اسلامی نظامِ تعلیم کیخلاف صہیونی سازشیں۔ ذرا آپ بھی سوچئے !

اسلام باحیثیت دین مکمل ضابط حیات کا عکاس ہے اس لئے اسلام نے جو آئیڈیالوجی پیش کی وہ زندگی کے تمام شعبوں ، سیاست ، اخلاقیات، معاشرت ، معاشیات اور تعلیم پر محیط ہے۔پاکستان کے ایک معروف چینل" جیو " میں " ذرا سوچئے "کے عنوان سے مسلسل پروگرام کچھ عرصہ قبل نشر کیا جاتا رہا جس میں مغرب کو تعلیم کی جانب اور اہل اسلام کو عیش و عشرت اور صرف تعمیرات کی جانب راغب دیکھا نے سے غلط فہمی پیدا ہوتی تھی ۔ اب سپریم کورٹ میں میڈیا رپورٹ کمیشن میں جب اس پروگرام پر براہ راست الزامات لگے ،(کرپشن کے الزامات عموعی طور پر ثابت نہیں ہوتے )تو اس پرگرام کے رخ کو تبدیل کرلیا گیا اور اب مسلمانوں کی جانب سے ایجادات و تعلیم کے فروغ کیلئے کاوشوں کو نشر کئے جانے لگا ۔ زیر نظر مضمون ایسی تناظر میں اختصار کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے کہ خدارا ذرا سوچئے ۔ آج اسلامی نظریہ حیات دورِ جدید کے دو بڑے نظریات اشتراکت اور سرمایہ دارانہ کے سامنے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہودی اسلام کے خلاف سازشئیں کرتے رہتے ہیں ۔کبھی لارڈ میکاولے کا نظام مسلمانوں پر لاد دیتے ہیں ، تو کبھی مسلم ممالک پر چڑھائیاں کرکے ان کی معیشت کو اس قدر کمزور کردیتے ہیں کہ جدید تعلیم کے حصول کے بجائے دفاع کے لئے سارا سرمایہ خرچ ہونے لگتا ہے۔مسلم ممالک کو دہشت گردی کا شکار بنا دیا جاتا ہے تو صرف سرکاری اسکولوں کو بموں سے نامعلوم دہشت گردی کے ہاتھوں تباہ کیا جاتا ہے تو پرائیوٹ اور حیا باختہ تعلیم دینے والے فری میسن کے حلف یافتہ پرائیوٹ اسکول ان دہشت گردی کے نشانوں سے محفوظ رہتے ہیں ۔ اسلام کی آفاقی سوچ و فکر سے خائف دوہرا نظام تعلیم مسلمانوں کیلئے متعارف کرایا گیا جس کی وجہ سے مسلمان دورِ جدید کے علمی تقاضوں سے خود دورنہیں ہوا بلکہ سوچی سمجھی سازش کے تحت دور کرادیا گیا۔آغازِ اسلام میں قرآن و حدیث ، فقہ و ہیت ، علم الانساب ، خوشنویسی وغیرہ شامل نصاب تھے۔نبی اکرم ﷺ کے دور میں عربی زبان اور قرآن مجید نصاب کا حصہ تھے ۔ خلفائے راشدین کے دور میں تفسیر، حدیث، علم الانساب ، اسماء الرجال ،عربی محاوارت اور جغرافی شامل تھے ۔عباسی دور تک پہنچتے پہنچتے نصا ب ِ تعلیم قرآن، قرات و تفسیر ، فقہ ، خطاطی، جغرافیہ ، تاریخ، ریاضی، جغرافیہ ، علم نجوم ، نظم ، گرامر، کیمیا، فن تعمیر ، سنگ تراشی ، عسکری فنون،صنعتی فنون اور فن خطابت شامل ہوگئے۔جب اسلامی سلطنت وسیع ہوئیں تو مساجد کے ساتھ مکاتب نے لے لی، سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے کھلے گئے علوم کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا بڑے بڑے کتب خانے قائم ہوئے۔امام غزالی پہلے مفکر تھے جنھوں نے لازمی اور اختیاری ،مضامین کے تصور سے آشنا کیا اور علوم شرعیہ کیساتھ علوم دنیویہ کو شامل نصاب کرکے فنی اور پیشہ وارانہ تعلیم کوباقاعدہ رواج دیا۔بابائے عمرانیات ابن خلدون نے علوم کی دو قسمیں د یں۔