’’بھائی رشوت لینااور دینا حرام ہے۔ہمارے
آقاء نامدار حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم نے رشوت لینے اور دینے والے
دونوں کو جہنمی قراردیا ہے ۔ویسے بھی رشوت جیسے مذموم دھندے کی مذمت اسلام
کے علاوہ دیگر ادیان میں بھی شدت سے پائی جاتی ہے ۔اس کے علاوہ ترقی یافتہ
ممالک اورہنستے مسکراتے معاشروں میں بھی اس برے کام کی ہمیشہ حوصلہ شکنی کی
جاتی ہے اور اس میں ملوث افراد کوپورے معاشرے میں نہ صرف گھٹیا نگاہ سے
دیکھا جاتاہے بلکہ انہیں معاشرے کے لیے زہر قاتل تصور کیا جاتاہے ۔دنیا کے
ترقی یافتہ ممالک کی کامیابی کاراز ہو یامہذب قوموں کی ہمہ گیر شہرت ،رعب
اور دبدبے کا پرچار ،دنیا کی بہترین عدالتیں ہوں یا امن وانصاف فراہم کرنے
والا دنیا کا تیز ترین سیکورٹی سسٹم اورخفیہ اداروں کا بچھایا ہوا جال
ہو،تعلیمی اداروں کی بڑھتی ہوئی ترقی کا گراف ہو یا معاشرے میں بسنے والے
ہرفرد کی دیکھ بھال اور انہیں سہولیات زندگی فراہم کرنے والے اداروں کا نام
ونشان ہو،جمہوری ممالک میں جمہوریت کی کامیابی ہو یا کرپشن فری ریاستوں کا
خواب ہو،خوب سیرت ،ملنسار ،ہمدرد اورمشکل وقت میں ایک دوسرے کے کام آنے
والے لوگ ہوں یا قوم کے لیے جان قربان کردینے والی بہادرافواج ہوں،ملک وملت
کی پاسبانی وراہبری کرنے والے قائدین ہوں یا قوم کے لیے معمار تیار کرنے
والے اساتذہ ہوں ہر جگہ ، ہرچیز اور ہرمعاشرے میں ر شوت کی بو تک برداشت
نہیں کی جاتی چہ جائیکہ کھلے عام رشوت کے لین دین کوسپوٹ کیا جائے اور اسے
زندگی کے لیے لازمی جز تصورکیا جائے ۔‘‘
’’عبدالرحمن تم سمجھداراہو،تعلیم یافتہ ہو،دینداراور حافظ قرآن ہوتمہیں یہ
کام بالکل بھی زیب نہیں دیتا تھا ۔کاش کہ تم یہ گناہ کرنے سے قبل کچھ سوچ
لیتے اور کسی اچھے آدمی سے مشورہ کرلیتے اور’’ اسے‘‘ اس کام سے روک دیتے
توآج تم گناہ میں معاونت کرنے سے تو بچ جاتے اور اﷲ عزوجل کے فرمان پاک کی
بجاآوری بھی ہوجاتی کہ ’’تم نیکی اور تقوی ٰمیں تعاون کرو گناہ اور سرکشی
میں تعاون نہ کرواور اﷲ سے ڈرو،بیشک اﷲ سخت سزادینے والے ہیں‘‘۔’’مولانا
صاحب!آپ کو تو سب پتہ ہے میری حالت اور ہمارے گھر کی حالت کا،والدمحترم نے
سولہ سال تک کمر پر بوجھ لاد کر مجھ نکمے کو کچھ پڑھنے لکھنے کے قابل
بنایا۔آج میں اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے باہر کی یونیورسیٹیوں میں پڑھنا
چاہتا ہوں تو میرا راستہ روکنے کے لیے ہر جگہ کوہ ہمالیہ کھڑا کردیا جاتاہے
جسے سرکرنا رشوت کے بغیر محال اورخواب ہی ہے ۔آپ دیکھیں نا! کہ ڈومیسائل،ب
فارم سے لے کر پاسپورٹ بنوانے تک کتنی اذیتیں مجھے جھیلنی پڑی ہیں،کوئی
پراسس بھی پیسوں کے بنا کمپلیٹ نہیں ہوا ،صرف ایک ڈومیسائل میں ہزار روپیے
رشوت کی نظرکیے ،پاسپورٹ میں بھی ادھرادھر کے دھکے کھانے سے بچنے کے لیے
نوسو روپیے سے کارندوں کی جیب گرم کرنی پڑی ۔متعلقہ تھانے سے کریکٹر
سرٹیفیکٹ کی تصدیق کے لیے اہلکار کے پیٹ کی آگ سور وپیے سے بجھانا پڑی۔اب
