بذریعہ قرآنِ پاک ڈالر کمانے کی دوڑ

رحیمی صاحب نے بتایا:ـ’’فیس لیکرآن لائن قرآن پاک پڑھانے کاسلسلہ تیزی سے پھیل رہا ہے یہ کام انفرادی اوراجتماعی دونوں طریقوں سے ہورہاہے ، جو قاری آن لائن قرآنِ پاک پڑھانے کا عزم کرتا ہے وہ لیپ ٹاپ یاکمپیوٹرخریدتاہے ،نیٹ کنکشن حاصل کرتاہے ،آئی ڈی بناتاہے ،بینک اکاؤنٹ کھولتاہے متعددذرائع استعمال کرکے شاگردڈھونڈتاہے ،کامیابی مل جائے تو معاملات طے کئے جاتے ہیں اورپھر پڑھانے کمانے کا سلسلہ شروع ہوجاتاہے ،کچھ لوگوں نے آن لائن قرآن پاک پڑھانے کی خدمت سرانجام دینے کیلئے اکیڈمیاں کھول رکھی ہیں ،اکیڈمی کی انتظامیہ اشتہارات اوردیگرذرائع سے طلبہ تلاش کرکے معاملات طے کرتی ہے اورتنخواہ پربھرتی کئے گئے اساتذہ کے سپرد کردیتی ہے، اساتذہ طلبہ کوپڑھاتے جاتے ہیں اور پاؤنڈ ڈالراکیڈمی منتظمین کے اکاؤنٹ میں آتے جاتے ہیں ،یہ اکیڈمیاں ایسے لوگوں کیلئے انتہائی مفیدہیں جو آن لائن قرآن پاک پڑھانے کے فضائل سن کر جلد از جلدیہ پیشہ اختیارکرناچاہتے ہیں لیکن فی الوقت ان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ اپناکمپیوٹر یالیپ ٹاپ خریدسکیں ،یہ لوگ اپنی قابلیت ،تعلق یاسفارش کی بنیادپراکیڈمی جوائن کرلیتے ہیں ،ذہین ،محنتی ،قابل ،ہوشیار، شیریں زبان اوروقت کاپابندشخص تھوڑے ہی وقت میں اس نظام کی باریکیوں کو سمجھ کرباقاعدہ استادبن جاتاہے لہٰذا اب وہ کسی اور کی اکیڈمی میں صرف تنخواہ پرکام کرنے کے بجائے اپنی ذاتی اکیڈمی بنالیناہی بہتر اور مفیدسمجھتاہے یادرہے آن لائن اکیڈمی بنانے کیلئے سندکی ضرورت ہے نہ ہی قابلیت کی کوئی بھی شخص جب چاہے جہاں چاہے اورجیسے چاہے آن لائن اکیڈمی بنااورچلاسکتاہے ویسے تواس وقت اس میدان پر حفاظ اورقراء کاقبضہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کئی سارے ناظرہ خواں بلکہ ناخواندہ بھی کمال سمجھداری سے اندرہی اندراپناکام چلائے ہوئے ہیں۔آن لائن قرآن پاک پڑھانے کاپروفیشن،حفاظ ،قراء اورعلماء کے ایک طبقے میں اتنی تیزی سے کیوں پھیل رہا ہے ؟اس سوال کاجواب پیچیدہ ہے نہ مشکل لیکن نہ جانے کیوں ایسے سیدھے سادھے اورمعصومانہ سوال کاجواب دینے کے اہل حضرات کی اکثریت واضح اوردوٹوک جواب دینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہے ۔‘‘

مفتی صاحب کی محفل میں بیٹھے قراء کے چہروں سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ ان کے اندر کیا تلاطم برپا ہے لہٰذا رحیمی صاحب جونہی ذرا سانس لینے کیلئے رکے تو ایک جدید تعلیم یافتہ قاری صاحب نے اپنی روایتی بیباکی دکھائی اور مخارج کا لحاظ رکھتے ہوئے گویا ہوئے ،’’حضرت! ہم لوگ ایک نیک کام کررہے ہیں ، ہم یورپ امریکہ اورکینیڈامیں اُن بچے بچیوں کوقرآن پاک پڑھاتے ہیں جن کے قرب وجوارمیں یہ سہولت میسرنہیں،اگرہم بھی اپنے دوسرے کاموں میں لگے ر ہیں اپنے وقت اورنیندکی قربانی نہ دیں تووہ لوگ قرآن پاک کی تعلیم سے محروم رہ جائیں گے رہی بات فیس کی توچونکہ ہم اپناوقت صرف کرتے ہیں اپنی رات کی نیندقربان کرتے ہیں لہٰذا فیس وقت اورمشقت کے بدلے میں ہے‘‘ قاری صاحب علم العصر کے ساتھ ساتھ علم الدین کی بھی’’شُد بُد‘‘ رکھتے ہیں انکی تربیت ایک خاص آزادانہ ماحول میں ہوئی ہے جس کی وجہ سے یہ بات اُ ن کے دل میں راسخ ہو چکی ہے کہ ادب آداب کے چکر میں پڑنے والا آدمی حق گوئی سے محروم ہو جاتاہے،مزاج کی اسی انفرادیت کا اظہار کرتے ہوئے بولے ’’حضرت!علماء اورمفتیان کرام نے ہرزمانے میں ہر نئے کام کی مخالفت کی ہے جب لوڈسپیکرآیاتواس وقت انہوں نے کہاتھا یہ حرام ہے اس میں سے شیطان کی آوازآتی ہے لیکن آج لوڈسپیکراورعلماء لازم وملزوم ہیں بعینہ ایک مرتبہ پھرجب جدیدٹیکنالوجی کااستعمال کرکے قرآن پاک پڑھانے جیساعظیم کام شروع ہواہے تونہ جانے کیوں بعض اکابرین کی جانب سے اس کی مخالفت کی جارہی ہے مخالفت کرنے والے یہ نہیں سوچتے اس مہنگائی اوربے روزگاری کے دورمیں ہزاروں قراء اورحفاظ کواگر روزگار مل رہاہے تواس میں حرج ہی کیاہے؟

مفتی صاحب نے بڑے صبر اوربڑی محبت سے نوجوان جذباتی قاری صاحب کی متعلقہ اور غیر متعلقہ تمام باتیں سنیں ان میں کچھ ایسی بھی تھیں جوقابلِ ذکر نہیں ہیں لہٰذا میں مصلحتاً وہ حذف کررہا ہوں،بہرکیف قاری صاحب بول بول کر کچھ ٹھنڈے ہوئے تو مفتی صاحب نے پیار بھرے لہجے میں فرمایا،’’ دیکھو بیٹا!سوال جدید ٹیکنا لوجی کے استعمال کا نہیں ہے،سوال ہے دولت کمانے کیلئے قرآن پاک کے استعمال کا، ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ پیسے کمانے کی نیت اور ارادہ لیکر آن لائن قرآن پاک پڑھانے کا مروجہ طریقہ قرآن پاک کی خدمت نہیں بلکہ درحقیقت یہ ایک بزنس ہے واقفان حقیقت اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں کہ آن لائن قرآن پاک پڑھانے والوں کااصل مقصدڈالرکماناہے آپ ذرا تنہائی میں بیٹھ کر خود سے سوال کر کے دیکھیں کہ آپ جو کچھ کررہے ہیں اس کی بنیاد کیا ہے آپ کے اندر کا مفتی آپ کو صاف صاف بتا دے گا لیکن اگر آپ جان بوجھ کر ناسمجھ بنے رہیں اور اپنے ضمیر کی آواز پربھی کان نہ دھریں تو اس میں قصور کس کا ہے؟ آپ سوچیں جب ایک آدمی لیپ ٹاپ یاکمپیوٹرخریدتاہے بینک جاکراکاؤنٹ کھلواتاہے سٹوڈنٹ قابو کرنے کی تگ ودوکرتاہے تواس کے ذہن میں کیابات ہوتی ہے؟ یہی ناکہ وہ بھی فلاں اور فلاں کی طرح پیسے کمائے ،ممکن ہے چار پانچ فیصدکے ذہن میں ایسی بات نہ ہولیکن پچانوے فیصدکامقصداولین تو دولت کمانا ہی ہے اورچونکہ ان میں کی اکثریت کے پاس دولت کمانے کا آسان ذریعہ قرآن پاک ہے لہٰذایہ قرآن پاک کواستعمال کرکے دن رات دولت سمیٹنے کی کو شش میں لگے ہوئے ہیں یہ کوشش کرتے ہیں کہ یورپ ،امریکہ ،کینیڈااورآسٹریلیاوغیرہ میں ایسے سٹوڈنٹ تلاش کئے جائیں جوزیادہ سے زیادہ فیس ادا کر سکیں اگرصرف