مہنگائی،بدامنی،بیروزگاری نے
ہمارے ملک کی اکثریت کو بہت متاثر کردیا ہے اور معاشی عدم مساوات نے غریب
اور امیر میں ایک بہت بڑا فاصلہ پیدا کردیا ۔جمہوریت تو عوام کے لئے ہوتی
ہے لیکن ہمارے ملک کی جمہوریت صرف حکمرانوں کے لئے ہی بنائی گئی
ہے۔حکمرانوں نے جمہوریت کے کھوکھلے نعروں کے سوا عوام کو کچھ نہیں دیا۔عید
سب کے لئے خوشیوں کا پیغام لاتی ہے لیکن پاکستان کے غریب طبقے کے لئے ’’خودکشیوں‘‘کا
پیغام ہوتا ہے۔مہنگائی نے غریبوں کے علاوہ سفید پوش یعنی مڈل کلاس طبقے کو
بھی متاثر کردیا ہے اب عید کی شاپنگ متوسط طبقے کی دسترس سے بھی باہر ہوگئی
ہے تو وہاں نچلے طبقے کے غریب کی حالت کیسی ہوگی۔ایگزیکٹو فیملیز تو محلات
میں عید کی خوشیاں مناتے ہیں اور ساتھ میں عید کی عبادت کو غیر شرعی افعال
کے ذریعے ضائع کردیتے ہیں اور لاکھوں روپے ضاؤ کرتے ہیں اگر ان پیسوں کو
معاشرے میں استعمال کرتے تو غریبوں کے بچوں کو خوشیان نصیب ہوجاتیں۔عید
الفطر جہاں خوشیوں کا پیغام لاتی ہے اس کے ساتھ عید کے اصل مقاصد معاشرتی
ہم آہنگی،رواداری اور غریب،امیر کے فرق کو ختم کرنا ہے لیکن ہم ان مقاصد کو
بھول جاتے ہیں۔اس وقت وطن عزیز کی حالت ابتر ہوچکی ہے اور غریب،غریب تر
ہوتا جا رہا ہے۔عید ہمارے سماجی فرق کو ختم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ ہمیں
اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ غریب کے بچوں اک بھی خاص خیال رکھنا ہوگا۔جہاں آپ
اپنے پانچ بچوں کے لئے نئے سوٹ،شوز خرید تے ہیں اس کے ساتھ ایک غریب بچے کے
لئے بھی وہی چیزیں خریدکے جائیں جس سے آپ کے بچوں کی بھی خوشی دوبالا ہوگی
اور غریبوں کی دعاوٗں کے بھی مستحق ہونگے۔عید کی خوشی وہ اچھی لگتی ہے جب
معاشرے میں سب انسان برابری کی بنیا دپر خوشیان منا رہے ہوں لیکن صرف اپنے
بچوں کے لئے ہزاروں لاکھوں کی کی شاپنگ ہوجاتی ہے عید کے دن کافی ایسے غریب
بچے نظر آرہے ہوتے ہیں جن کے پھٹے پرانے کپڑے ان کی غریبی کی داستان بیان
کر رہے ہوتے ہیں۔
عیدالفطر پر تمام صاحب نصاب فطر ادا کرتے ہیں جو اس وقت علماء کرام کے
مطابق ڈھائی سے تین کلو گندم،کھجور،چاول یا ایک سو روپے تک فی کس آدمی کے
اوپرفطرانہ واجب ہے۔میرے خیال میں لوگ گندم یا صرف انہی پیسوں پر ہی اکتفا
کر لیتے ہیں اور یہی سمجھتے یں کہ ان کا فرض پورا ہوگیا لیکن بہتر یہ ہے کہ
موجودہ حالات کے مطابق غریبوں کی کفالت کریں جس سے وہ دنیا میں خوشیوں کو
بھی دوبالا کرنے کے ساتھ آخرت میں بھی دگنا ثواب کما سکتے ہیں۔ہاں فطرانہ
ذکواۃ کا ایک جزو ہے پوری ذکواۃ نہیں ہے ہماری سوسائٹی میں کافی لوگ کم