تک ایک درجن کے قریب ڈاکومنٹس میں سے چار کے لیے ڈھائی ہزار سے زائد روپیے
رشوت کی نذر ہوگئے ہیں باقیوں کے لیے اس سے زائد رقم کا مطالبہ کیا جارہاہے
جس کی سکت مجھ غریب میں بالکل نہیں ہے ۔بس اﷲ عزوجل ہی اس کی سکت دے سکتے
ہیں ورنہ مخلوق کی چھریوں کے وار سے سینہ پہلے ہی بہت چھلنی ہوگیاہے
۔’’مولانا صاحب ! یہ پاکستا ن ہے ہم غریبوں کے تعلقات حکام بالا تک ہیں ،نہ
ہماری وہاں کوئی شنوائی ہوتی ہے، لے دے کے کام اپنے خون پسینے کی کمائی سے
چلانا پڑتاہے اگر اس کا سہارا بھی نہ لیں توآپ بتائیں ہم کہاں جائیں کس کا
درکھٹکھٹائیں کس سے فریاد طلب کریں؟۔
میرا دوست عبدالرحمن اپنی حالت زار، ہمارے مقتدراداروں کے سخت رویوں اور
حکام اعلیٰ کی ناانصافیوں کی داستان سنانے اور جواباًمیری باتیں سننے کے
بعد پھوٹ پھوٹ کر رونے لگگیا ۔عبدالرحمن کا تعلق غریب گھرانے سے ہے ۔اس کے
والد مزدور ی کے ذریعہ بال بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔انہوں نے عبدالرحمن کو
خون پسینہ کی کمائی سے ایم اے کروایا ۔ایم اے کے بعد عبدالرحمن سکالرشپ کے
ذریعہ بیرون ملک پی ایچ ڈی کے لیے جاناچاہتاہے ۔لیکن اس کے پاس بنیادی
ڈاکومنٹ کے حصول کے لیے اتنے پیسے نہیں کہ جس سے وہ اپنی سکالر شپ کو محفوظ
رکھ سکے اور اعلی ٰتعلیم کے حصول کے بعد ملک وملت کے لیے کوئی کارنامہ
سرانجام دے سکے ۔اوپرسے ہمارے حکمرانوں کی غفلت ،نااہلی اور اپنی قوم،وطن
اورمنصب سے بغاوت انتہاء کو چھورہی ہے جس کی وجہ سے عبدالرحمن جیسے غریب
لوگوں کو بھی خون پسینہ کی کمائی رشوت کی نذر کرناپڑتی ہے ۔رشوت ایک لعنت
ہے جس میں معاشرے کے اکثر لوگ بری طرح دھنسے ہوئے ہیں۔عوام الناس سے لے کر
حکام اعلیٰ تک تقریبا ہر فرد کسی نہ کسی طرح اس مرض میں مبتلانظرآتاہے ۔سب
سے زیادہ اس مرض میں ہمارے قومی ادارے ملوث نظرآتے ہیں۔تھانے
،کچہریاں،عدالتیں،تعلیمی ادارے اور دیگر سرکاری ادارے اس میں پیش پیش
ہیں۔آپ ملک کے اطراف میں پھیلے ہوئے تھانوں کاکچھ دیر کے لیے وزٹ کرکے دیکھ
لیں ،کچہری اور عدالت کا ایک راؤنڈلگالیں،تعلیمی اداروں میں ایک دورہ
کرآئیں آپ کو ساری صورتحال کا اندازہ ہوجائے گا۔رشوت ،غفلت ،کام چوری
،بداخلاقی کے المناک مناظر آپ کو جگہ جگہ دیکھنے کو ملیں گے ۔
صرف محکمہ پولیس کواٹھاکر دیکھ لیں۔ہمارے معاشرے میں پولیس کانام ایک گالی
بن چکاہے ۔سرکاری اداروں میں بدنام ترین اداروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر
اس محکمہ کا نام آتاہے ۔رشوت ستانی کی رسم بد میں سب سے موثر اور عملی
کردار بھی اسی محکمے کے اہلکاروں کا نظرآتا ہے ۔مبالغہ آرائی ،الزام تراشی
اورکردار کشی سے ہٹ کرحقائق تو یہی ہیں کہ عام آدمی کو تھانہ کلچر
،کچہریاں،عدالتیں سالہاسال ذلیل وخوارکرتی ہیں،کنگال اور مفلسی کی حدوں کو
پہنچادیتی ہیں۔دوسری طرف وقت کے حکمرانوں کے دعوے پالیسیاں صرف دوچار
میٹنگوں،اور چندایک اخباری بیانات تک محدود ہوتے ہیں۔جس سے اداروں کی
