پالو ہینریکے مچاڈو نے تقریباً اپنی پوری زندگی ہسپتال
میں گزاری ہے۔
ایک نوزائیدہ بچے کے طور پر وہ پولیو کی وجہ سے معذوری کا شکار ہوگئے تھے۔
وہ آج بھی چوبیس گھنٹے سانس لینے کے آلے کی مدد سے سانس لیتے ہیں۔ اس سب کے
باوجود انہوں نے ایک کمپیوٹر انیمیٹر کے طور پر ٹریننگ حاصل کی ہے اور اب
اپنی زندگی پر ایک ٹیلیوژن سیریز بنا رہے ہیں۔
برازیل کے شہری مچاڈو کی پہلی یادیں ویل چیئر پر اس ہسپتال کی سیر کی ہیں
جہاں انہوں نے پیتالیس سال گزارے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میں راہ داریوں میں اوپر نیچے اور دوسرے بچوں کے کمروں
میں گیا اور اس طرح میں نے اپنی کُل کائنات کو دریافت کیا۔‘
|
|
’میرے لیے فٹبال کھیلنا یا عام کھلونوں سے کھیلنا تو ممکن نہیں تھا اور
میرے پاس ایک ہی طریقہ تھا کہ میں اپنی ذہنی صلاحیت کو استعمال کروں۔‘
مچاڈو دو دن کے تھے جب ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔ اس دور میں برازیل میں
آخری مرتبہ پولیو کا مرض بڑے پیمانے پر پھیلا تھا اور نوزائیدہ مچاڈو بھی
اس مرض کا شکار ہوگئے۔
لیژیا مارسیا فزیٹو، مچاڈو کی نرس ہیں اور انہوں نے ساؤ پالو کے اس ہسپتال
میں مچاڈو کو لائے جانے کے چند دن بعد ہی نوکری شروع کی تھی۔
’ان تمام بچوں کو دیکھ کر جو اپنے بستروں میں بے حرکت پڑے ہوتے یا پھر صرف
تھوڑا بہت حرکت کرتے تھے دل اداس ہوجاتا تھا۔‘
سنہ انیس سو ستر میں ان بچوں کی حالت کے حوالے سے ڈاکٹر زیادہ پرامید نہیں
تھے اور انہیں خدشہ تھا کہ یہ زیادہ سے زیادہ صرف دس سال زندہ رہیں گے۔
مچاڈو نے اس وارڈ میں جو دوست بنائے وہی ان کی دنیا بن گئے۔
ان کا کہنا ہے ’میرے علاوہ، ایلیانا، پیڈرینو، اینڈرسن، کلوڈیا، لوسیانا
اور تانیا تھی۔ یہ سب یہاں کافی عرصہ رہے، تقریباً دس سال سے زیادہ۔‘
اپنے بچپن کی معصومیت میں انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ اپنے دوستوں
سے الگ ہوں گے۔ لیکن 1992 تک کچھ بچوں کی طبیعت بگڑنی شروع ہوگئی اور ایک
ایک کر کے ان کے دوست انتقال کر گئے۔
مچاڈو کہتے ہیں کہ ’یہ بہت مشکل وقت تھا۔ ہر دوست کے بچھڑنے پر ایسا محسوس
ہوتا تھا کہ جیسے جسم کا کوئی حصہ کاٹ کر علیحدہ کر دیا گیا ہو۔ اب صرف میں
اور ایلیانا رہ گئے ہیں۔‘
|
|
ڈاکٹر آج تک دوسرے بچوں کے مقابلے میں ان دونوں کی لمبی عمر کے معاملے کو
پوری طرح نہیں سمجھ سکے ہیں۔
مچاڈو اور زاگوئی کے بستر کا رخ ایک دوسرے کی جانب ہے اور وہ روزانہ صبح
اٹھ کر اپنی دوست اور ہمسائی ایلیانا کو دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان
کا رشتہ بہت اہم ہے۔
’بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم میاں بیوی کی طرح ہیں لیکن ہم بہن بھائی کی طرح
ہیں۔‘
’ہر صبح جاگنے کے بعد میرا یہ یقین پختہ ہوتا ہے کہ میری طاقت وہاں ہے
ایلینا میں اور اس کی مجھ میں۔ میں اس پر اعتماد کرتا ہوں اور وہ مجھ پر۔‘
اس کے باوجود دونوں میں تقریباً ہر روز لڑائی ہوتی ہے۔ مچاڈو ہنستے ہوئے
کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں کسی بہن بھائی یا جوڑے میں ایسا ہونا عام بات
ہے۔‘
انفیکشن کے خطرے کی وجہ سے وہ ہسپتال سے زیادہ باہر نہیں جاتے۔ مچاڈو کہتے
ہیں کہ وہ باہر کم جاتے ہیں لیکن جب جاتے ہیں تو وہ یادگار ہوتا ہے۔
مچاڈو کے مطابق وہ آج تک ہسپتال سے صرف پچاس مرتبہ باہر گئے ہیں۔ اس میں
بھی صرف حالیہ سالوں میں وہ زیادہ باہر گئے ہیں جس کی وجہ میڈیکل ٹیکنالوجی
میں ترقی کی وجہ سے کم وزنی آلات اور کم طبی نگرانی کی ضرورت ہے۔ اور اب