پہلے طبعی علوم یا علوم عقلیہ ،طبعی علم میں منطق،حساب، ہیت، موسیقی ، طبعیات ، الہیات دوسرے تقلیدی علم یا علوم نقلیہ میں تفسیر ، قرات ، حدیث ، فقہ اصول فقہ ، علم االکلام ، لغت ، صرف و نحو، اور ادب کے ساتھ پیشہ وارانہ علوم مثلا موسیقی ، مصری،نقاشی ، فن حرب غیرہ بھی نصاب میں تجویز کئے۔سلطان محمود غزنوی کے زمانے سے ایسٹ ا نڈیا کمپنی کے دور حکومت تک ، برصغیر پاک و ہند میں فارسی سرکاری زبان رہی، ایران کے بعد ہندوستان کو فارسی کا گھر سمجھا جاتا تھا۔یہ ماننا قطعی غلط ہے کہ مسلمان حکمرانوں نے تعلیم کیجانب توجہ نہیں دی ۔شمالی ہندوستان میں کوئی ایسا بڑا شہر اور تمدنی مرکز نہیں تھا جسے ہندو تہذیبی اقدار کا سر چشمہ قرار دیا جا سکتا ۔ تعلیم مندروں میں پاٹ شالوں میں دی جاتی تھی۔ڈاکٹر سی پی رائے نے مسلم علی گڑھ یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے کہا۔ "یہ صحیح نہیں کہ مسلمان ہندوستان میں آکر صرف بس گئے۔ وہ لباس زرین جو مسلمانوں نے ہندوستان کی دیوی کو پہنایا ، اگر اتار لیا جائے تو وہ کیسی بد نما لگے گی۔"سر جاد ناتھ سرکار اپنی تصنیف "انڈیا تھر دی ایجر" میں اعتراف کرتے ہیں کہ "کتابوں کی نقل کرکے تقسیم کرنے اور علم کی عام اشاعت کے رواج کیلئے ہم اسلامی اثرات کے رہن منت ہیں ورنہ پرانے ہندو تو اپنی لکھی کتابوں کو خفیہ رکھنا پسند کرتے تھے ۔عزنوی عہد کے دوسو برس (۹۷۶ ء تا ۱۱۸۶ ء)میں ماورا النہر (توران) اصفہان وشیراز اور دوسرے علمی مراکز سے عالموں کی بڑی تعداد جمع ہوگئی تھی۔ جن میں ابو ریحان البیرونی، فردوسی، عنصری، فرخی،مسعود ، سعد سلیمان،اور عسجدی قابل ذکر ہیں۔ مساجد کیساتھ مدارس کی تعمیر مسلم حکمرانوں کی روایت رہی ہے ۔ محمود غزنوی نے عظیم الشان کتب خانہ تعمیر کرایا اگر یہ مدرسہ علا ؤ الدین جہاں سوز کی آگ سے جل کر تباہ نہ ہوتا تو یقینا اس کی اہمیت آج کے جامعہ ازہر سے بڑھ کر ہوتی۔سلاطین دہلی کے عہد میں بھی کثرت سے مساجد و مدارس تعمیر ہوئے ۔قطب الدین ایبک اور اس کے جانشین التستمش کے عہد حکومت میں " مدرسہ معزی"کی تاسیس و تعمیر ہوئی جیسے قرامطہ نے رضیہ سلطانہ کے عہد میں یورش کرکے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ فیروز شاہ تغلق نے اس برباد شدہ مدرسے کو ازسر نو بحال کرکے حصول مرکز بنایا ۔ رضیہ سلطانہ نے اپنے عہد میں شہزادہ ناصر الدین کے نام سے "مدرسہ ناصریہ"بنایا یہ بھی زمانے کی دست بردزمانہ سے نہ بچ سکا۔ ناصر الدین نے بھی طبقات ناصری کے نام سے بڑا تعلیمی ادارہ قائم کیا۔علاؤ الدین کے دور میں درگاہ نظام الدین اولیا ء کی مسجد اور مدرسے کی دانش گاہیں تھیں۔ محمد تغلق نے شہر دہلی آباد کیا تو اس نے مدرسے اور مساجد بھی تعمیر کیں۔تغلق دور کا سب اہم مدرسہ "مدرسہ فیروز شاہی" تھا۔یہ ایک عظیم الشان ہندوستان کی پہلی تکنیکی تعلیم کا کامیاب تجربہ تھا جہاں تفسیر ، حدیث ، فقہ ،فلسفہ، ہئیت اور ریاضی کے علیحدہ شعبے جات تھے۔فیروز شاہ نے سلطان خلجی کے" حوض خاص"پر تاریخی مدرسہ قائم کیا۔سکندر لودھی نے آگرہ میں مساجد بنوائیں۔اسنے ہندوستان، توران، خراسان اور بلاد اسلامیہ سے طبیبوں کی ایک ایسی جماعت کو یکجا کیا جنہوں نے فن طب پر مستند کتاب مرتب کی جو طب سکندری کہلائی۔ جون پور فیروز تغلق کے نام پر آباد علم و فن کا اہم مرکز بنا۔ جون پور میں "مدرسہ بی بی راجہ بیگم "کے نام سے بڑی تعلیم گاہ تھی جو امتداد زمانہ تباہ ہوئی ۔ سلاطین مشرقی نے نئے نئے مدرسں کا اضافہ کیا، "اٹالہ مسجد اور مدرسہ "ہندوستان کا اہم تعلیمی ادارہ تھا۔محمد شاہ بہمنی دوم نے ایک بڑی علمی درسگاہ "مدرسہ محمود گاواں"کے نام سے قائم کی۔مغلیہ دور میں اکبر نے بڑے بڑے شہروں میں مدرسے قائم کئے جہاں علوم و فنون کی ترویج درجہ کمال کو پہنچ گئی تھی ۔ابوالفضل نے نصاب کی جو تفصیل لکھی ہے اس کے مطابق علم الحساب ، علم الہندسہ،فن زراعت، علم المساحت،علم ہیت،رمل، معاشیات،انتظام ملکی، طبعیات، منطق، ریاضیات، الہیات اور تاریخ کی شعبوں میں ہندو مسلم ملکر تعلیم حاصل کرتے تھے۔شاہ جہاں نے "مدرسہ دارلبقا" کے نام سے عظیم الشان مدرسہ قائم کیا ۔اورنگزیب کے دور میں"مدرسہ رحیمیہ" شاہ ولی اﷲ کے والد عبد الرحیم نے عہد ساز تعلیمی ادارہ قائم ہوا۔بد قسمتی سے چودھویں صدی میں کے آخری عشرے میں تیمور اور منگولوں نے جو تباہ کاریاں میں مالی ، جانی اور ادبی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اسی طرح انگریزوں نے ہندوستان پر قبضے کے بعد دہلی ،آگرہ اور مسلمانوں کے دوسرے علمی اور ثقافتی مراکز کو تباہ و برباد کردیا ۔ لاکھوں گراں قدر کتابیں ضائع ہوئیں۔انگریزوں نے سینکڑوں سال کی محنت سے لکھے جانے والا قیمتی اثاثہ چُرا لیا جو آج بھی یورپی کتب خانوں کی زینت ہیں اور آج بھی بڑی بڑی علمی درسگاہوں میں پڑھایا جاتا ہے۔سر سید احمد خان کے علی گڑھ دارلعلوم کو قائد اعظم نے اسلامی ہند کا اسلحہ خانہ اور اس کے طلبہ کو بہترین سپاہی قرار دیا تھا۔ انگریزوں نے دوہرا نظام تعلیم متعارف کرایا جس کی وجہ سے مسلمان دور جدید کے تقاضوں کے مطابق خود کو جلد نہیں ڈھال سکے ۔ اس کے علاوہ برطانیہ ، امریکہ اور دیگر یورپی ممالک نے فلاح انسانیت کے بجائے فساد فی الارض کے لئے تباہی کا سامان ایجاد کیا ۔ تما م تعمیریں ایجادات مسلمانوں کی ہیں۔ جدید سائنس کی بنیاد مسلمانوں نے رکھی۔آج مسلمان تعلیم کیجانب متوجہ نہیں ہیں کیونکہ ایسے خانہ جنگیوں ، بد امنی ، دہشت گردی اور ملکی بغاوتوں میں الجھا دیا گیا ہے۔معاشی طور پر مضبوط مسلم حکومتیں عیاشیوں میں مصروف ہیں۔ ترقی پذیر مملکتیں معاشی الجھنوں و مفاہمتی سیاست و تعلیم پر مجرمانہ عدم توجہ کا شکارہیں۔ سینکڑوں اسکول شدت پسندوں نے تباہ کرڈالے۔مسلم دنیا کو اقوام عالم پر ماضی کی طرح فکری تسلط چاہیے تو انھیں تعلیم کی تریج پر توجہ دینا ہوگی جو اصل اسلامی اساس ہے۔ ہم موجودہ مدارس کو جدید تقاضوں کیمطابق ہم آہنگ کرکے مسلم امہ کی شان و شوکت بحال کرکے اسلام کیخلاف تعلیمی سازش ناکام بناناہوگا۔تعلیمی فروغ کے لئے اپنے اسلاف کی پیروی کریں۔کیونکہ یہی واحد حل ہے، غلامی سے نجات کا ۔مغرب کے گن گانے سے بہتر ہے کہ اربوں روپے غریب بچوں کو تعلیم کیلئے فراہم کریں،۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744314 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.