قانون،محافظ اور عوام

شام پانچ بجے کا وقت تھا اڈے سے گاڑی سواریاں لیکر بیرپانی سدھن گلی جارہی تھی گاڑی باغ کے بوائز ڈگری کالج چوک پر پہنچی تو ایک پولیس والا بھاکتا ہو اگاڑی کے آگے آیا اس نے گاڑی روکی اور سائیڈ پر لگانے کا اشارہ کیا ڈرائیور نے گاڑی سائیڈپر لگائی نیچے اترا اور سامنے بیٹھے چار پانچ پولیس والوں کے پاس گیا پولیس والوں نے ڈرائیور سے کہا کہ تماری گاڑی اوور لوڈ ہے ۔ تم نے قانون کی خلاف ورزی کی تمہارا چلان ہوگا یہ ٹریفک پولیس نہیں تھی دوسرے پولیس والے تھے ان کے پاس چلان کرنے کا نہ اختیار تھا نہ ہی بک ۔ڈرائیور نے ان سے کچھ بات کی اور پھر کسی کا نمبر ملا کے بات کروانے کی کوشش کی میں نیچے اترا ساتھ کھڑے پولیس والے سے سوال کیا کہ آپ نے گاڑی کیوں روکی اس نے جواب دیا کے گاڑی کی سائیڈوں پر بندے سوار ہیں ،میں نے کہا کہ اس روٹ پر تو 40سال سے گاڑیاں اسی طرح چلتی ہے سواریاں بھی اسی طرح آتی جاتی ہیں آج آپ کو کیسے یاد آگئی کے گاڑی اوور لوڈ ہے ،یہ کوئی پہلی بار تو ہوا نہیں اگر آج قانون کی خلاف ورزی ہے تو اس سے پہلے روزانہ درجنوں گاڑیاں اسی حالت میں اوور لوڈ یہاں سے گزرتیں ہیں وہ کیا ہے؟اگر آپ واقعی قانون کی بات کرتے ہیں تو آپ کے سامنے سب کچھ ہوتا ہے آپ روکتے کیوں نہیں ۔اس کے جواب میں پولیس والے نے کہا کہ گاڑی کے اندر خواتین بیٹھی ہیں جو لوگ چھت پر سوار ہیں ان کے پاوں ان خواتین کے سروں پر ہوتے ہیں یہ خواتین یعنی ماں ،بہن کی توہین ہے ۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا یہ تو میرے سوال کا جواب نہیں میں نے تو کچھ اور پوچھا تھا ۔وہ بولا کہ غلطی آپ لوگوں کی ہے اگر آپ سوار نہ ہوں تو یہ نہ بیٹھائیں ۔میں نے کہا چچا آپ کو اچھی طرح پتہ ہے کہ اگر صبح سے شام تک یہ سواریاں نہ بیٹھے تو گاڑی والا گاڑی نہیں چلاتا یہاں پر تو گاڑی چلنے کی پہلی شرط ہی اوور لوڈنگ ہے پھر آپ کیسے کہتے ہیں کہ ہماری غلطی ہے ،ہم نے تو گھر پہنچنا ہوتا ہے کیا کریں اتنی دیر میں ڈرائیور واپس آگیا اپنی سیٹ پر بیٹھا میں نے پوچھا کہ کیا کیا وہ بولا کہ پولیس والوں نے مجھ سے افطاری کا نام لگا کہ 500روپے لئے میں نے دو،تین سو تک کہا ان سے مگر وہ نہیں مانے بلکہ دھمکی دی کہ اگر پیسے نہ دیے تو تھانے بند کر دیں گے۔پھر میں نے پانچ سو روپے دیے ۔