اورصرف ڈالرکماناان کامقصدنہ ہوتویہ لوگ افریقہ اورایشیاء کے غریب ممالک کے مسلمان بچے ،بچیوں کی بھی فکرکریں،جنہیں کوئی کلمہ سکھانے والابھی نہیں ہے ان کے پیش نظراگردولت اوردیگردنیاوی فوائدنہیں ہیں تویہ اپنے گلی محلے میں کچھ وقت ان بچے بچیوں کوبھی دیں جوسورۃ فاتحہ پڑھنابھی نہیں جانتے،یہ لوگ تبلیغی جماعت والوں سے ہی سبق سیکھ لیں جو اپنی جیب سے خرچ کرکے پوری دنیا میں دین کا کام کر رہے ہیں،ان کے بھی بیوی بچے ہیں ان کا بھی گھر بار ہے،اصل یہ ہے کہ آپ لوگ دیگر جائز ذرائع سے روزی کمائیں اوربغیر کوئی مادی فائدہ حاصل کئے دوسروں تک دین اور قرآن کی تعلیم پہنچائیں،اﷲ معاف کرے اس وقت تو راوی الٹا بہہ رہا ہے، سستی اور کاہلی کی وجہ سے یا نام نہاد ناک کٹ جانے کا بہانہ بنا کر محنت مزدوری کر کے روزی کمانا ہم ہتک سمجھتے ہیں کیونکہ ہمارے نزدیک بکریاں چرانا،کپڑے سینا،برتن بنانا،ڈھالیں اور زرہیں بنا کر بیچنا تو انبیاء کا کام تھا لیکن یہ چھوٹے چھوٹے کام کرتے ہمیں شرم آتی ہے کیو نکہ نعوذبااﷲ ان کے پاس وقت تھا اور ہم دین کے کام میں اس قدر ڈوبے ہیں کہ ہمارے پاس وقت ہی نہیں،ناس ہو شیطان کا اس نے ہمیں کیسے کیسے چکر دے رکھے ہیں یہاں تک کہ آج ہم نے قرآن پاک پر بھی برائے فروخت کا ٹیگ لگا دیا ہے،ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں عوام کے حلال اور حرام کی تو ہر وقت بڑی فکر رہتی ہے لیکن اپنا معاملہ کہاں پہنچا ہوا ہے اس کو جانتے ہوئے بھی ہم نہ صرف انجان بنے ہوئے ہیں بلکہ اپنے ہر غلط اور ناجائزکے گردبے تکے ،بے بنیاد اورلغو قسم کے دلائل کا حصار بھی قائم کر رکھا ہے، رہی بات لاؤڈسپیکرکی تواُس دورکے علماء حق نے جوکچھ کہاتھا وہ کچھ غلط نہیں تھا آج اُن کا کہاسچ ثابت ہوچکاہے،سارا زمانہ جانتا ہے لاؤڈسپیکرنے مسلمانوں کوتباہ وبربادکردیا ہے آج اگرلاؤڈسپیکرپرپابندی لگ جائے تو سترفیصدفتنے ختم ہوجائیں ، خطباء اورمؤذنین کااخلاص لوٹ آئے، قراء کی تلاوت اور نعت خوانوں کی نعتیں واہ واہ کیلئے نہیں بلکہ اﷲ پاک کی رضاکیلئے ہوں ۔‘‘

’’مفتی صاحب آپ کی یہ بات تو ٹھیک ہے لیکن مساجد اور مدارس میں قرآن پاک پڑھانے والوں کو بھی تو تنخواہ دی جاتی ہے قاری صاحب نے مفتی صاحب کی بات کاٹتے ہو ئے کہا‘‘،مفتی صاحب نے قاری صاحب کی طرف مسکرا کر دیکھا ’’جی بیٹا! مساجداورمدارس میں پڑھانے والے حفاظ اورقراء حضرات کوان کے وقت کے بدلے میں تنخواہ دی جاتی ہے اورمفتیان کرام اس کوجائزکہتے ہیں ،مدارس اور مساجد میں علماء اور قراء کی تنخواہ انتہائی واجبی سی ہوتی ہے اس کے باوجود وہ بہت جوش اور جذبے سے دن رات قرآن پاک کی تعلیم دینے میں لگے رہتے ہیں کیونکہ ان کا مقصداولین قرآن پاک کی خدمت کرنا ہوتا ہے وہ دین کو دنیا پر ترجیح دیتے ہیں وہ آخرت کے نفع پر دنیا کے نفع کو قربان کردیتے ہیں، قرآن پاک کے ذریعے دنیا کمانے کی سوچ سوچنا