اس کی عمر بمشکل دس گیارہ سال ہو گی۔ ہنستی
کھیلتی ، کودتی محلے میں ہر طرف بھاگی پھرتی تھی۔ اس کا باپ ایک مزدور ہے
اور میرا ہمسایہ، میرے گھر کے پچھواڑے میں کسی شخص کا پلاٹ ہے جس پر ایک
چھوٹا سا کمرہ بنا ہوا ہے۔ پلاٹ کی رکھوالی کے لیے پلاٹ کے مالک نے انہیں
رہنے کو جگہ دی ہوئی ہے۔ اس ملک کے دستور کے مطابق کہ جنہیں روٹی نہیں ملتی
وہ دس بچوں کے والدہیں۔ وہ بھی کافی بہن بھائی ہیں۔ کبھی کبھار میری بیگم
کو کوئی کام ہوتا تو اُن بہنوں کو بلا لیتی۔ وہ پھرتی سے کام کرتیں اور کام
کرنے کے بعد یہ جا وہ جا۔ چند دن پہلے شام کو عورتوں کے رونے کی آواز سن کر
میں نے پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ دس گیارہ سال کی بچی فوت ہو گئی ہے۔
افسوس کرنے اس کے والد کے پاس گیا ۔ پوچھا ، یہ یکدم کیا وجہ ہوئی؟ بتانے
لگا کہ چند دن سے بچی جسم ٹوٹنے اور تھکی تھکی رہنے کی شکایت کر رہی تھی۔
ہم نے سمجھا کہ شاید ایسے ہی اس کا وہم ہے۔ آج صبح اس نے کہا کہ اٹھا ہی
نہیں جا رہا۔ قریب کے ڈاکٹر صاحب (عطائی ) کے پاس لے گئے مگر حالت خراب ہو
تی گئی۔ دوپہر کو ہم پیر صاحب کے پاس لے گئے۔ پیر صاحب پورا زور لگایا۔ پھر
بتایا کہ کوئی جن یا چڑیل کا سایہ نہیں کچھ اور ہی وجہ ہے آپ ہسپتال لے
جائیں۔ ہسپتال پہنچے تو انہوں نے بتایا کہ اسے تو ٹائیفائیڈ ہے جو بہت بگڑ
گیا ہے۔ آپ بہت دیر سے آئے ہیں۔ انہوں نے کوشش کی مگر بچی پندرہ منٹ میں ہی
فوت ہو گئی۔ بس جی ﷲ نے دن ہی اتنے لکھے تھے۔ انسان کا زور تو نہیں چلتا۔
میں سوچ رہا تھا کہ روؤں یا اس کی عقل کا ماتم کروں۔ کئی دن تک بچی کی
بیماری کو وہم سمجھتا رہا اور جب بیماری کا یقین ہو گیا تو پہلے ایک عطائی
اور پھر پیر صاحب کے پاس لے گیا۔ عطائی ڈاکٹر تو شاید گاؤں والوں کی مجبوری
ہے۔ پڑھا لکھا ڈاکٹر کسی گاؤں میں پریکٹس کرنا غیر منعفت بخش جان کر ادھر
کا رخ نہیں کرتا حالانکہ عطائی ڈاکٹروں سے بھی مہنگے ہیں اور بہت سلیقے سے
لوگوں کی کھال اتارتے ہیں۔ وہ دوائیاں بھی خود ہی دیتے ہیں اور اُن دواؤں
کو قیمتیں بھی اپنی مرضی کی لگاتے ہیں۔ لیکن گاؤں میں کچھ نہ ہونے کی وجہ
سے لوگوں کے لیے اُن کا دم غنیمت ہے۔
ہر گاؤں میں ایک آدھ پیر بھی ہے۔ لوگ اس پیر پر اندھا اعتماد کرتے ہیں۔
دنیا میں شاید سب سے زیادہ بکنے والی چیز مذہبی جذبات ہیں۔ نماز روزہ پیر
صاحب ضروری نہیں سمجھتے۔ زکوۃ کے وہ سب سے زیادہ حقدار خود ہی ہوتے ہیں۔ وہ
اہل تصوف جو حقیقی پیر ہیں اور جن کے فیض کو دنیا ترستی ہے۔ اب نظر نہیں
آتے۔ لغت میں پیر کے کچھ مثبت معنی ہیں اور منفی۔ مثبت معنوں میں پیر کا
مطلب بوڑھا آدمی ہے بزرگ ہے۔ ہادی ہے رہنما ہے اور استاد ہے جبکہ منفی
معنوں مین پیر ایک عیار آدمی ہے۔ چالاک آدمی ہے۔ شریروں کا لیڈر ہے۔ ہر
گاؤں میں جو پیر نظر آتے ہیں ماسوائے چند نیک لوگوں کے انتہائی عیار اور
چالاک لوگ ہیں ۔ لوگوں کی سادہ دلی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ انہوں نے کارندے
چھوڑے ہوتے ہیں جو ان کی جھوٹی کراماتوں کی داستانیں سنا کر لوگوں کو اپنے