عمر کے بڑھنے کے ساتھ مچاڈو اور زاگوئی رسک لینے کو بھی تیار ہیں۔
مچاڈو بتاتے ہیں کہ ’کچھ دورے بہت یادگار ہیں جیسا کہ جب میں بتیس سال کی
عمر میں پہلی مرتبہ ساحل پر گیا تھا۔ میں نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور
سمندر دیکھ کر حیران رہ گیا تھا کہ یہ کیا ہے؟‘
ایلیانا زاگوئی بھی اسی دن پہلی مرتبہ ساحل پر گئی تھیں۔ ’میں نے ساحل صرف
تصویروں اور فلموں میں دیکھا تھا اور لوگوں سے کہانیاں سنی تھی اس لیے ذہن
میں سمندر اور ساحل کا ایک خاکہ بنا لیا تھا۔‘
وہ بتاتی ہیں ہے کہ ’انہوں نے ہمیں گاڑی سے باہر نکالا، پولو ویل چیئر میں
تھا اور میں بستر میں تو وہ میرے بیڈ کو ریت پر لے گئے۔‘
انہیں یاد ہے جب انہوں نے پہلی مرتبہ سمندر کے پانی کو اپنے ہاتھوں سے
محسوس کیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہم ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے لطف اندوز ہوتے
ہیں جنہیں دوسرے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ وہ ہماری طرح حیران نہیں ہوتے۔‘
وارڈ میں زاگوئی اپنا وقت لکھ کر گزارتی ہیں اور ان کا کام چھپ بھی چکا ہے۔
اس کے علاوہ وہ اپنے منہ کی مدد سے پینٹنگ بھی کرتی ہیں۔
|
|
کیوں کہ وہ دونوں کافی عرصے سے اس ہسپتال میں رہ رہے ہیں اس لیے انہیں اپنے
کمرے کو سجانے کی اجازت ہے۔ زاگوئی کی طرف کتابیں اور گڑیا ہیں جبکہ مچاڈو
فلموں کے شوقین ہیں اور ان کی طرف فلموں کا ڈھیر ہے۔ انہوں نے ہسپتال میں
رہ کر کمپیوٹر انیمیشن کی ٹریننگ حاصل کی ہے اس لیے ان کے پاس دو کمپیوٹر
بھی ہیں۔
اس سال مئی میں انہوں نے اپنی تھری ڈی فلم سیریز کے لیے ایک آن لائن مہم کے
ذریعے پینسٹھ ہزار امریکی ڈالر ( چوالیس ہزار برطانوی پاؤنڈ) جمع کر لیے
ہیں۔ فلم کا نام ’دی ایڈوینچرز آف لیکا اینڈ ہر فرینڈز‘ ہوگا اور یہ زاگوئی
کی کتاب پر مبنی ہے۔
مچاڈو اس فلم میں زاگوئی جنہیں لیکا کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے، اور اپنے
دوستوں کے ساتھ زندگی کی کہانی کو دکھانا چاہتے ہیں۔
’میں اسے دلچسپ بنانا چاہتا ہوں، ناصرف رنگوں سے بھری بلکہ ایسی شرارتیں
بھی جو بچے کھیل میں کرتے ہیں۔ میرے خیال میں میرے کردار حقیقی ہیں کیوں کہ
یہ معذور لوگوں پر مبنی ہیں اور مجھے بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کو کس
قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
کارٹونسٹ برونو ساگیس گزشتہ دو سالوں سے اس فلم کے پروجیکٹ پر مچاڈو کی مدد
کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب وہ پہلی مرتبہ مچاڈو کے ڈیزائنز میں ان کی
مدد کرنے ہسپتال آئے تھے تو مچاڈود اور زاگوئی کے کمرے کا پرسکون ماحول
دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔
وہ کہتے ہیں ’آپ ایک ایسے ماحول میں ہیں جہاں مریضوں کی حالت نازک ہے، ان
کے رشتے دار پریشان ہیں، ڈاکٹر اور نرسیں ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں۔ لیکن جب
میں ان کے کمرے میں گیا تو ایسا محسوس ہوا کہ یہ کوئی الگ ہی دنیا ہے۔‘
وہ مچاڈو کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’وہ ہمیشہ لطیفے سناتے ہیں جس سے کام
میں بہت مدد ملتی ہے اور ہماری اکثر باتیں انیمیشن کا حصہ بن جاتی ہیں۔ یہ
حقیقت میں ان ہی کی ایک جھلک ہے۔‘
نرس لیژیا مارسیا فزیٹو کو مچاڈو کے کام پر بہت فخر ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ
’میں بہت خوش ہوں کہ وہ اپنے فلم بنانے کے مقصد میں کامیاب ہو رہے ہیں۔‘ |