مسلمانوں کی انتہاپسندی اس قدر حد سے تجاوزکرچکی ہے
کہ اب مسلمان اپنے بچوں کو کلمہ طیبہ لکھے پلے کارڈ اور بینرز تھما
کرتصویریں بنواکر دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ اُن کی طرح
اُن کے بچے بھی مسلمان ہیں ۔یہ شائد دنیا میں ہونے والا اب تک کا سب سے بڑا
تشدد اور انتہا پسندی ہے اور اپنے بچوں کو اسلام کے قریب رکھنے کی کوشش
دنیا کی سب سے بڑی دہشتگردی ہے ۔آپ یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ راقم کا دماغ
چل گیا ہے یا پھر کم ازکم دماغ کا کوئی ایک سکرو تو ضرور ڈھیلاہوگیا ہے ۔اگر
آپ واقع ہی یہ سوچ رہے ہیں تو آپ بالکل ٹھیک سوچ رہے ہیں کیونکہ ان حالات
میں پاگل ہوجانا ہی بہتر ہے جن میں اسلام کے پیروکار یعنی مسلمان دنیا کو
امن کا گہوارہ بنانے کی بجائے انتہا پسندی کوفروغ دے رہے ہیں ۔برطانوی
اخبار سنڈے ٹائمز میں ایک تصویر نمایاں کرکے شائع کی گئی جس میں ایک مسلمان
اپنے تین سالہ ،معذور بچے کو اُٹھائے ہوئے ہے اور اُس نے اپنے ایک ہاتھ میں
سیاہ رنگ کا پرچم پکڑ رکھاہے جس پر کلمہ طیبہ درج ہے ۔پرچم کو دوسری جانب
سے اُس کی 10سالہ بیٹی نے تھام رکھاہے اور انتہا پسندی کی حد کرتے ہوئے
تصویر بھی بنواڈالی اس مسلمان نے ۔ایک بھارتی اخبار کے مطابق برطانیہ میں
بعض انتہاپسند مسلمانوں نے احتجاجی مظاہروں میں معصوم بچوں کا استعمال شروع
کردیاہے جس کی وجہ سے ان بچوں کے اندر بھی انتہاپسندی کے خیالات و جذبات
پیدا ہونے کا خدشہ ہے ۔بعض انتہاپسند مسلمان مغربی ممالک کو چڑانے کی غرض
سے کلمہ طیبہ پر مشتمل بینرز بچوں کو پکڑاکر مغربی دنیا کو یہ تاثر دینے کی
کوشش کررہے ہیں کہ ان کے بچے بھی ان کی طرح کے نظریات رکھتے ہیں۔اخبار
لکھتاہے کہ اس طرح کی تصاویر جب برطانیہ کے مین سٹریم اخبارات میں شائع
ہوتی ہیں تو اُن کا ساری مین سٹریم کمیونٹی کو انتہائی غلط میسج جاتا ہے ۔اخبار
مزید لکھتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ بچوں کے ساتھ کلمہ طیبہ لکھے بینرز کی تصویر
یں بنوانے والے انتہا پسندوں کو اس بات کاادراک بھی نہ ہو کہ بچوں کے ساتھ
انتہاپسندانہ تصویریں اُتروانے کاکیا مطلب نکل سکتاہے ‘‘مسلمانوں غور کرو
تم بغیر کپڑوں والامغربی کلچر اپنے گھروں میں اپنا چکے ہو،ہندؤناچ گانا آج
96فیصد مسلمانوں کا پسندیدہ مشغلہ بن چکاہے لیکن اسلام دشمن آج بھی تمہیں
کلمہ طیبہ کے قریب دیکھنا پسند نہیں کرتے ۔بندوق،بم ،توپ،میزائل اور دیگر
جان لیوا اسلحہ رکھنا ،اُس کے ساتھ تصاویر بنوانایا پھر اُس کو چلا کر
معصوم بچوں ،بوڑھوں اور عورتوں سمیت ہزاروں انسانوں کی جان لے لینا انتہا
پسندی نہیں لیکن بے ضرر بینرز جن پر کلمہ طیبہ درج ہوکوپکڑنا دنیا کی سب سے
بڑی انتہا پسندی ہے ۔کچھ عرصہ قبل اسی قسم کی انتہاپسندی پر پی ایچ ڈی کرنے
والے یہودی ربی کو اپنا محسن کہنے پر جب میں نے پاکستان کے معروف کالم نگار
کی رائے کو تنقید کا نشانہ بنایا تو اُس وقت لوگوں نے کہاکہ میں مشہور کالم
نگار کا نام اُچھال کر شہرت حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔خیر عزت و ذلت دینے پر تو
صرف اﷲ تعالیٰ کی ذات قادر ہے ۔اب وقت کے ساتھ ثابت ہورہا ہے کہ یہودی
مسلمانوں کے دوست یامحسن نہیں ہوسکتے ،جو لوگ کلمہ طیبہ کو بینرز پردرج
دیکھ کر اس قدر گھبرا جاتے ہیں کہ وہ انہیں ایٹم بم نظر آناشروع ہوجاتا ہے
وہ باعمل مسلمان کے وجود سے کس قدر خائف ہوں گے اس بات کااندازہ لگانا اب
مشکل نہیں رہا۔مسلم ممالک کی زمین کو لہورنگ دینے والے امن پسند بارودی
مغربی فرشتے مسلمان بچوں کے ہاتھ میں کلمہ طیبہ کی تحریر دیکھنا بھی پسند
نہیں کررہے ۔ |