عید الفطر خوشی کادن ہے یہ مبارک
دن اﷲ تعالیٰ کی جانب سے اپنے بندوں کے لیے بہت بڑا انعام ہے اس کی سعادتوں
،برکتوں ،رحمتوں اورفضیلتوں کے بیان سے صفحات بھرے پڑے ہیں مگراس کی حقیقی
سعادتیں ،برکتیں ،رحمتیں اورمسرتیں اسی شخص کوحاصل ہوں گی جس نے رمضان
المبارک کے تقاضے پورے کیے ہوں گے ،رمضان المبارک کی صداؤں پرلبیک
کہاہوگااورجس نے رمضان المقدس کی روشنی سے اپنے دل کے مکان منورکیے ہو ں گے
۔عید الفطرکادن ویسے توسبھی مسلمانوں کے لیے خوشی کاسورج لے کرطلوع ہوتاہے
چاہے انہوں نے رمضان شریف کااحترام کیاہویانہ کیاہولیکن اس عید کے دن سے جو
چاشنی ،لذت اورجیسا ذائقہ روزے دارکشیدکرتے ہیں اورجوخوشیاں اورفرحتیں روزے
داروں کونصیب ہوتی ہیں وہ بے روزداروں کونصیب نہیں ہوتیں اورہوبھی نہیں
سکتیں چونکہ درحقیقت اگرہم غورکریں تواندازہوگاکہ اﷲ عزوجل نے اس دن کوروزے
داروں ہی کے لیے خاص فرمایاہے بے روزے دارتوان کے طفیلی ہوتے ہیں۔بے
روزداروں کے لیے عید کادن اوردیگرایام ایک جیسے ہی ہیں اس لیے وہ
سروراورروحانی تسکین ان کو کیسے میسرآسکتی ہے ۔عید الفطرکے سارے فضائل
اوربرکتیں اپنی جگہ لیکن اس مبارک دن کا سب سے عظیم فلسفہ یہ ہے کہ یہ
امیروں اورغریبوں سبھی کے لیے خوشی کاپیغام لے کرآتاہے۔ یہ ببانگ دہل یہ
اعلان کرتاہے کہ اپنے ساتھ دوسروں کوبھی اپنی خوشی میں شریک کیاجائے ۔اپنے
پڑوسیوں ،رشتے داروں ،خاندان والوں ،غریبوں اورمفلسوں کاخاص خیال رکھاجائے
تبھی صحیح معنوں میں عیدالفطرکی حقیقی خوشی حاصل ہوگی اورعید الفطر کے
تقاضے پورے ہوں گے ۔
مگرافسوس آج ہم عید الفطرکے حقیقی پیغام کوسمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ بڑے
افسوس کے ساتھ کہناپڑتاہے کہ آج ہمارامعاشرہ حساس ،باغیرت اوردردمندافرادسے
خالی ہوتاجارہاہے ۔ایسے افراداب دھیرے دھیرے عنقاہوتے جارہے ہیں جودوسروں
کابھی خاص خیال رکھتے ہوں ۔عام طورسے ہمارے معاشرے میں ہوتایہ ہے کہ لوگ
عید کے دن اپنے گھروالوں اوربیوی بچوں کاتوخوب خیال رکھتے ہیں ان کے لیے
مہنگے سے مہنگے اوراچھے سے اچھے ملبوسات حسب وسعت خرید تے ہیں۔ اس تہوارکے
موقع پربچوں کوہرخواہش پوری کرنے کی ہرممکن کوشش کرتے ہیں اچھے سے اچھے
اوراعلیٰ سے اعلیٰ ماکولات ومشروبات سے شادکام ہوتے ہیں اس تہوارکے موقع
پران کی فیاضی اپنے شباب پرہوتی ہے مگرافسوس ان کے ارد گرد ایسے بے شمارلوگ
مل جائیں گے جوعید کی لذتوں سے محروم رہ جاتے ہیں نہ ان کے پاس کپڑے خریدنے
کے لیے پیسے ہوتے ہیں اورنہ عید کی خوشی حاصل کرنے کے لیے مادی ذرائع ۔ذرامعاشرے
میں جھانک کردیکھے اسی عید کے دن ایک نہیں بہت سارے گھروں پرچولہاتک نہیں
جلتا،اپنے بچوں کوعیدی دینے کے لیے ان کے پاس پیسے تک نہیں ہوتے اس لیے ان
کے بچوں کے چہروں پروہ خوشیاں دیکھنے کونہیں ملتیں جودوسروں کے بچوں کے
چہروں پرنظرآتی ہیں اپنے بچوں کے پھول جیسے چہرے کومرجھایاہوادیکھ کران
لوگوں کے دل پرکیابیتتی ہوگی کیاکبھی اس کابھی تصورکیاہے ؟
آپ اندازہ فرمائیں کہ جب خاص عید کے دن یہ بے چارے غریب بچے آپ کے بچوں
کوہنسی خوشی کھیلتے کودتے،ماحول کوخوشیاں تقسیم کرتے ،اچھے کپڑے پہنے ہوئے
دیکھتے ہونگے توکیاان کواپنی غربت کااحسا س نہیں ہوتاہوگا؟جن بچوں کے پاس
عیدی کے نام پرایک پیسہ بھی نہ ہواچھے کپڑے نہ ہوں اورخواہشات کی تکمیل کے
ذرائع نہ ہو ں توظاہرہے ان کے دل کوٹھیس ضرور پہونچے گی۔ اس لیے ہماری آپ
