سب سے پہلے توعید الفطر کی
ڈھیرساری مبارک باد قبول فرمائیے کہ اﷲ عزوجل نے یہ مبارک دن ہمیں اور آپ
کو نصیب فرمایااوریہ موقع عنایت فرمایا کہ ہم سب لوگ اس کی نعمتوں سے
فیضیاب ہوسکیں اور اسے راضی کرسکیں۔ جب بندہ تیس دن تک لگاتار روزے رکھتا
ہے، روزے کے سارے عملی تقاضے پورے کرتا ہے اوراﷲ کی اطاعت وفرماں برداری
میں پوری پوری کوشش کرتاہے تو اﷲ تعالیٰ تیس دن کے بعد اسے اپنی اس اطاعت
شعاری کا ظاہری بدلہ عیدالفطرکی شکل میں عنایت فرماتا ہے۔اس دن جب اسے
مزدوری ملتی ہے تواس کے صحن میں بے پناہ خوشیاں رقص کرنے لگتی ہیں۔ظاہرہے
کہ جب کوئی بھی شخص خوش ہوتاہے تووہ چاہتاہے کہ کہ اس خوشی میں اپنے دوستوں
اورگھروالوں کوبھی شریک کروں چنانچہ عیدکے دن انعام یامزدوری ملنے کے بعدیہ
بندہ اپنے احباب اوراہل خانہ کے ساتھ اپنی مسرتوں تقسیم کرتاہے۔یہ مزدوری
یاانعام ہرمسلمان کوملتاہے کہ اس لیے اس دن پوری دنیا کے مسلمان خوشی مناتے
ہیں، ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں کم از کم اس دن تو اپنی ساری
پریشانیاں اور غم وآلام بھول ہی جاتے ہیں ۔اگرغورکریں تویہ رمضان بھر کی
ہماری محنتوں کی ظاہری مزدوری ہے یہ ہماری اخروی مزدوری کی ہلکی سی جھلک
اور ادنیٰ سامظہر ہے کہ جس کا اﷲ عزوجل نے ہم سے وعدہ کیا ہے۔ ذراسوچیں کہ
جب عید الفطر کے دن ہماری خوشیوں کی معراج ہوجاتی ہے تو اس وقت ہماری
مسرتیں اور مراتب کس بلندی پر ہوں گے جب ہمیں اس کا حقیقی بدل، حقیقی جزا
اور حقیقی مزدوری دی جائے گی۔یہاں سوال یہ ہے کہ رمضان المبارک کے
فوراًبعدعیدالفطرکی شکل میں بندوں کوتحفہ دینے کی کیاضرورت پیش آئی؟
اﷲ عزوجل نے بندوں کومزدوری دینے میں قطعی دیر نہیں لگائی، اُدھر ان کی ایک
مہینے کی تربیت کے مراحل ختم ہوئے، ڈیوٹی پوری ہوئی اور اِدھر عید الفطر،
انعام یایوں کہیے کہ مزدوری کی شکل میں ہمارے ذہن وفکر پر مسرتوں کا نغمہ
گانے لگی۔ اس میں اگرغورکیاجائے تویہ پیغام بھی پوشیدہ ہے کہ مزدوری دینے
میں قطعاً دیر نہیں کرنا چاہیے۔ ایک حدیث شریف میں تو یہاں تک ہے کہ
مزدوروں کی مزدوری ان کا پسینہ سوکھنے سے پہلے ہی دے دو۔ عید الفطر کو
رمضان المبارک کے اختتام کے فورا بعد رکھنے میں غالباًیہی حکمت کارفرما ہے
کہ بندوں کو بدلہ دینے میں بالکل بھی دیر نہ کی جائے ۔یہ تواس کی ظاہری
جزایامزدوری ہے مگر خدا کے یہاں اس کی جو جزا ہے وہ ہمارے ذہن وفکر سے
ماورا ہے نہ ہم اسے قلم بند کرسکتے ہیں اور نہ ہی ہماری سوچیں اس کا ادراک
کرسکتی ہیں۔
یہ بھی یادرکھنے کی چیز ہے کہ یہ عظیم المرتبت خوشی کا موقع اﷲ نے ہمیں صرف
