گلگت اور کشمیر کی حسین
وادیاں،کاغان ،ناران اور مری کے سرسبزوشاداب پہاڑ،حسن کی دیوی سوات کی وادی
،قدرتی وسائل سے مالامال بلوچستان،پنجابی ،بلوچی ،سندھی ،پٹھان قوم سے تعلق
رکھنے والے حسین لوگ،خیبرپختونخواہ میں بسنے والے مہمان نواز پٹھان، یہ ہے
میرا پیارا پاکستان۔۔۔علی معین نوازش،عمیرعلی،ارفع کریم رندھاوا،ملالہ یوسف
زئی،حزیرعلی،عائشہ فاروق اور اس جیسے لاتعداد پاکستانی اس مٹی سے تعلق
رکھتے ہیں ،یہ وہ ملک ہے جو نظریے اسلام کی بنیاد پر معرض وجود میں
آیا۔اسلامی دنیا پر جب بھی کڑا وقت آیا تو پاکستان کو پکارا گیا ،پکار سنتے
ہی پاکستانیوں نے اپنے اسلامی ملکوں کے لیے جان کے نذرانے پیش کر دیئے۔یہی
وجہ ہے کہ پاکستان کا وجود طاغوتی قوتوں کو ہمیشہ سے کھٹکتا رہا۔
دنیائے کفر متحد ہو کر اس ملک کو ختم کرنے کے درپے ہے ۔مملکت خدادادآج جنگی
کیفیت سے گذر رہاہے،کراچی سے لاشیں اٹھا رہے ہوتے ہیں تو کوئٹہ لرز اٹھتاہے
اس غم سے نکلتے نہیں خیبراپختوخواہ میں آگ لگ جاتی ہے ۔تاریخ کہ اوراق
پلٹیں تومعلوم ہوتا ہے کہ اتنے خراب حالات کے بعدکوئی بھی ملک اپنے وجود کو
قائم نہ رکھ سکا ،مگر پاکستان الحمداﷲ اپنے وجود کو برقرار کھے ہوئے ہے۔
برصغیر کے مسلمانوں نے ہندؤں کے مظالم سے تنگ آ کر علیحدگی کی تحریک شروع
کی جس کو روکنے کے لیے ہندو بُنیے نے ہر ممکن کوشش کی ،لیکن ہمارے بزرگوں
کو اس بات کا ادراک تھا کہ ہندو ہماری آنے والی نسلوں کوکسی بھی صورت جینے
نہیں دے گا وہ اُن کو بھی غلام بنا کر ان کے لیے زمین کو تنگ کر دے
گا،ہندؤں کے لیڈروں نے مسلمانوں کی تحریک کو روکنے کے لیے ظلم کی وہ
حدودپار کی کہ حیوانیت بھی شرماگئی مگر انسانیت سوز مظالم بھی ہمارے بزرگوں
کے عزائم کو ختم نہ کر سکے،انہوں نے گردنیں جھکانے کے بجائے کٹوانے کو
ترجیح دی، آخر کیا وجہ تھی کہ وہ ظلم کوبرداشت کرتے رہے کیا وہاں عبادات
نہیں ہوتیں تھیں ؟مسلمان مساجد نہیں جایا کرتے تھے؟عیدین نہیں پڑھی جاتی
تھیں؟یہ سب کچھ ہوتا تھا مگر ڈر اور خوف کے سائے میں ،وہاں مسلمانوں کے
ساتھ ناانصافی کی جاتی تھی،تعلیم کے لیے مسلمانوں کے لیے کوئی خاظر خواہ
اقدامات نہیں کیے گئے،ملازمت کے لیے مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں
تھی،مسلمان غلامی میں زندگی گذار رہے تھے، ہندؤں یہی چاہتا تھا کہ یہ اپنی
عبادات تو جاری رکھیں لیکن ہمارے غلام بن کر رہے ۔قائداعظم محمدعلی جناح
جیسے عظیم لیڈر نے مسلمانوں کے رہنمائی کی اور مسلمانوں نے کلمہ طیبہ کی
بنیاد پرایک ملک(پاکستان) حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ہموطن جوانوایہ ملک
صرف قرادادوں ،ریلیوں اور جلسوں کی بدولت ہمیں نہیں ملا بل کہ لاکھوں
قربانیاں دی ، صرف جانوں کی قربانیاں نہیں بل کہ رشتوں کی قربانیاں بھی دی
گئی۔ذرا سوچو تو سہی ماؤں نے اپنے لخت جگروں کو کنوؤں کے نظر کیا،ندیوں میں
چھوڑ دیا،راستوں میں پھینکنے پر مجبور ہوئیں ،باپوں کے سامنے بیٹوں کی
عزتیں تار تار ہوئیں،دودھ پیتے بچوں کو نیزوں پر لہرایا گیا،سکھوں نے
مسلمانوں کی بستیوں کو آگ لگائی ،انسانی جسموں کے ٹکرے ٹکرے کیے۔۔۔۔اﷲ
اﷲ۔۔۔۔۔کیسے ان لمحات کو صفحے قرطاس پر اتاروں،جن کو سن کر دل خون کے آنسو
روتا ہے ،کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ چند بھٹکے ہوئے کہتے ہیں ارے یہ تو صرف
افسانے ہیں ایسے کچھ بھی نہیں ہوا چلو ایک لمحے کے لیے میں مان جاؤں کہ یہ
