تحریر : محمد اسلم لودھی
قرآن پاک خودپڑھنا اور دوسروں کو پڑھنا افضل ترین عمل ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے
دین کی تبلیغ کو پسندیدہ عمل قرار دیاہے پاکستان کے طول و عرض میں جو دورہ
تفیسر القرآن الکریم ٗ قرآن پاک حفظ کرنے اور دیگر دینی علوم پر دسترس کے
لیے جو دینی مدرسے بنائے گئے ہیں ان کی کاوشیں واقعی لائق تحسین ہیں کیونکہ
جس طرح دنیا میں برائی تیزی سے بڑھتی جارہی ہے اس کامقابلہ کر کے اچھائی کو
بھی اسی رفتار سے آگے بڑھنا چاہیئے اور یہ کام دینی علوم سے آراستہ طلبہ
اور علمائے کرام ہی انجام دے سکتے ہیں ۔ میں بھی ایسی تمام کاوشوں اور دینی
مدرسوں کی خدمات کا بلاشبہ معترف ہوں لیکن مجھے ایک بات کا احساس شدت سے
ہوتا ہے کہ ان دینی مدرسوں میں زیر تعلیم طلبہ وطالبات کو معقول ماحول
فراہم نہیں کیا جاتا ہے۔جہاں وہ صبح سے شام قرآن پاک پڑھتے ہیں وہاں روشنی
اور موسم کے مطابق ہوا کا معقول انتظام نہیں ہوتا پھر جس قدر اچھی خوراک
انہیں میسر ہونی چاہیئے وہ ہرگز فراہم نہیں کی جاتی ۔سونے کے لیے فرش پر ہی
گھاس پھونس بچھا کر تعداد کو دیکھے بغیر بچوں کو ایک ہی کمرے میں سونے پر
مجبور کیا جاتا ہے جہاں وہ سکون سے سو نہیں سکتے اگر کوئی بچہ بیمار ہوجائے
تو علاج کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا سردیوں میں کانپتے ہوئے بچے دیکھنے
والوں کے لیے اذیت کا سامان پیدا کرتے ہیں جبکہ گرمیوں کاموسم بھی دین
پڑھنے اور سیکھنے والے بچوں کے لیے کم تکلیف دہ نہیں ہوتا ۔دینی مدرسوں کی
زیادہ تر تعداد تو مساجد سے ملحقہ ہوتی ہے جہاں کا پرنسپل امام مسجد ہی
ہوتا ہے جبکہ حافظ قرآن اور موذن اضافی طور پر استاد کے فرائض انجام دیتے
ہیں لیکن انہیں اس کا اضافی معاوضہ نہیں ملتا ۔ کم ترین تنخواہوں پر یہ لوگ
نہ صرف نمازیں پڑھانے ٗ لوگوں کو دینی مسائل سمجھانے ٗ جمعہ کی وعظ کرنے ٗ
نماز جنازہ پڑھانے اور نکاح خواں کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں ۔ جبکہ
مسجدکمیٹیوں کے کم ظرف اور بدتمیز ارکان کی جابجا تنقید اور ڈانٹ کا الگ
سامنا کرنا پڑتا ۔جن کو صحیح وضو کرنااور نماز پڑھنا بھی نہیں آتا وہ مسجد
کمیٹی میں شامل ہوکر خطیبوں ٗ حافظ قرآن لوگوں کے ہیڈ ماسٹر بن جاتے
ہیں۔بات بات پر ڈانٹ ڈپٹ کرنا ٗ توہین آمیز لہجہ اختیار کرنا ایک معمول بن
جاتا ہے ۔اگر دیکھا جائے تو یہ معاشرے کے اہم اور معزز ترین افراد تصور کیے
جاتے ہیں لیکن آقائے دو جہان ﷺ کے مصلے پر کھڑے ہونے والے یہ معزز ترین
افراد معاشرے اور حکومت کی بے حسی کا ہمیشہ شکار رہتے ہیں ۔حکومت نے آج تک
دینی مدرسوں کی جانب توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور یہ کام چند
سرکاری اور سیاسی مولویوں کے سپرد کررکھا ہے جو ان داتا بن کے دینی طلبہ
اور اساتذہ کرام کا جی بھر کے معاشی استحصال بھی کرتے ہیں ۔یہ کس قدر
بددیانتی کی بات ہے کہ ہر شخص علمائے کا احترام تو کرتا ہے انہیں وہ معاشی
ٗ سماجی اور معاشرتی حقوق فراہم نہیں کرتا جس کے یہ مستحق ہیں ۔اگر یہ
کہاجائے تو غلط نہیں ہوگا کہ معاشرے کی بے حسی کی وجہ سے دینی تعلیم دینے
اورحاصل کرنے والے دونوں اپنی اپنی جگہ پر معاشرے کی ستم ظریفی کا شکار ہیں
۔بطور خا ص وہ بچے جن کے والدین اپنے بچوں کا معاشی بوجھ اور تعلیمی
اخراجات پورے نہیں کرسکتے وہ دل پر پتھر رکھ کر اپنے بچوں کو دور دراز
شہروں کے دینی مدرسوں میں اس لیے بھیج دیتے ہیں کہ کچھ نہیں تو یہ بچے بڑے
ہوکر حافظ قرآن بن جائیں گے اپنے ساتھ ساتھ والدین کی بخشش کا بھی اہتمام
کریں گے لیکن والدین کی امیدوں پر اس وقت پانی پھر جاتا ہے جب قرآن حفظ
کرنے والے بچوں کو صرف تین سے چار ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر مسجدوں میں
ملازمت پیش کش کی جاتی ہے یہ بات کس قدر تکلیف دہ ہے کہ سرکاری محکموں میں
ایک خاکروب کی تنخواہ بھی امام مسجد سے دوگنا زیادہ ہوتی ہے حافظ قرآن اور
