باکمال لوگ لاجواب سروس

ہمارے ملک کے خستہ حال اداروں میں سے ایک پی آئی اے بھی ہے جو کبھی باکمال لوگ لاجواب سروس کے سلوگن کے تحت کام کیا کرتا تھا لیکن آجکل اس کے بالکل برعکس ہے جس طرح ہمارے دیگر ملکی ادارے پاکستان سٹیل مل،ریلوے،واپڈا سمیت دیگرروز بروز تنزلی کی طرف گئے لیکن ان میں سے ریلوے میں بہتر شخص کے آمد نے خوشگوار تبدیلی دکھائی ہے میں سمجھتا ہوں 1980 کے بعد ہمارے تمام اہم ملکی ادارے آہستہ آہستہ زوال پذیر ہونا شروع ہوگئے جب کہ قوم اخلاقی پستی کی طرف گامزن ہوگئی افغانستان پر روس کی چڑھائی اور اس کے مقابلہ کے لئے امریکہ کی آشیرباد سے لڑا جانے والا افغان جہاد جس نے ہماری بربادی کے سامان پیدا کردئے اور آج بھی پوری قوم اس کاخمیازہ بھگت رہی ہے۔

کئی دفعہ پی آئی اے اور غیرملکی ائیر لائن میں بھی سفر کرنے کا اتفاق ہوا لیکن واضع فرق محسوس ہوتا ہے جب آپ پی آئی اے کے ذریعے بیرون ملک جانا چاہتے ہیں توہمارے ہاں بورڈنگ سے رکاوٹیں شروع ہو جاتی ہیں جو جہاز میں داخل ہوکر سیٹ پر بیٹھنے تک جاری رہتی ہیں جگہ جگہ ناکے لگے ہوئے ہیں جنہیں رشوت یا سفارش کے بغیرعبور کرنا ناممکن ہے جبکہ غیر ملکی ائیر لائینز اپنے مسافروں کو تمام سہولیات بہم پہنچانے میں کوشاں رہتی ہیں جس کی وجہ سے سفر خوشگوار بن جاتا ہے۔کئی دفعہ سفری حوالے سے میں سوچتا ہوں کہ لندن ہیتھروائرپورٹ پر ہرایک منٹ کے بعد ایک جہاز لینڈ کرتا ہے اور ایک ٹیک آف کرتا ہے جبکہ اس کے پیچھے ایک ایک منٹ کے وقفے سے ایک لمبی لائن لگی ہوتی ہے جو یکے بعد دیگرے لینڈ اور ٹیک آف ہوتے رہتے ہیں اگر کراچی ،لاہور ائیرپورٹس پر لینڈنگ اور ٹیک آف کے لئے لندن کی طرح کی ایک لمبی لائن لگی ہوتو تصور سے ہی کانپ جاتا ہوں کہ ہمارے ہاں سبھی جہازوں کو آپس میں ٹکرادیا جائے۔ ہمارے ائر پورٹس پر کئی گھنٹوں کے وقفے سے فلائٹس لینڈ اور ٹیک آف ہوتی ہیں اس کے باوجود بھاگ دوڑ نظر آتی ہے لاہور ائیر پورٹ پر جب جہاز لینڈ کرتا ہے تو کئی کئی گھنٹے مسافروں کو ائر پورٹ سے باہر نکلنے میں لگتے ہیں بلکہ سامان حاصل کرنا تو جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے جبکہ لندن ہیتھرو دنیا کا مصروف ترین ائرپورٹ ہونے کے باوجودصرف 30 منٹ میں سامان مل جاتا ہے اور دس پندرہ منٹ ائر پورٹ سے باہر نکلنے میں لگتے ہیں ۔گزشتہ روزہمارے حلقہ کے سابق ممبر قومی اسمبلی چوہدری زاہد اقبال جو میرے عزیز اور دوست بھی ہیں عمرہ کی سعادت حاصل کرکے واپس آئے ہیں وہ بتا رہے تھے کہ اتنی تھکاوٹ مدینہ سے لاہور ائیر پورٹ پرپہنچنے تک نہیں ہوئی جتنی تھکاوٹ سامان حاصل کرنے میں ہوئی وہ فلائٹ نمبرپی کے 744 کے ذریعے مدینہ سے لاہور پہنچے اور ساڑھے تین