کی سب کی ذمے داری ہے کہ ہم اپنے ساتھ دوسروں کو بھی اپنی خوشی میں شریک
کریں ،نادار بچوں کو عیدی تقسیم کریں،ان کے گھروں پر سوئیاں اور مٹھائیاں
بھجوائیں، ان کو مبارک باد پیش کریں، ان سے نرمی کا برتاؤ کریں اوران سے
مساوات کارویہ اپنائیں تا کہ ان کو بھی سماج میں اپنے وقار اور عظمت کا
احساس ہو اور وہ اچھے شہری ثابت ہوسکیں اوروہ بھی عیدالفطرکی خوشی میں شامل
ہوجائیں ۔ اگر آپ اپنے معاشرے کی فلاح چاہتے ہیں اس کو ترقی سے ہم کنار
دیکھنا چاہتے ہیں تو اس عید الفطر کے دن سے زیادہ کوئی اچھا موقع فراہم
نہیں ہوسکتا۔دل سے سارے رنج وغم مٹاڈالیے ،محبتیں تقسیم کرناشروع کردیجے،
آج ہی سے اس کار خیر کی شروعات خود سے کیجئے دوسروں کے انتظار میں مت رہیے
اتحاد و اتفاق کا ثبوت دیجئے اور اخوت اور بھائی چارگی کا مظاہر ہ کیجئے
انشاء اﷲ سماج میں صالحیت کاانقلاب برپاہوجائے گا ۔عیدالفطرمیں انفرادی
نہیں اجتماعی خوشیاں منائیے در اصل یہی عید الفطر کا پیغام ہے اور یہی اس
کا تقاضہ بھی ۔
رمضان المبارک کے دن گزار کر یہ مبارک دن بندوں کے لیے اﷲ کا انعام ہے اس
دن روزہ رکھنا حرام قرار دیا گیا ہے اور’’ عید‘‘ کے ساتھ ’’فطر‘‘ کا لاحقہ
لگانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ یہ اﷲ کی نعمتوں سے سیرابی کا دن ہے اس کی
نوازشوں سے محظوظ ہوکراس کاشکریہ اداکرنے کادن ہے۔ ہمارے نوجوان بھائی
عموماً عید کے دن لہو و لعب، خرافات ،ہلٹربازی اور ناچ گانوں میں مشغول
ہوجاتے ہیں جو نہایت ہی بری بات ہے اور گناہ عظیم کا سبب بھی ۔ رواتیوں میں
آیا ہے کہ عید الفطر بخشش کا دن ہے ۔ایک روایت سنیے حضرت وہب بن منبہ
فرماتے ہیں کہ جب بھی عید آتی ہے تو شیطان چلاچلا کر روتا ہے اس کی بد
حواسی اور آہ وزاری دیکھ دیگر شیطان اس کے ارد گرد جمع ہوکر اس کے رونے کا
سبب پوچھتے ہیں تو وہ جواب دیتا ہے کہ افسوس آج کے دن اﷲ نے امت محمدیہ کو
بخش دیاہے۔ لہٰذا تم انہیں لغویات اور خرافات میں مشغول کردو۔ اس سے اندازہ
لگائیے کہ عید الفطر جوحقیقت میں انعام الٰہی ہے اس پر ہم کو شکریہ ادا
کرنا چاہیے اور لہو ولعب سے کوسوں دور رہنا چاہیے۔
عید الفطر کے دن غرباو مساکین کی امداد و تعاون کرنا، بیماروں کی مزاج پرسی
کرنا، دوستوں سے اظہار محبت کرنا، اپنے سے کمتروں اور زیر دستوں کا خیال
کرنا ،بچوں سے شفقت و نرمی سے پیش آنا، بڑوں کی تعظیم کرنا ، نرمی، رواداری
اور بھائی چاری کا رویہ اپنا نا یہ سب ہماری دینی اور اخلاقی ذمے داریاں
ہیں جن سے عہدہ برآہوکرہم اپنا دامن نہیں جھاڑسکتے ۔ عام طور سے مسلمان عید
کی خوشی منانے کے لیے اپنے گھروالوں اور بچوں کے لیے طرح طرح کے سامان خرید
تے ہیں بلاشبہ بچوں اور گھر والوں کو خوش رکھنا کار ثواب ہے مگراکثریہ بھی
مشاہدے میں آیا ہے کہ یہ خرید اری فضول خرچی کے زمرے میں آجاتی ہے اگر ہم
تھوڑی سی کفایت شعاری سے کام لیں اور غریب بچوں کو بھی اپنی اس خریداری میں
شامل کرلیں اوران کو اپنے بچے سمجھ کر ان کے لیے کچھ نہ کچھ خریدلیں تو
یقینا یہ ایک بہت بڑا کار ثواب ہوگایہ ایک عظیم دینی ،سماجی اوراخلاقی ذمے
داری کوپوراکرناہوگا۔ اس کے جونتائج برآمدہوں گے وہ معاشرے میں ایک مثبت
اثرچھوڑیں گے۔ اجتماعی طور پر نہ ہوسکے تو انفرادی طور پر ہی سہی اگر
مسلمان اس سمت کمر ہمت کس لیں تو معاشرے میں یقیناایک عظیم انقلاب برپا کیا
جاسکے گا ۔ |