علمائے کرام کی یہ بے توقیر ی پاکستان میں مسلسل ہورہی ہے جو کلمے کے نام
پر وجود میں آیا ہے اور اس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے ۔ وزیر اعلی
پنجاب جو پسماندہ علاقوں کے بچوں کو جدید طریقہ تعلیم کے لیے تمام
ترسہولتوں سے آراستہ دانش سکول تعمیر کررہے ہیں نہ جانے کیوں ان کی توجہ
میں دینی مدرسوں میں زیر تعلیم بچوں ٗ وہاں پڑھانے والے اساتذہ کرام ٗ حافظ
قرآن اور علمائے کرام کی طرف نہیں جاتی ۔میں سمجھتا ہوں یہ تکلیف دہ بات ہے
۔ اب وہ دور گیا جب امام مسجد اور مسجدوں میں پڑھنے والے غریب بچے مردوں کے
اترے ہوئے کپڑے پہن کر اور گھر گھر سے مانگی ہوئی روٹیاں کھا کر گزار ا
کرلیتے تھے ۔جس طرح معاشرے کے عام بچوں اور عام لوگ کی ضروریات ٗ مسائل اور
خواہشات بڑھتی جارہی ہیں اسی طرح دینی مدرسوں کے طلبہ ٗ اساتذہ ٗ حافظ قرآن
اور علمائے کرام اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور انسان ہونے کی حیثیت سے ان کی
بھی کچھ خواہشات اور ضرورتیں ہیں لیکن دوسروں کی رہنمائی کرنے والے لوگ
اپنی ضرورتوں کے لیے زندگی بھر ترستے رہ جاتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں یہ
معاشرے کی ستم ظریفی ہے ۔وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کو چاہیے کہ وہ
دانش سکولوں کی طرح دینی مدرسوں کو زندگی کی بنیادی سہولتوں سے آراستہ کرتے
ہوئے نہ صرف طلبہ کو بہترین ماحول فراہم کریں بلکہ حافظ قرآن اساتذہ کے
تنخواہ کم ازکم 25 ہزار ہونی چاہیئے۔بلکہ پی ایچ ڈی کے 10 ہزار الگ حکومت
کی جانب سے انہیں دیئے جائیں کیونکہ قرآن حفظ کرنا پی ایچ ڈی سے زیادہ مشکل
کام ہے۔ جبکہ فاضل درس نظامی علمائے کرام کی تنخواہ کم ازکم50 ہزار مقرر کی
جائے۔ حافظ قرآن اور علمائے کرام کو معاشرے میں جتنا بلند مقام حاصل ہوگا
یہ معاشرہ اسی قدر اسلامی اور فلاحی روپ اختیار کرجائے گا اور نوجوان نسل
بھی دین کی جانب راغب ہوگی۔مزید برآں پاکستان کے تمام دینی مدرسوں کی
رجسٹریشن کرکے وہاں تدریسی فرائض انجام دینے والے اساتذہ کرام کی سنیارٹی
لسٹ بناکر ان کے لیے ملازمت کا ایسا ڈھانچہ تشکیل دیا جائے جس کے تحت وہ
تمام سہولتیں حاصل ہوں جو سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ کرام کو حاصل ہیں
پھر جو معیاری سہولتیں پرائیویٹ کالجز میں فراہم ہیں ایسی ہی سہولتیں مسجد
مدرسوں ٗ بڑے دینی مدرسوں کے طلبہ و طالبات کو بھی فراہم کی جائیں۔جہاں تک
دینی مدرسوں کی حالت زار میں بہتری اور وہاں تعلیمی و تدریس کی جدید
سہولتوں کی فراہمی کا تعلق ہے بہتر ہوگا ایسے اداروں کو ہر بڑے شہر کی
یونیورسٹیوں سے منسلک کرکے کمپیوٹر لیب ٗ لائبریریوں کے ساتھ ساتھ نصاب میں
سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ دور حاضر میں روزگار کا باعث بننے والے
علوم شامل کیے جائیں تاکہ دینی مدرسوں سے فارغ التحصیل طلبہ صرف مسجدوں تک
ہی محدود نہ رہ جائیں بلکہ کسی بھی سرکاری اور پرائیویٹ ادارے میں معقول
ملازمت بھی حاصل کرکے اپنے خاندان کی بہترین کفالت بھی کر سکیں وگر نہ اب
تک یہی ہوتا آیا ہے کہ نہ پاکستان میں علمائے کرام ٗ دینی مدرسوں کے اساتذہ
کرام ٗ حافظ قرآن اور موذن حضرات کے حالات کبھی بدلے ہیں اور نہ ہی ان کے
خاندان کے افراد ہی ترقی و خوشحالی کے راستے پر گامزن ہوئے ہیں۔ میں
سمجھتاہوں یہ قوم کا بہت بڑا المیہ ہے جس کی طرف ابھی تک حکمرانوں اور
انتظامی اداروں نے توجہ نہیں دی ۔اور نہ ہی یہ لوگ کبھی اپنے مسائل کے حل
کے لیے سڑکوں پر آئے ہیں بلکہ نہایت خاموشی سے خود پر ہونے والے جبر کو
صابر و شاکر بن کے برداشت کررہے ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی تعلیم کو
بھی دنیاوی تعلیم کے اداروں کی طرح جدید سہولتوں سے آراستہ کرنے کے ساتھ
ساتھ وہاں تدرسی فرائض انجام دینے اور تعلیم حاصل کرنے والوں کے حالات اور
مستقبل کو بھی بہتر بنانے کی جانب توجہ مرکوز کی جائے ۔ |