یہاں پر قانون سو ،دو سو،پانچ سو میں بکتا ہو وہاں پر میں یا کوئی اور کیا کر سکتا ہے یہ ایک دن کی بات نہیں یہ کوئی غلطی یا پہلی بار ایسا ہونے کی بات نہیں یہاں پر جب سے ٹریفک کا نظام چلا ہے تب سے قانون،رشوت،قانون کی خلاف ورزی سب کچھ ساتھ ساتھ چل رہا ہے صبح کے وقت نئی ٹیم ہوتی ہے شام کو نئی،یہاں پر قانون نافذ کرنے والے ادارے ٹریفک پولیس بھی اچھی طرح واقف ہے بلکہ سب کو ذاتی طور پر بھی جانتے ہیں اور ان کو یہ بھی پتہ ہے کہ یہاں پر آج تک کسی ایک دن یا ایک بار بھی ٹریفک اپنے اصول کے مطابق نہیں چلی بس جب ان پولیس والوں کو خرچہ ختم ہوتا ہے یا جب ان کو اپنے چلان کے ٹارگیٹ پورے کرنے ہوتے ہیں تو یہ راستے میں گات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں اور ہر گزرنے والی گاڑی چاہے وہ پک اپ ہو ،ٹیکسی ہو یا پھر کیری ان کا چلان کرتے ہیں ،کچھ پیسے لیتے ہیں ،سڑک پر جتنے پولیس والے کھڑے ہوں گے اتنے سو کے نوٹ جرمانہ ہوگا ان چلانوں ،یا جرمانوں کا مقصد ہر گز ،ہر گز یہ نہیں ہوتا کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے پر سزا دی گئی یا پھر قانون پر پابندی کروانے کے لئے ایسا کیا گیا ہے بلکہ یہ سب کچھ اپنی جیبیں بھرنے اور چلان کے ٹارگیٹ پورے کرنے کے لئے کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ نہ یہاں پر کوئی اصول لاگو ہوتا ہے نہ کوئی پالیسی نہ قانون بس چل سو چل ہے جس کو جب جہاں داو لگ گیا اس نے مٹھی گرم کی اور چل دیا یہ طریقہ کار یہ انداز کسی ایک روٹ پر ایک اڈے پر یا ایک سڑک پر نہیں بلکہ ضلع بھر میں یہی کچھ ہوتا ہے اور یہی طریقے کار چلتا ہے یہاں پر کسی قانون ،اصول،ضابطے کی بات کرنا،یا رشوت ،حرام حلال کی بات کرنا بھینس کے اگے بین بجانے کے برابر ہے یہاں پر اس طرح کے طریقے کار اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی یہ حرکات دیکھ کر یہ کہنا آسان بھی ہے اور مناسب بھی کہ ضابطے اور قانون کی بڑی بڑی کتابیں لکھنے والے پاگل تھے یا پھر وہ عقل سے خالی نکمے تھے جنہوں نے آپناوقت ضائع کیا۔یہ عوام،لوگ نام نہاد لیڈر ،قانون کی کرسی پر براجمان بڑے بڑے عہدیدار لاکھوں میں تنخوائیں ،مراعات لینے والے پتہ نہیں کس نظریے کے تحت کس اخلاقی جواز کے ساتھ خود کو با تہذیب، ترقی یافتہ دور کا مہذہب شہری کہتے ہیں ۔پتہ نہیں کن کاموں کی بنیاد پر خود کو قوم کا محافظ اور قانون کا رکھوالہ کہتے ہیں ،بے ضابطگیاں،بے اوصولیاں،قانون کی خلاف ورزیں جب ذریعہ معاش بن جائیں تو کون پاگل قانون کی بات کرے گا یا نافذ کرے گا مگر یہ بات تو سچ ہے کہ جس طرح انسان کا کردار ہوتا ہے اسی طرح معاشروں کا بھی کردار ہوتا ہے ،مہذہب قوموں کا بھی کردار ہوتا ہے جس طرح چھوٹی چھوٹی خوبیوں سے مل کر انسان کی شخصیت بنتی ہے اسی طرح مہذہب معاشروں اور قوموں کی بھی پہچان ہوتی ہے جسطر ح قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے اور اگر وہ قطرے گندے ہوں تو دریا بھی گندھا ہوگا اور اگر وہ قطرے صاف و شفاف ہو تو پانی بھی صاف ہوگا ،بالکل اسی طرح قانون، اصول،ضابطے،کی پابندی چھوٹی چھوٹی قانونی باتوں پر عمل کرنے سے ہی معا شرے میں ایک مہذہب قوم جنم لیتی ہے ایک بیمار جسم ،جسم تو کہلاتا ہے مگر وہ کسی کام کا نہیں بلکہ چارپائی پر بوجھ ہوتا ہے اسی طرح ہم قوم تو کہلاتے ہیں مگر حقیقت میں ہم اس دھرتی پر اس معاشرے پر ایک بوجھ ہیں،ہم نے خود کوخوش فہمی میں مبتلا کر رکھا ہے کہ ہم 21ویں صدی کے ترقی یافتہ انسان ہیں مگر حقیقت اس کے بر عکس ہے ہم جتنا پڑھ لکھ لیں،جتنی بڑی کرسی پر بیٹھ جائیں مراعاتیں لیں ہم اپنی تجوری تو بھر سکتے ہیں مگر من حیث القوم کبھی ترقی نہیں کر سکتے اب یہ اختیارقانون نافذ کرنے اور اس پر عمل کروانے والوں تک ہے کہ وہ خود کو بیمار معاشرے کا بیمار فرد بننا پسند کریں گے یا توانا،مظبوط اور صحت مند معاشرے کی مہذہب قوم ۔عوام تو بکریوں کے ریوڑ کی مانند ہیں جدھیر ہانکے ادھر چل دیے اصل زمہ دار تو قانون کے محافظ اور رکھوالے ہیں جو سو سو روپے میں قانون بیچ کر خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں۔۔

Iqbal Janjua
About the Author: Iqbal Janjua Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.