بھی ہمارے اسلاف کے نزدیک جرم عظیم ہے، جبکہ آن لائن قرآن پاک پڑھانے کا مروجہ سلسلہ تو ہے ہی پیسوں کی خاطر ہے ،اس جدید نظام میں مقصداولین بذریعہ قرآن پاک ڈالرکمانا ہے،اس کے علاوہ آن لائن والوں کی اکثریت چونکہ یورپ اورامریکہ والوں کوپڑھاتی ہے لہٰذایہ لوگ رات کوجاگتے اوردن کوسوتے ہیں اس بے ترتیبی کی وجہ سے ان کے معاملات زندگی تومتاثرہوتے ہی ہیں ساتھ ساتھ نمازیں بھی آگے پیچھے ہوجاتی ہیں ممکن ہے پانچ یادس فیصدکامعاملہ یہ نہ ہولیکن اکثریت کاحال یہی ہے،آن لائن قرآن پاک پڑھانے والوں کی وجہ سے کئی اور نازک مسائل بھی جنم لے رہے ہیں جن کی وجہ سے غیرمسلم ممالک میں بسنے والے مسلمان، حفاظ اور قراء سے متنفرہورہے ہیں،اِن تمام تر افسوسناک معاملات کی وجہ سے سنجیدہ علماء کرام اورعوام پریشان ہیں ، متقی ،پرہیزگاراور قوموں کے عروج و زوال کی وجوہات پرگہری نظررکھنے والے اہل علم حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ آج کے دینداروں کے دلوں میں بھی دنیارچ بس گئی ہے افسوس صدافسوس تقویٰ ،پرہیزگاری اورقناعت جیسی خصوصیات ناپیدہوگئی ہیں،دنیاوالوں کوتقویٰ،پرہیزگاری اورقناعت کادرس دینے والے سب کچھ چھوڑچھاڑکردنیاکمانے میں لگ گئے ہیں ،یہاں تک کہ اب انہوں نے قرآن پاک کو بھی دولت کمانے کے ذریعے کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا ہے ’’ میری امت کافتنہ مال ہے‘‘اور’’دنیامیں ایسے رہوجیسے کوئی اجنبی یامسافر‘‘کی احادیث سنانے والوں کی زبان پر آج دنیا ،دنیا اورہائے دنیا کے الفاظ ہیں ،لیپ ٹاپ،کمپیوٹر،بینک اکاؤنٹ،موٹرسائیکل ،گاڑی، پلاٹ، دولت مند سٹوڈنٹس کی تلاش،ڈالرپونڈ،یورو، یہ سب کچھ قیامت نہیں تواورکیاہے دنیاطلبی اورکس بلاکانام ہے ؟قرآن بیچنااورکسے کہتے ہیں؟ یو ں کہیں کہ گھرکوآگ لگ گئی گھرکے چراغ سے!

میں نے حسبِ وعدہ کالم میں مفتی صاحب اور انکی محفل میں موجود قراء کے نام ذکر نہیں کئے، میرے دوستوں کی فہرست میں علماء اور قراء کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اگر میری یا مفتی صاحب کی کوئی بات آن لائن علماء اور قراء کو ناگوار گزرے یاان کے مشن کیلئے نقصان دہ ثابت ہونے کا اندیشہ ہو تویہ علماء اور قراء میری کھنچائی کرکے اپنا بوجھ ہلکا کر سکتے ہیں، بہر کیف میں نے علمائے حق سے جوسنا، اپنی آنکھوں جودیکھا اورجوسمجھاوہ آپ کے سامنے رکھ دیا،ہردور اور ہر زمانے میں کچھ نہ کچھ نیاہوتاہے وہ نیاصحیح ہے یاغلط اس کی وضاحت کرنااس دورکے اہل علم پرواجب ہوتاہے،امید ہے اکابرین امت دورِ حاضر کے اس اہم معاملے کا تمام پہلووں سے جائزہ لیکر امت کی رہنمائی فرمائیں گے ،ہم علمائے حق کی رہنمائی کے شدت سے منتظرہیں۔
Saeed Nawabi
About the Author: Saeed Nawabi Read More Articles by Saeed Nawabi: 23 Articles with 33111 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.