گھنٹے اپنے سامان کے انتظار میں رہنے کے بعد ائرپورٹ سے باہر نکل سکے جبکہ لاہور سے مدینہ جانیوالی فلائٹ نے تو سامان ہی گم کردیا تھاجو چھ روز بعد ملا جس میں کپڑوں کے علاوہ میڈیسن بھی تھیں یہ واقعہ ایک سابق ممبر قومی اسمبلی کے ساتھ پیش آیا ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عام آدمی کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہوگاحالانکہ یہ کوئی تکنیکی کام نہیں ہے بلکہ ایڈ منسٹریشن میں کمی اور کوتاہی کا معاملہ ہے دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے لیکن ہمارے سرکاری اداروں کے افسران اور اہلکاران ابھی تک پرانے زمانے میں ہی رہ رہے ہیں ان افسران میں سے بہت سارے افسر سفارشی اور میٹرک پاس ہیں وہ ان جاب کے اہل ہی نہیں ہیں جس کی وجہ سے پی آئی اے جیسے بڑے نیک نام ادارے کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے اور یہی صورتحال سول ایوی ایشن کی ہے وہاں پر بھی سفارشی بھرتیوں کی بدولت افراتفری ہے اور کوئی بھی کام بغیر رشوت اور سفارش کے ہو ہی نہیں سکتا بلکہ ائر پورٹس پر قلی کی خدمات دو سو روپے کے عوض ملتی ہیں جبکہ آج کل پانچ سو روپے وصول کئے جارہے ہیں جن لوگوں کو معلوم ہے وہ مقررہ وزن کی بجائے زائد وزن لے کر جا بھی سکتے ہیں اور سامان لا بھی سکتے ہیں جو بے چارے پہلی دفعہ سفر کر رہے ہوتے ہیں ان کا ایک کلو وزن بھی زائد ہوتو رشوت دینا پڑتی ہے یا جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے اصل بات یہ ہے کہ عام آدمی کی مشکلات کی کسی کو کوئی فکر نہیں ہے جن کی وجہ سے کوئی فرق پڑسکتا ہے انہیں مکمل پروٹوکول حاصل ہوتا ہے لیکن جب پروٹوکول نہیں رہتا پھر انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ عام آدمی کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن یہ سلسلہ کہاں تک جائے گا آخر کار ہمیں سوچنا پڑے گا کہ پوری دنیا اب ایک گلوبل ولیج کی حیثیت اختیار کرگئی ہے ان حالات میں ہمیں بھی مہذب معاشرے کی طرح زندگی گزارنے کے لئے اور عام آدمی کی مشکلات کم کرنے کے لئے اپنا رول ادا کرنا ہوگا مہذب معاشرے میں افسران اپنے آپ کو قوم کا ملازم سمجھتے ہیں اور ان کو آسانیاں دینے کے لئے اپنا رول ادا کر رہے ہیں ہمیں بھی اپنے افسران کو قوم کا خادم بنانا ہوگا جن کے ٹیکسوں سے افسران کی تنخواہیں ادا ہوتی ہیں انہیں عزت نفس دینا ہوگی۔وزیر اعظم صاحب سے گزارش ہے کہ قومی اداروں کے سربراہ اہل اور دیانتدار لوگوں کو تعینات کرکے انہیں فری ہینڈ دیا جائے اوران کے کام میں کسی کی بھی مداخلت نہ ہو تاکہ وہ اپنے فرائض منصبی یکسوئی سے بلا روک ٹوک ادا کرسکیں جناب وزیر اعظم کسی غلط فہمی میں نہ رہیں عوام نے آپ کو یہ موقع اپنے مسائل کے حل کے لئے دیا ہے اگر خدانخواستہ ناکام ہوگئے تو آپ کا نام و نشان بھی نہیں ملے گا پیپلز پارٹی جیسی عوامی پارٹی کو عوام نے جس طرح مسترد کیا ہے سب کے لئے نشان عبرت ہے اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔

Ch Abdul Razzaq
About the Author: Ch Abdul Razzaq Read More Articles by Ch Abdul Razzaq: 27 Articles with 21392 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.