کراچی کے بھکاری غنڈے

عروس البلاد کراچی ۔۔۔۔۔پاکستان سب سے بڑا شہر ۔۔پوری دنیا میں پاکستان کی پہچان ۔۔۔غریب پرور شہر ۔۔۔۔پاکستان کی معاشی شہہ رگ ۔۔پاکستان میں صنعت کا سب سے بڑا مرکز ۔۔۔پاکستان کی اہم ترین اور اولین بندرگاہ ۔۔۔ المختصر کراچی کا وجود پاکستان کے لئے ایسے ہی ہے جیسے کسی گاڑی کے لئے اس کا انجن یعنی اگر گاڑی میں سے انجن نکال دیا جائے تو وہ خالی لوہے کا ڈبہ رہ جاتی ہے اسی طرح اگر پاکستان میں سے کراچی نکال دیاجائے تو یہاں کچھ نہیں بچتا مگر۔۔۔۔۔۔۔ یہاں حکومت پاکستان کی کوئی رٹ نظر نہیں آتی کراچی ۔۔۔۔۔۔جو ایک طویل عرصے سے مختلف قسم کی مافیاز کے نرغے میں ہے اور سنگین مسائل کا شکار ہے ان میں سے ایک ٹارگٹ کلنگ ، دہشت گردی ، امن وامان کی ابتر صورت حال ،ٹریفک جام ،بجلی کا بحران ،لوٹ مار ،بینک ڈکیتیاں وغیر ہ وغیرہ ہیں مگر ان سب سے بڑھ کر کراچی شہر میں مختلف آزاد ریاستیں وجود میں آچکی اردو ریاست ، پٹھان ریاست ، بلوچ ریاست سندھی ریاست ، سنی ریاست ، شیعہ ریاست ، وہابی دیو بندی ریاست، اور ان ریاستوں میں سب کے پاس اپنی اپنی آرمی بھی ہے اور ISI (انٹیلی جنس سروس )بھی ،چونکہ یہ تمام ریاستیں ریاست پاکستان کو توڑ کر بنائی گئی ہیں یعنی ریاست کے اندر ریاست تو اپنے اس عمل سے پاکستان کے وجود کا انکار کرتی ہیں ۔اگر ایک ریاست کاشہری جو بے چارا اپنی روزی روٹی کے چکر اور اپنے گھر کی کفالت میں اس قدر مگن ہے کہ اس معلوم بھی نہیں ہوتا کہ وہ کسی دوسری ریاست میں غلطی سے چلا گیا ہے مگر اس ریاست کی آرمی اور انٹیلی جنس کو تو اس کا شناختی کارڈ اور ایڈریس دیکھ کر ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ بندہ دشمن ریاست سے آیا ہے اور اب اس کو بوری میں پیک کرکے بطور تحفہ دشمن ریاست کو بھیجا جائے مگر اس غریب اردو بولنے والے کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ یہ بلوچ بولنے والوں کی سلطنت ہے ،بلوچی بولنے والے معصوم شہری کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ کہ’’ بھائی لوگ ‘‘ کا علاقہ ہے ،کسی غریب شیعہ کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ تو ’’ صحابہ کے نوکرو ں‘‘ کا علاقہ ہے اور اسی طرح سنی ’’ عاشقان رسول ‘ ‘ بھی نہایت سفاکی سے انسان کی جان لینے کا کام کرتے ہیں جو کام صرف اور صرف اﷲ بزرگ و برتر کے ہاتھ میں ہے مگر یہ اپنے اپنے آقاؤں ،سرغنوں ، کے بے دام غلام اپنے سیاسی اور مذہبی اور لسانی عصبیت کی بناء پر بے گناہ مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگتے ہیں اور اور اپنے حکومت اور ریاست میں کسی غیر کا وجود برداشت نہیں کرتے ۔

آج 21 ویں صدی کے جدید زمانے میں بھی جب دنیاترقی ،سائنس ،ٹیکنالوجی اور علم کی معراج پر نظر آتی ہے پاکستان کے اس سب سے بڑے شہر اور معاشی دارلحکومت کراچی میں زمانہ ء جاہلیت کے عربوں جیسا نظام رائج ہے وہا ں پانی پینے پلانے پر جھگڑا ،وہاں گھوڑا آگے بڑھانے پہ جھگڑا،وہاں لب جو آنے جانے پہ جھگڑا اور یہاں کراچی میں 2013 ء میں بھتہ پہ جھگڑا نہیں بلکہ سیدھی سیدھی موت ، اپنی ریاست سے دوسری ریاست میں جانے پر جھگڑا نہیں بلکہ سیدھی سیدھی موت ، قربانی کی کھالوں پر جھگڑا نہیں بلکہ سیدھی سیدھی موت ، معمولی سے معمولی بات پر فائرنگ اور پھر ۔۔۔۔۔ جھگڑا نہیں بلکہ سیدھی سیدھی موت ۔ اگر آپ کراچی میں رہتے ہیں اور اس بات سے اتفاق نہیں کرتے تو ذرا اپنے علاقے کے یونٹ انچارج ، امیر ، ذمہ ار اور دیگر جو بھی نام یہ لوگ اپنے پالتو غنڈوں کو دیتے ہیں ان سے پنگا لے کر دیکھئے کہ کیا حال ہوتا ہے آپ کا! یہ ہے کراچی اور اس کا حال ۔مگر وفاق میں چاہے جو بھی حکومت ہو وہ کراچی کے ان بادشاہوں سے جو ریاست میں ریاست قائم کرکے بیٹھے ہیں ہمیشہ بنا کر رکھنا چاہتی ہے کسی حکومت میں اتنی جرات نہیں کہ وہ ملک ِ پاکستان کے اس مقبوضہ شہر کو واپس پاکستان میں شامل کرنے کی کوشش کرے اور یہاں موجود لوگوں کو غلامی کی زندگی سے نجات دلوائے ڈھائی کروڑ بھیڑ بکریوں کا یہ باڑا۔۔۔ یہ اصطبل چندلیڈ ر نما غنڈوں کے رحم وکرم پر ہے ۔ اچھا کمال کی بات تو یہ ہے کہ ان غنڈوں کے تمام اخراجات بھی کراچی کے عوام ہی اٹھاتے ہیں کھال چاہے قربانی کی ہو یا اپنی دینی انہی کو پڑتی ہے اور اس کے علاوہ چندہ ، فطرہ بھتہ ،بھی انہی لوگو ں ملتا ہے ۔کراچی حکومت پاکستان کے خزانے میں کل ٹیکس 70 فیصد دیتا ہے یعنی پورے پاکستان سے 30فیصد جس میں لاہور ،پنڈی ، فیصل آباد، گجرانوالہ ، پشاور ،سیالکوٹ ،کوئٹہ وغیرہ وغیرہ سب شامل ہیں اور اکیلا کراچی پور ے پاکستان کے ٹیکس میں ڈبل سے سے بھی کہیں زیاد ہ ۔اور پھر یہاں کے مقامی بادشاہوں کو بھتہ ٹیکس الک جو کہ بلاشبہ اربوں روپوں میں ہیں اس کے باوجود بھی کراچی کے تاجر ،صنعتکار عام شہری ان بادشاہوں کے پروردہ غنڈوں کے تشدد ،توہین ،تضحیک کا نشانہ بنتے ہیں اوراکثر اوقات قتل بھی کردئیے جاتے ہیں ۔

مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ہے کہ جب ان ریاستوں کے فوج کا کوئی جوان ایک دوسرے کے ہتھے چڑھ جائے تو نعوذباﷲ ثم نعوذباﷲ اسے خدا بھی نہیں بچا سکتا اور پھر اس کے جگہ ایک اور غنڈہ لے لیتا ہے اور پارٹی ، تحریک ، تنظیم اور جماعت کو ایک اور شہید مل جاتا ہے جس کی لاش پر اپنا نفرت انگیز جھنڈا ڈال کر اس کی خوب تشہیر کی جاتی ہے اور مظلومیت کا رونا رویا جاتا ہے ،اور لوگوں کی ہمدردیاں اور ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔

میں یہ بات وثوق سے کہتاہوں کہ اگر 80 اور 90 کے دہائی میں کراچی میں حکومت پاکستان کی رٹ ہوتی یہاں قانون کی حکمرانی ہوتی تو آج دبئی ترقی کی اس بلندی پر نہ پہنچتا اور پوری دنیا کے سرمایہ کار اس شہر بے مثال میں سرمایہ کاری کرتے اور کراچی کے لوگ برونائی دارالسلام سے زیادہ خوشحال ہوتے مگر جس دورمیں دنیا نے دبئی کو ترقی کرتے دیکھا تووہ ترقی اصل میں کراچی کا مقدر تھی مگر کراچی کے ان بادشاہوں نے کراچی اور یہاں کے رہنے والوں سے وہ دشمنی کی کہ آج وہ شہر جو پورے ملک بلکہ افغانستان، برما، بنگلہ دیش ، بھارت اور نجانے کہاں سے سے آنے والو ں کو اپنے دامن میں پناہ ، رزق ،اور امن وسلامتی دیتا تھا ۔۔۔۔وہ کراچی کے سیٹھ اور ساہوکار جو 500 سے پہلے بھی دنیا کے امیر ترین لوگ ہوا کرتے تھے ۔۔۔۔وہ کراچی جو سب سے زیادہ چئیرٹی اور فلاحی کام کرتا تھااس کے تاجروں کو اس قدر خوف زدہ اور مایوس کردیا گیا کہ وہ شہر کیا ملک ہی چھوڑ نے لگے اور دبئی ، ملائیشاء ترکی اور دنیا میں جہاں جہاں پناہ ملی چلے گئے ۔کراچی کا میمن تاجر جو کبھی کھارادر اور برنس روڈ چھوڑ کر ناظم آباد نہیں شفٹ ہوتا تھا آج پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہے بھتے کے پرچیوں اور اس کے ساتھ آنے والی گولیوں نے انہیں اس قدر خوف میں مبتلا کردیا ہے ۔

کاش اے کاش وفاق پاکستان اپنے اس شہر کی طرف بھی نظر کرے۔۔۔۔کاش افواج پاکستان جو بلاشبہ دنیا کی بہترین افواج ہیں اس شہر ناپرساں کی طرف نظر کریں وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس قدر نااہل ہیں کہ کراچی میں سے بارش کا پانی تک نہیں نکا ل سکتیں اگر افواج پاکستان بارش کا پانی نکالنے آسکتی ہیں تو جرائم، بھتے ، ٹارگٹ کلنگ ،غنڈہ گردی ، شرفاء کی تضحیک کرنے والے جرائم پیشہ عناصر کو نکالنے کے لئے آنے میں انہیں کس بات کا تامل ہے کیا وہ نہیں جانتے کہ ان کو دی جانے والی تنخواہ میں سے 70 فیصد حصہ اس شہر کے تاجر اور صنعتکار دیتے ہیں وہ بارش سے بچانے اور نکالنے تو آگئے بہتے پانی کو تو دیکھ لیا مگر ۔۔برسوں سے بہتا کراچی کے بے گناہ خون کیوں نہیں دیکھتے ۔۔ کراچی کے یرغمال عوام کو جرائم پیشہ غنڈوں کے رحم وکرم پر کیوں چھوڑا ہوا ہے ۔۔کراچی کے ایک ایک گلی کوچے سے چن چن کر ٹارگٹ کلرز ،بھتہ خورں، لینڈ مافیا ، قبضہ گروپ کو اٹھاؤ اور سرعام فوجی عدالتیں لگا کر غداری کے فاسٹ ٹریک مقدمات چلا کر سرعام پھانسیاں دی جائیں ڈھائی کروڑ انسانوں کو بچانے کے لئے دس بیس ہزار بھیڑیوں کی قربانی کوئی بڑی بات نہیں ۔۔۔۔۔۔۔

ہم نے مان کہ تغافل نہ کرو گے لیکن خاک ہوجائیں گے ہم تم کوخبر ہونے تک
Kaleem Ahmed
About the Author: Kaleem Ahmed Read More Articles by Kaleem Ahmed: 11 Articles with 7263 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.