بنیادوں کو چاٹنے کے لیے دیمک کی راہ ہموار ہوتی ہے ۔عوام کو دعووں اور
بیانات سے ہرگز سروکار نہیں ہوتا،انہیں تو ضرورت کے وقت فوری انصاف اور
بلامعاوضہ مدد کی ضرورت ہوتی ہے ۔یہ ادارے کسی کی جاگیرنہیں یہ قوم کا ورثہ
ہیں ۔ان کی بنیادوں میں پاکستان کے لیے قربانی دینے والوں کاخون شامل ہے
۔اٹھارہ کرو ڑ عوام کے خون پسینے سے ان اداروں کی سانسیں چلتی ہیں۔ریاست کا
مقصد صرف حکمرانی کرنانہیں ہوتابلکہ عوام کو سستا انصاف اور ضروریات
مہیاکرناہوتاہے ۔اگر عوام کوبنیادی حقوق اور فوری انصاف کے لیے اپنی
زندگیاں لٹانی پڑیں،دھکے کھانے پڑیں ،رشوتیں دینی پڑیں،سیلاب ،ڈرون حملے
،خودکش دھماکے،مہنگائی کے بڑھتے ہوئے طوفان اور لوڈشیڈنگ کے تھپیڑے جھیلنے
پڑیں توایسی ریاست کے لیے کوئی بھی شخص اپنی جان مال قربان کرنے پر کبھی
تیارہوگا،نہ کبھی اس کے حق میں کوئی مثبت سوچ اور فکررکھے گا۔بلکہ وہ ہمیشہ
انتقام کی آگ میں پکتارہے گا۔
اس سے پہلے کہ انتقام کی آگ قبائلی علاقوں اور بلوچستان کی سرحدوں سے نکل
کر پورے ملک کو جلاکرخاکستر کردے ہمیں اپنا محاسبہ کرناہوگا۔بالخصوص عوام
کی قسمتوں کے فیصلے کرنے والے سیاستدانوں ،حکمرانوں ،سرکاری اہلکاروں کو
اپنے منصب سے ایمانداری کاعہدکرتے ہوئے ریاست کے مفادات اور عوام کے حقوق
کے بارے میں سوچناہوگا۔ معاشرے کی دیواروں کوچاٹنے والی دیمک کے خاتمے کے
لیے رشوت جیسے مکروہ دھندے کا سدباب کرنا ہوگا۔اس کے لیے پہل حکام اعلی
ٰکوکرنا پڑی گی ۔کیوں کہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ برائی نیچے سے نہیں پھیلتی
بلکہ اس کا اثر اوپر سے آتاہے ۔بیٹااپنے والدین کے غلط چال چلن کی وجہ سے
بدچلن ہوتاہے ،شاگرد غافل استاد کی وجہ سے غفلت کرتاہے ،سرکاری اہلکارحکام
اعلی ٰکی وجہ سے کام چوری ،غفلت اور رشوت ستانی جیسے مکروہ کاروبارمیں ملوث
ہوتے ہیں۔لہذا ہر اعلی ٰکو اپنے سے کمتر کے مقابلہ میں پہل کرناہوگی اور
خود بڑھ کر رشوت اور دیگر تمام معاشرتی برائیوں کے ازالے کے لیے جدوجہد اور
جہاد کرنا ہوگا۔اس کام کے لیے نہایت موزوں ترتیب حکومت وقت کے ارکان
بناسکتے ہیں۔کیوں کہ یہ ارکان پوری قوم کے نمائندے ہیں،قوم اپنے نمائندوں
کے قول وفعل کو جلد ایکسپٹ کرتی ہے ۔ نشاط کے ساتھ ملک وملت کی ترقی کے لیے
ہاتھ بٹاتی ہے ،بہادری اور جوانمردی کے ساتھ افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی
ہے ۔ہماری حکمرانوں سے یہی التجا ء ہے کہ باہم چپقلشوں کو بھلاکر ایک دوسرے
پر منافق ،یہودی ایجنٹ اور امریکی وفادار کے لیبل لگانے والے دوہرے رویے
کوچھوڑ دیجیے اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے اجتناب کریں تاکہ مظالم
کا شکار عوام سکھ کا سانس لے سکے اورمسائل سے چھٹکارا حاصل کرسکے
۔خدار!اپنے منصب کی قدر کریں،امت کی فکرکریں،ملک کی ترقی کے لیے اپناعملی
کردار ادا کریں اور عبدالرحمن جیسے غریب لوگوں کا ہرمشکل وقت میں تعاون
کریں۔کیوں کہ ہماری فلاح اور ہماری اور ہمارے ملک کی بقاء کا راز اسی میں
مضمر ہے ۔ |