جال میں پھنساتے ہیں۔
میرے ایک ملازم نے چھٹی لی کہ میرے پیر صاحب میری طرف آ رہے ہیں۔ اگلے دن
میرے پاس آیا کہ پیر صاحب آئے ہیں مہربانی کریں اُنہیں ملنے آپ بھی آئیں۔
پیر صاحب کو مل لیں۔ بہت صاحب کرامت آدمی ہیں۔ میں اُس کی خواہش کے احترام
میں اس کے گھر چلا گیا۔ سر پر پگڑی ، چھوٹی چھوٹی داڑھی ۔ نامکمل لباس ،
ایک بڑا اور موٹا ڈنڈا (عصا) پاس رکھا ہوا، پیر کم ، پہلوان زیادہ محسوس
ہوتا تھا۔ چند عورتوں کو پاس بٹھایا ہوا تھا۔ مجھے اس کا انداز پسند نہیں
آیا۔ فضول قصے سنا کر عورتوں کو متاثر کرنے کی کوشش میں تھا۔ مجھے دیکھ کر
اور میرے سوال جواب سن کر پیر صاحب پریشان ہو گئے۔ انہیں مزید پریشانی سے
بچا کر تھوڑی دیر بعد میں واپس آگیا۔
تین چار دن بعد میرا ملازم واپس آیا کہ پیر صاحب اُس کے گھر آنے کا اعزاز
اُسے بخشنے کے بعد رخصت ہو گئے ہیں۔ میں نے ہنس کر پوچھا پیر صاحب نے کوئی
نماز بھی پڑھی یا نہیں۔ ملازم مسکرایا۔ سر وہ دکھاوے کی نماز نہیں پڑھتے ۔
پھر وہ بتانے لگا کہ پیر صاحب ایک دن گھر بیٹھے تھے کہ ایک کرنل صاحب ملنے
آگئے۔ آپ کی طرح انہوں نے بھی پیر صاحب پر اعتراض کیا کہ آپ نماز نہیں
پڑھتے۔ پیر صاحب نے ہنس کر کہا۔ بھائی میں تو ہر وقت مسجد میں ہوتا ہوں۔
کرنل صاحب منہ بنا کر چلے گئے۔ نماز کا وقت تھا۔ کرنل صاحب پیر صاحب کے گھر
سے نکلے تو سامنے والی مسجد میں چلے گئے۔ کیا دیکھتے ہیں پیر صاحب مسجد میں
نماز پڑھ رہے ہیں۔ حیران ہو کر انہیں دیکھتے رہے۔ پھر بھاگ کر گھر آئے۔ پیر
صاحب وہاں بھی موجود تھے۔ دوبارہ مسجد گئے۔ پیر صاحب عبادت میں مصروف۔ پھر
گھر آئے۔ پیر صاحب کے قدموں میں گر گئے اور اُن سے اپنے رویے کی معافی
مانگی اور مرید ہو گئے۔ اب بھی تھوڑے دنوں بعد پیر صاحب کی خدمت میں حاضری
دیتے ہیں اور بہت خدمت کرتے ہیں ۔ میں ہنس دیا۔ کرنل صاحب شاید لوگوں کو
زیادہ مرعوب کرنے کے لیے قصے میں شامل کیے گئے تھے۔
شہنشاہ بابر جب کابل آیا تو بعض لوگوں نے اُسے بتایاکہ یہاں ایک مسجد ہے
وہاں اگر با آواز نماز پڑھی جائے تو مسجد کی دیواریں ہلتی ہیں اور نماز میں
آواز جس قدر بلند ہوتی ہے مسجد کی دیواریں اُسی قدر زیادہ ہلتی ہیں۔ بابر
فوراً آزمائش کے لیے وہاں پہنچ گیا۔ دیکھا نماز کے دوران بے ڈھنگی سی لکڑی
کی دیواریں چرچرائیں اور ہلنے لگیں۔ تحقیق کی تو دیکھا موذن کے مینار پر
ایک خادم لکڑی کی باڑ میں چھپا تھا اور ہر نماز کے دوران دیواروں کو حرکت
میں لاتا تھا۔ بابر نے حکم دیا کہ آئندہ نماز کے وقت مسجد کے تمام خدام
نیچے مسجد میں حاضر رہا کریں۔ موجودہ جدید دور میں چند لوگ ضرور ایسے ہوں
گے جو صحیح معنوں میں پیر ہوں گے مگر کہتے ہیں سچا تصوف بند آنکھوں والی
سادگی سے آتا ہے۔ یہ جعلی پیری علم سے دوری کا سبب ہیے۔ اگر ہم تعلیم پر
پوری توجہ دیں تویقینا عوام کی سادہ دلی پر ڈاکہ ڈالنے والوں کو مایوسی کے
سوا کچھ نہیں ملے گا۔ یہ سب چیزیں جہالت کی پیدوار ہیں۔ کاش لوگ علم حاصل
کرلیں اور میرے وطن کی بچیاں ، میری اپنی بچیاں بے موت نہ مر سکیں۔ |