کی دعا :
قرآن و حدیث میں دعاؤں کا تذکرہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ کس مرحلے
میں کون سی دعا کا اہتمام کیا جائے۔وہ مرحلہ جب کہ انسان کو ایک عظیم رات
میں عبادت کرنے اور اپنی حاجات اور مناجات پیش کرنے کا شرف حاصل ہوتا ہے۔
ہزار مہینوں سے بہتررات جب کہ روح اور فرشتے اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے
کر اترتے ہیں۔ جس رات طلوع فجر تک سراسر سلامتی ہی سلامتی ہے۔جس رات انسان
کی تقدیر کے فیصلے کیے جاتے ہوں۔ اگر وہ رات انسان کو مل جائے تو غور
فرمائیے کہ کس قدر خوشی اس پر طاری ہوگی۔پھر اس مرحلے میں انسان چاہے گا کہ
اس کو وہ کچھ مل جائے جس کی وہ آرزو کرتا ہے۔ اور یہ بات بھی قابل توجہ ہے
کہ انسان کی خواہشیں لازوال ہیں۔اس پس منظر میں اگر وہ دعائیں کرنے بیٹھے
تو طویل دعا ئیں مانگنے کی توقع ہے۔ لیکن غور فرمائیے کہ اﷲ کے رسولؐ نے اس
رات کے ملنے پر کون سی دعا کے اہتمام کا تذکرہ کیا ہے؟ حضرت عائشہ ؓ نے عرض
کیا اے اﷲ کے رسولؐ!اگر مجھے شب قدر نصیب ہو جائے تو کیا دعا کروں؟ فرمایا
" اللَّھُمَّ اِنَّکَ عَفوتُحِبُّ العَفوَ فَاعف عَنِیّ ۔ کہنا اے اﷲ! تو
بہت معاف کرنے والا ہے،معافی کو پسند کرتا ہے،تو میری خطائیں معاف فرما "
(ابن ماجہ)۔
دعا کی حقیقت و اہمیت :
حضورؐ اکرم نے دعا کو مغزعبادت قرار دیا ہے۔بندہ جب اﷲ کے آگے اپنی حاجات
پیش کرتا ہے ،اس سے اپنی امیدیں وابستہ کرتا ہے اور دوسرے تمام رب سے تعلق
منقطع کر لیتا ہے ،یہی وہ مرحلہ ہے جہاں توحیدو اخلاص کا اظہار ہو جاتاہے
اور جب بندہ اﷲ کوواحد رب تسلیم کر لے تو اس سے بلند تر کوئی عبادت نہیں۔
محی الدین ابن عربی کہتے ہیں کہ جس طرح جسم کے تمام اعضا ہڈیوں کے مغز سے
قوت حاصل کرتے ہیں اسی طرح دعا وہ مغز ہے جس سے عابدوں کو تقویت حاصل ہوتی
ہے۔ ایک حدیث میں بنی کریمؐ نے قرآن کی آیت سے استدلال کرتے ہوئے دعا کو
عین عبادت بھی کہا ہے۔کہا :"اور تمہارا رب کہتا ہے مجھے پکارو ، میں تمہاری
دعائیں قبول کروں گا۔ بے شک جو لوگ میری عبادت سے گھمنڈ کرتے ہیں وہ عنقریب
ذلت و خواری کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے"(المومن:۶۰)۔اﷲ کا اپنے بندوں سے
مطالبہ ہے کہ وہ اس سے اور صرف اسی سے دعامانگیں اور مدد کے لیے اسی کو
پکاریں۔ اس لیے کہ سب کچھ اسی کے دستِ قدرت میں ہے اور اس کائنات میں اس کی
مشیت کے بغیر ایک پتا بھی اپنی جگہ سے ہِل نہیں سکتا، اور اس لیے بھی کہ
دعا عبادت ہے اور عبادت کسی دوسرے کی جائز نہیں۔اور کہا کہ:"اپنے رب کو
پکارو گڑ گڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے یقینا وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند
نہیں کرتا۔ زمین میں فساد برپا نہ کرو، جب کہ اس کی اصلاح ہو چکی ہے اور
خدا ہی کو پکارو خوف کے ساتھ اور طمع کے ساتھ۔ یقینا اﷲ کی رحمت نیک کردار
لوگوں سے قریب ہے"(الاعراف:۵۶-۵۵)۔دعا کے سلسلے کی یہ بات بھی اہم ہے کہ
دعا غیر اﷲ سے نہ مانگی جائے،یہ دعا صرف قولی ہی نہیں بلکہ عملی بھی ہونی
چاہیے ،کیونکہ اعمال انسان کی فکر و عقیدہ کا اظہار ہوتے ہیں۔ کہا کہ:"اور
اﷲ کو چھوڑ کر کسی ایسی ہستی کو نہ پکار جو تجھے نہ فائدہ پہنچا سکتی ہے نہ
نقصان۔ اگر تو ایسا کرے گا ظالموں میں سے ہوگا"(یونس:۱۰۶)۔ |