خبر ہے کہ میاں چنوں کے نواحی گاؤں117ایل
کے رہائشی عاشق کے بچوں نے عید کے لیے نئے کپڑے مانگے تو اس کے پاس پیسے نہ
تھے ہزار کوششوں کے باوجود جب وہ ان کی فرمائش کو پورا نہ کر پایا تو
دلبرداشتہ ہو کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔عاشق نے تو اپنی زندگی کے غموں
سے نجات پا لی لیکن اپنے بچوں کو اایسے بے رحم معاشرے کی نذر رہنے دیا جو
نہ ہی کبھی غریبوں کے غم کا مداوا کر پائے نہ ہی وہ کرناچاہتے ہیں، عاشق
زندہ رہتا تو شاید آنے والا وقت ان کے لیے خوشیوں لا سکتا تھا مگر اب تمام
خواب ادھورے رہ گئے ٹوٹ گئے تمام سپنے اب کیا ہو گا عاشق کی بیوی دربدرکی
ٹھوکریں کھائے گی گھروں میں برتن مانجھے گی، بچوں کے خواب پورے کرنے کے لیے
دن رات ایک کر دے گی لیکن نہیں۔۔۔۔۔ یہ معاشرہ اسے نہیں جینے دے گانہ ہی اس
کے بچوں کو۔۔۔۔قارئین کرام اس خبر کو پڑھ کر انتہائی افسردہ ہوں ہمارے ہاں
ایسی خبریں روز اخبار کی زینت بنتی ہیں جس میں کوئی محبت کوئی معاشرہ کے
ستم سے تنگ آ کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتاہے، لیکن کپڑے نہ ہونے ،آٹا نہ
ہونے پر خودکشی کرنا بہت افسوس ناک امر ہے، ہم اتنے بے حس ہوگئے کہ ہمارے
پڑوس میں رہنے والے غریب بچے بھوکے پیٹ سوتے ہیں، جہاں مائیں اپنے بچوں کو
بہلانے کے لیے پتیلے میں پانی ڈال کر دن رات ہلاتی ہیں ، پڑوس میں رہنے
والے چوہدری،راجہ اور وڈیرے کے بچوں کو دیکھ کر کڑُھتی ہیں۔ افسوس صد افسوس
۔۔۔دل خون کے آنسو روتا ہے ۔۔۔۔ہم اتنے بے رحم کیوں ہو گئے؟ہم اس نبی کے
امتی ہیں جو خود تو بھوکے رہتے لیکن دوسروں کو کھلاتے تھے،انسانوں کی خدمت
کرتے،پیٹ پر پتھر بندھ کر دوسروں میں کھاناتقسیم کرتے ہم اسی نبی کے امتی
ہیں نا۔۔۔۔۔اﷲ اﷲ ۔۔۔۔آقا دو جہاں حضرت محمدﷺ نے فرمایا ’’مومن ایک جسم کی
مانند ہیں جسم کے ایک حصے پر تکلیف ہو تو درد پورا جسم محسوس کرتا ہے ‘‘
کیا میں نے اور آپ نے عاشق کا درد محسوس کیا؟؟ کتنے عاشق روز گلے میں پھندا
ڈال کر ،چھتوں سے کود کرجانیں دیتے ہیں درد محسوس کیا؟؟ارے ہمیں فرست ہی
کہاں ہے اپنے بچوں کے لیے عید کی خریداری جو ہو رہی ہے ۔۔فلاں چیز نہ لی تو
بچے ناراض نہ ہوجائیں اسی ڈر سے مہنگی سے مہنگی چیز لینے سے بھی دریغ نہیں
کرتے،لیکن ایک لمحے کے لیے رک کرغریب کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کر معلوم ہی
کر لیں ارے آج کچھ کھایا یا نہیں؟اﷲ رحم کرے ہمارے حالت پر ۔۔۔ہم اتنے بے
رحم ہو گئے یقین نہیں آتا۔۔۔۔
کبھی کسی یتیم کے سر پر دست شفقت فرمایا ہم نے ؟؟جس کے بارے میں اﷲ رب
العزت قرآن میں فرماتا ہے’’ماں باپ اور قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں
اور رشتہ دار ہمسایوں اور اجنبی ہمسایوں اور رفقائے پہلو اور مسافروں جو
لوگ تمہارے زیردست ہوں سب کے ساتھ احسان کرو‘‘ہم یتیموں ،مسکینوں سے تو دور
رشتہ داروں سے بھی دور بھاگتے ہیں۔
مسند احمد میں ہے ’’سیدنا جعفر کی شہادت کے بعد نبی کریمﷺ آل جعفر کے پاس