بدلہ دینے ،مزدوری تقسیم کرنے یا ان کی محنتوں کا صلہ دینے کے لیے نہیں
عنایت فرمایا بلکہ اس کے اندر بے پناہ حکمتیں بھی پنہاں ہیں ۔عید سعید کی
بے شمار مصالح اورمقاصد ہیں جوانفرادی اوراجتماعی طورپرسب کی تربیت اورذہن
سازی کرکے ایک خوش حال معاشرے کی تشکیل کرناچاہتے ہیں۔ چوں کہ یہ خوشی کا
دن ہوتاہے ساری دنیا کے مسلمان مشترکہ طور پر اپنے اپنے انداز،طورطریقوں
اور اپنی اپنی تہذیب کے مطابق اظہار ِمسرت کرتے ہیں اور اس مسرت کے موقع
پربہت سارے ایسے کام بھی ہوجاتے ہیں کہ جو صرف اہلِ ثروت کرسکتے ہیں لیکن
بے چارے جو لوگ دولت مند نہیں ہیں وہ صرف اشکوں اور حسرتوں کے بیچ گھٹ کر
رہ جاتے ہیں ۔اظہارِمسرت کے عنوان سے ان کی وہ خواہشات پوری نہیں ہوتیں کہ
جن کے وہ بھی مستحق ہیں اسی لیے اﷲ عزوجل بندوں سے خوشیوں اورمسرتوں کے
درمیان توازن واعتدال کا حکم دیتا ہے یعنی ایسا نہ ہو کہ مالدار تو اس دن
خوب خوشی منائیں ان کے بچے نئے نئے کپڑے پہنیں ان کے گھروں پر مختلف النوع
میٹھے میٹھے پکوان پکیں مگر بے چارہ غریب مادی آسائش کی عدم فراہمی کی وجہ
سے نہ اپنے بچوں کی خواہش پوری کرسکے ، نہ انہیں اچھے کپڑوں اوراچھے کھانوں
سے ان کی خوشیوں کودوبالاکرسکے اور نہ عید ی دے کر اپنے بچوں کے چہروں پر
خوشیوں کا غازہ مل سکے۔اگرایساہوا تو اس کواس دن بہت زیادہ احساسِ محروی
ہوگا اسے اس کا احساس ِغربت آنکھوں کو نم کردے گا۔ہمارے معاشرے میں افراط
وتفریط کے یہ مظاہرہرجگہ عا م ہیں جومسلم بستیوں میں چندچندقدم کے فاصلے
پردیکھے جاسکتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے اسی بحران کے خاتمے کے لیے مالداروں پر
خاص طور پر یہ ذمے داری عائد کی ہے وہ اپنی خوشیوں میں غریبوں کو بالضرور
شریک کریں، روٹھے ہوؤں کو منائیں، کم درجہ لوگوں کو گلے لگائیں، بچوں سے
پیار کریں، بڑوں سے تعظیم واکرام سے پیش آئیں اورخاص طورپرافلاس کے ماروں
کوڈھونڈڈھونڈگلے گلے لگائیں تاکہ کم ازکم ا س دن تویہ لوگ پیارکے دوبو ل سن
سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس دن صاحبِ نصاب مسلمانوں کوکچھ متعینہ فطرہ ادا کرنے
کا حکم دیاگیا ہے اور اتنی سختی سے یہ حکم دیاگیا ہے کہ حدیث شریف میں ہے
کہ روزہ زمین وآسمان کے درمیان معلق رہتا ہے جب تک کہ صدقۂ فطر ادا نہ کیا
جائے۔ اس سے جہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ صدقۂ فطر کی کتنی اہمیت ہے وہاں اس
بات کی بھی تعلیم دینا مقصو دہے کہ غریب وافلاس کے ماروں کو گلے لگائے بغیر
نہ آپ کی مسرتوں کی کوئی حیثیت ہے اور نہ آپ کے روزوں کی۔اﷲ تعالیٰ ان کے