علمی کے باعث فطرانہ کو ہی پوری ذکواۃ سمجھ لیتے ہیں۔ااگر گھر کے پانچ
افراد اپنا فطرانہ ادا کریں تو زیادہ سے زیادہ پانچ سو روپے ہی بنتے ہیں آج
کی مہنگائی دیکھی جائے تو ان پیسوں سے کسی غریب کے گھر کا ایک وقت کا کھانا
بھی نہیں ہو سکتا پھر غریب اپنے بچوں کے کپڑے جوتے کیسے خرید پائے گا۔چند
سال پہلے لوگ ایک دوسرے کو عید کارڈ اور چند اور چیزوں کو عید گفٹ دیتے تھے
جن میں پیار اور محبت زیادہ جھلکتا تھاجو آج بھی کسی نے کسی کے پاس اپرانے
عید کارڈ موجودہوں گے جو اب بھی محبت کی خوشپو اپنے اندر سمائے ہونگے لیکن
اب سائنس و ٹیکنا لوجی نے ان سب چیزوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اب گفٹ دینے کے
لئے سمارٹ فونز اور آئی پیڈ کا انتخاب کیا جاتا ہے لیکن ایک سمارٹ فونز کی
قیمت کم سے کم بھی پندرہ ہزار روپے ہے اگر اتنی قیمت کے کپڑے وغیرہ غریب
بچوں کو دئے جائیں تو بہت سے غریب بچوں کی خوشیوں کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
وطن عزیز کی بد قسمتی یہ ہے کہ غربت،مہنگائی،بیروزگاری اور بدامنی روز بروز
مزید اپنے پنجے گاڑ رہی ہے جس سے نچلا طبقہ تو پہلے ہی متاثر تھا لیکن اب
متوسط طبقہ بھی اس کی وجہ سے کافی متاثرہواہے۔جن لوگوں کے پاس عید کی
خوشیاں منانے کے وسائل ہیں ان کو چاہیے اپنے ارد گرد غریب،نادار اور کچی
آبادی والے لوگوں کا خاص رکھیں اور انہیں اپنی خوشیوں میں شریک کریں۔عید
الفطر محبت،امن،ہم آہنگی اور مساوات کا بہترین ذریعہ ہے بطور مسلمان ہم
معاشرے میں ان تہواروں کے ذریعے مساوات اور ہم آہنگی کو زیادہ سے زیادہ
ترویج دے سکتے ہیں۔ اسلام کے مطابق مومن ایک جسم کی مانند ہیں اس لئے ایک
جسم سمجھ کر مسلمانوں کی مدد کرنا مساوات کا بہترین ذریعہ ہے اور اس سے
غریب مسلمانوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔
منتخب حکومت کو چاہئے اس عید پر غریبوں کو اہم ر یلیف دیں اور ان کے بچوں
کی خوشیوں کو یقینی بنائیں ہاں یہ کام انہی دو دنوں میں بھی ہوسکتا ہے جس
طرح صدارتی انتخاب کو دو دنوں میں کیا جاسکتا ہے اس طرح غریبوں کو عید کی
خوشیاں دینے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر ان کی مدد کی جاسکتی ہے۔تمام لوگوں
سے گزارش ہے اپنے اردگرد ضرور نظر دوڑائیں کافی ایسے غریب ہمارے معاشرے میں
موجود ہیں جو دو وقت کی روٹی کے لئے تنگ ہیں انہیں آپ کی شفقت اور مدد کی
ضرورت ہے۔اپنے غریب ملازمین کا بھی خاص خیال کریں جن کے خاندان نسل در نسل
آپ کی خدمت کر رہے ہیں۔جن علاقوں میں دہشت گردی یا سیلاب نے گھر تباہ کئے
ہیں ان کا آسرا اور سہارا بنیں۔اﷲ تعالیٰ ہم سب کو عید کی خوشیاں عطا
فرمائے۔آمین |