تشریف لائے تو فرمایاــ۔’’آج کے بعد میرے بھائی کو نہ رونا اور میرے دونوں
بھتیجوں کو بلاؤ‘‘عبد اﷲ بن جعفرؓ بیان کرتے ہیں جب ہم آپ ﷺ کی خدمت میں
حاضر کیے گئے تو بہت چھوٹے تھے،آپﷺ نے فرمایا حجام کو بلاؤ حجام نے آ کر
ہمارے سر مونڈ دئیے پھر آپﷺ فرمانے لگے محمدؓ تو بالکل ہمارے چچا ابو طالب
کا ہم شکل ہے اور عبد اﷲ ؓ شکل اور اخلاق میں مجھ سے ملتا جلتا ہیــ،پھر
میرا ہاتھ بلند کر کے دعا فرمائی اے اﷲ خاندان جعفر کا والی بن جا عبداﷲ کے
ہاتھ کی کمائی میں برکت ڈال دے ٌ(یہ دعا تین بار فرمائی)پھرآپﷺ میری والدہ
سے فرمانے لگے تمہیں ان کی تنگ دستی کا فکر کیوں ہے؟میں خود دنیا اور آخرت
میں ان کا سرپرست ہوں‘‘
اﷲ اﷲ۔۔۔ یہ تھے میرے بنیﷺ کا یتیموں سے محبت میرے آقا دو جہاں نے جو
فرمایا پہلے اس پر عمل کر کے دیکھایا۔ ان کا عمل میرے لیے سنت ہے اﷲ نے
یتیم کے ساتھ ناانصافی کرنے والے کے سخت وعید اور اس سے محبت کرنے والے سے
جنت کا وعدہ فرمایا،لیکن ہم جنت کے نام سے محبت کرتے ہیں ،اس کے حصول کے
لیے تگ دو نہیں کرتے۔
بیوہ کے حوالے سے بخاری میں حدیث پاکﷺ ہے’’ بیوہ اور مسکین کے لیے دوڑ دھوپ
کرنے والا اور ان کی خدمت کرنے والا ایسا ہے،جیسا کہ اﷲ کے راستے میں جہاد
کرنے والا،جیسا وہ نمازی جو نماز سے نہیں تھکتا اور جیسا وہ روزہ دار جو
کبھی روزہ سے ناغہ نہیں کرتا۔۔۔
ہم نے تو قرآن و حدیث کو پسے پشت ڈال دیا ہے یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں ذلت
ہمارا مقدربن گئی ہم پستی کی جانب گامزن ہیں غلام اقوام میں ہمار ا شمار
ہوتا ہے،مولی گاجر کی طرح ہمیں کاٹا جا رہا ہے ۔ مغرب جو چیز چھوڑ دے ہم
اُسے اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں ،وہ تواولڈ ہاوس بند کرنے پر مجبورلیکن
ہمارے ہاں ان کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے،جہان زنا کو قانونی شکل دینے کی
باتیں ہوتی تھی وہ آج سر جوڑے بیٹھے ہی گندے فعل کی روک تھام کے لیے قانونی
سازیاں ہو رہی ہیں ۔وہ تو مجبور ہو گئے کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے عمل کو
اپنی زندگیوں میں لاگو کرنے پر ،حضرت عمر فاروق ؓ کے نافذ کردہ قانون کو آج
انہی نے ’’عمر لاء‘‘ کے نام سے نافذ کیا ہے ۔۔۔اﷲ اﷲ۔۔۔ہم قرآن کے بتائے
ہوئے اصولوں سے کیوں انحراف کر رہے ہیں؟خدا کی قسم اگر آج قرآن و حدیث
ہمارے زندگیوں کا حصہ ہوتی تو کوئی انسان بھوکا نہ مرتا کوئی خود کشی نہ
ہوتی ۔خداراواپس پلٹ آئیں کہیں مزیددیر نہ ہو جائے اس وقت سے پہلے کہ مٹی
سپرد ہو جائیں۔۔۔تھام لو قرآن کو انشاء اﷲ بلندیاں پاؤ گے ۔
عید الفطر کے پرُمسرت لمحات ایک بار پھر ہماری زندگی میں آئے ہیں ان لمحات
میں اپنے رشتے داروں،مسکینوں،مفلسوں،یتیموں اور بیواؤں کو نہ بھولیے گا،ان
سے دعائیں لیجیے۔۔۔۔مفہوم حدیثﷺ ہے جو خود پسند کرتے ہووہی دوسروں کے لیے
پسند کرو۔ان لوگوں سے دردمندانہ اپیل کرتا ہوں جو اپنے والدین سے ناراض ہیں
جا کر ان کے قدموں میں گر جاؤں اﷲ کے حضور اور ماں باپ سے معافی مانگوں
انشاء اﷲ فلاح پا جاؤگے۔ |