افسانے ہیں لیکن بھارت میں موجود وہ مائیں جو علیحدگی کے وقت سکھوں کی
دردندگی کا شکار ہوئیں آج ذرا امرتسر اور گجرات جا کر دیکھو لو ۔۔۔ایسی
ہزار خواتین ملیں گی جن کا دل پاکستان کے لیے دھڑکتا ہے کیوں۔۔۔ اس لیے کہ
وہ بیویاں تو سکھوں کی ہیں لیکن ان کے دلوں میں اسلام دھڑکتا ہے ۔۔یہ وہی
مائیں ہیں ۔۔۔ہجرت کے وقت سکھ جوان لڑکیوں کواٹھا کر لے گئے ان کے ساتھ
زبردستی شادیاں کی ،انہوں نے سکھوں کی اولاد کو جنم دیا۔میں اکثر یہ بات
لکھتا ہوں کہ سکھوں کے بچوں کو جنم دینے والی مسلمان مائیں اپنے بچوں کو
مندروں اورسکھوں کی عبادت گاہوں کی جانب جاتے دیکھتی ہوں گی تو انہیں وہ
لمحات یاد نہ آتے ہوں گے جب ان کے باپ اور بھائی پانچ وقت نماز کے لیے
مساجد میں جایا کرتے تھے جمعے کے روز خوشبو لگا کر نماز جمعہ کی ادائیگی کے
لیے جاتے تھے۔۔۔۔یقیناً یاد آتے ہوں گے لیکن وہ کیا کر سکتی ہیں ان نے اپنا
معاملہ اﷲ کے سپرد کر دیا،اور ہر لمحے پاکستان کے سلامتی کے لیے دعا کرتی
ہیں۔آج پاکستان میں ہزاروں بزرگ موجود ہیں جنہوں نے تقسیم کے دوران ہونے
والے دردناک اور انسانیت سوز مظالم کو اپنی آنکھوں میں محفوظ کیا ۔۔۔۔کیا
یہ سب بھی افسانوی کردار ہیں؟؟
میرے ملک کے جوانوبیدرا ہو جاؤدشمن سر پر آن پہنچا ہے،اگر یوں ہی سوئے رہے
توآزادی کو کھو دو گے پھر سوئے غلامی میں چلے جاؤ گے۔۔۔بس چھوڑ دو اس بحث
کو کہ یہ ملک کس بنیاد پر حاصل کیا گیا۔۔۔۔۔دشمن حملے کرتے وقت اس بات کو
نہیں دیکھے گا وہ تو تمہیں نیست و نابود کرنے کے لیے اپنے ناپاک عزائم لیے
تمہاری سرحدوں پر کھڑا ہے۔۔۔۔۔آج جموں کشمیر کے نوجوان ،بوڑھے ،مائیں اور
بہنیں پاکستان کا جھنڈا لیے سڑکوں پر ہیں ۔۔۔۔۔۔یہ وقت سونے کا نہیں بل کہ
ان سے اظہار یکجہتی کا ہے ۔۔بھول جاؤ کہ تم دیوبندی ،بریلوی،شیعہ،یا اہل
حدیث ہو تم مسلمان اور پاکستانی ہو۔۔۔۔۔۔ایک ہو جاؤ اور اس حدیث کے مانند
اپنے آپ کو ڈھال لو۔۔۔۔۔مومن ایک جسم کی مانند ہیں جسم کے ایک حصے پر زخم
سے درد پورا جسم محسوس کرتا ہے۔۔۔۔۔۔آج پوری قوم اور امت مسلمہ کے درد کو
محسوس کرو، جو آگ کشمیر، افغانستان، فلسطین، عراق میں لگی ہوئی تھی وہ آج
ہمارے گھر آن پہنچی ہے۔۔۔۔اب تو ہوش کے ناخن لو ۔۔۔وطن عزیز کے حصول کے لیے
قربانیاں دینے والوں کے خون کی لاج رکھ لو۔۔۔۔۔خدا کے واسطے ۔۔۔۔ان کی
روحوں کو تسکین دینے کے لیے پاکستان کے لیے جینے اور مرنے کی قسم کھا لو۔۔۔۔۔خدا
کے واسطے سنبھل جاؤ۔۔۔ایک ہو جاؤ۔۔۔۔نیک ہو جاؤ۔۔۔۔دوسروں کے لیے جینا
سیکھو۔۔۔۔قوم کی خدمت کر کے جیو۔۔۔۔آج یوم آزادی ہے۔۔۔۔66برس قبل کے وہ
لمحات نہ بھولنا ۔۔۔جب خون کی ندیاں بہی گئیں۔۔۔ جھنڈے لگانے ،بازاروں کو
سجھانے سے تمھارا فرض ادانہیں ہو جاتا۔۔۔میرے نبی ﷺ کی حدیث کا مفہوم
ہے۔۔۔مجھے مشرق سے ٹھنڈی ہوائیں آ رہی ہیں۔۔۔۔اﷲ اﷲ۔۔۔۔مشرق والوں خدا کے
واسطے اﷲ والے بن جاؤ۔۔۔۔میرے قائد کی آخری آرام گاہ کو جلانے والوں ،ان کی
تصاویر کی بے حُرمتی کرنے والوں انشاء اﷲ زمین تمہیں جگہ نہیں دے گی ۔۔۔اپنے
سینے کو ٹھنڈک پہنچانے کے لیے اتنی ذلیل حرکت کر کے تم نے ہمارے سینوں کو
گرما دیا ہے ۔۔۔غیروں کے ٹکروں پر پلنے والوں خدا تمہیں غارت کرے ۔۔۔اے اﷲ
میرے وطن کو سلامت رکھے ۔۔۔اس کے جوانو کونیند سے بیدار کر دے۔۔۔۔۔پاکستان
زندہ باد۔۔۔۔پاکستا ن پائندہ باد۔۔۔
ایک ہو مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے تابخاک کاشغر
نوٹـ:آپ مجھے سے رابطہ کر سکتے ہیںwww.facebook.com/umer.rehman99 |