بغیرنہ آپ کی مسرت کومسرت سمجھتاہے اورنہ آپ کی عبادتوں کوعبادت۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اﷲ عزوجل نے ہر جگہ اورہر حکم میں اعتدال
وتوازن کوکیوں برقرار رکھا ہے۔ ایسا کہیں بھی نہیں ہے کہ ایک طرف تو ایک
انتہا ہے اور د وسری طرف دوسری انتہا۔ اس سے معاشرہ بحران کاشکار ہوجاتا ہے
اور اس کی تعمیری وترقیاتی صلاحیتیں کند پڑ جاتی ہیں۔ عید الفطر کے پسِ پشت
کا ر فرما مقاصد ومصالح اورفلسفے کے مطالعے کے بعد یہ کہنا بجا ہے کہ ہماری
خوشیاں اور مسرتیں اﷲ عزوجل کے نزدیک اسی وقت مقبول ہوں گی جب ہم غریبوں کو
گلے لگائیں گے اور ہمیں ہماری مزدوری کا حقیقی مزہ اسی وقت ملے گا جب ہم
اپنی اپنی استطاعت کے مطابق غریبوں پر خیرات وصدقات وعطیات کرکے ان کوبھی
خوش کریں گے اوراپنے مولیٰ کوبھی راضی کریں گے۔
رمضان المبارک میں پورے تیس دنوں تک روزے رکھ کر ہم جتنی بے قراری اور بے
چینی سے عید الفطر کا انتظار کرتے ہیں بلفظ دیگر یوں کہیے کہ اپنی مزدوری
پانے کی خوشی میں ان مسرت آگیں لمحات تک کتنی جلد پہنچ جانا چاہتے ہیں
الفاظ کے پیمانے میں اسے قم بندنہیں کیاجاسکتا۔ رمضان المبارک کی بہاروں سے
لطف اندوز ہونے والے امیر بھی ہوتے ہیں اور غریب بھی۔ اﷲ کی طرف سے اس
مبارک دن میں ہم سب کو مشترکہ طور پر مزدوری یا انعام دیا جاتا ہے
مگرغریبوں اورناداروں پراس نے اس مبارک ومسعودموقع پرایک فضل اورفرمایاکہ
مالدار مسلمانوں کے اموال میں غریب بھائیوں کے لیے ایک متعینہ حصہ
مقررکردیا تاکہ یہ اسے پاکر یہ بے چارے غریب بندے روحانی خوشیوں کے ساتھ
ساتھ مادی اور دنیاوی مسرتوں سے بھی ہم آغوش ہوسکیں۔
عید الفطر کو محض رسم ورواج کا مجموعہ نہ بنائیں ۔یہ ہم سب کی مشترکہ دینی
وملی ِذمے داری ہے کہ اسے رسمیات کے پنجرے میں قیدہونے سے بچائیں ، اس کو
حقیقی اور معنیاتی طور پرسمجھ کراس کے پیغام کو عمل کی صورت میں فروغ
واستحکام بخشیں اوراﷲ کی اواز پر لبیک کہیں تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا
پڑوسی، رشتے دار، عزیز دوست کو تو خوشیاں نصیب نہ ہوسکیں اور ہم چمنِ مسرت
کی خوب خوب گل ریزی کریں۔ یقین جانیے ہم ان کی دل شکنی کرکے خدا کو راضی
نہیں کرسکتے۔ آئیے عہد کریں کہ ہم اس مبارک دن میں خوشیاں تقسیم کرنے میں
کوئی تفریق روانہ رکھیں گے ہمارا دستِ شفقت امیر وغریب سارے بچوں پر برابر
برابر پہنچے گا ۔ہم پوری کوشش کریں گے کہ اس دن کوئی غریب غم گین نہ رہے،
کوئی بھوکانہ سوئے اورکوئی بھی خوشیوں سے محروم نہ رہے تو کیا آپ اس کے لیے
تیار ہیں؟ |