اقبال ندیم کا نیا قدم

اقبال ندیم سے ہماری ملاقات تو نہیں ہے تاہم ان کا غائبانہ تعارف جمشید ساحل کرا چکے ہیں۔ جسارت خیالی ان کے حلقہ احباب میں شامل ہیں۔ انہوں نے اقبال ندیم کی ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کا ادبی رنگ ہی اختیار کیا ہے۔ پروفیسر محمد اقبال (اقبال ندیم ) کاسوانحی تعارف میرے سامنے ہے۔ جس کو پڑھ کر مجھے آگاہی ملی کہ پروفیسر صاحب کا خاندان روحانیت اور مذہب سے وابستہ رہا ہے۔ وہ ملتان کینٹ میں پیدا ہوئے۔ ریلوے سکول ملتان سے ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔ آپ کے خالو خواجہ احمد علی قریشی دربار حضرت غوث بہاؤدین زکریا اور ان کے پوتے شاہ رکن عالم کے مہتمم مالیات تھے۔ پروفیسر اقبال ندیم اکثر اوقات خواجہ احمد علی قریشی کی انگلی تھام کر صبح سویرے دربار پر حاضری دیتے تھے اور نماز ادا کرتے تھے۔ پروفیسر صاحب نے اسلامیہ ہائی سکول ڈیرہ اسماعیل خان سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔ پشاور یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری امتیازی نمبروں سے حاصل کی۔ ویسٹ پاکستان بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن لاہور سے کامرس کا دو سالہ ڈپلومہ اٹھانوے فیصد نمبر لے کر حاصل کیا یہ ریکارڈ کوئی نہیں توڑ سکا۔ 1990ء کے دوران آپ نے قندھار افغانستان جاکر جہاد افغانستان کا مشاہدہ کیا۔ آپ کی شاعری کا آغاز بھی اسی دور میں ہوا۔ قیام پارہ چنار کے دوران آپ کی ملاقات حضرت عارف حسین الحسینی سے ہوئی۔ جو بعد میں دوستی میں تبدیل ہوگئی۔ دونون اتحاد عالم اسلام کے خواب دیکھا کرتے تھے۔ کوہاٹ میں قیام کے دوران پروفیسر اقبال ندیم کے روابط ریئر ایڈمرل خالد حامد ، کرنل ٹی ایم سرحدی، گروب کیپٹین پیر اکرم ، کرنل مہدی ریحان ، فلائٹ لیفٹیننٹ نوید شبلی، بریگیڈیئر مصطفیٰ گردیزی سے قائم ہوئے۔ جی ایچ کیو نے امجد اسلام امجد، محسن احسان، پریشان خٹک اور اقبال ندیم کو فوجی تقریبات میں شمولیت اور خطاب کا اعزاز بخشا جو کہ تاعمر ہوگا۔ اقبال ندیم کے پہلے افسانوی مجموعے سفر آرزو کی تقریب رونمائی آئی ایس ایس بی کوہاٹ نے کرائی جس کے مہمان خصوصی ایڈمرل خالد حامد تھے۔ آپ نے اپنے سات سالہ قیام کے دوران خضرت حاجی بہادر بابا کی روحانی مالا اپنے گلے میں پہنے رکھی۔ قیام کوہاٹ کے دوران آپ نے انجمن ترقی اردو کے تعاون سے رائیٹرز ایکویٹی کی بنیاد رکھی۔ پشاور میـں اس کے صدر مشتاق شباب تھے اور کوہاٹ میں آپ اس کے سربراہ تھے۔ آپ نے سرکاری ملازمت سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی۔ کوہاٹ سے ملتان منتقل ہوگئے۔ روزنامہ قومی آواز اور نوائے وقت میں لکھنا شروع کردیا اور ساتھ ہی ریڈیو پاکستان ملتان سے وابستہ ہوگئے۔ ملتان میں آپ کے دیرینہ دوست رضی الدین رضی اورشاکر حسین شاکر نے خوش آمدید کہا۔ اقبال ندیم نے ریڈیو ملتان کی طویل عرصہ تک چلنے والی ڈرامہ سیریل کہی ان کہی درجنوں ڈرامے لکھے جو بے حد مقبول ہوئے۔ ملتان میں پانچ سالہ قیام کے دوران آپ نے حضرت غوث بہاؤدین اور شاہ رکن عالم کین روحانی مالا اپنے گلے میں ڈالے رکھی۔ انیس سو بانوے میں ملتان میں آپ کے والد کا انتقال ہوگیا۔ آپ والدہ کے حکم پر واپس ڈیرہ اسماعیل خان منتقل ہوگئے۔ بطور کالم نگار آپ کا شمار کے پی کے کے معروف کالم نگاروں میں ہوتا ہے۔ صوبائی حکومت نے آپ کو سال2012ء کا بہترین شاعر اور کالم نگار قرار دیا ہے۔ پریس کلب ڈیرہ اسماعیل خان میں صوبائی وزیر محنت شیر اعظم وزیر نے آپ کو ایوارڈ دیا۔ قیام بھکر کے دوران وہاں کے تمام حفاظ کرام ، مجذوبوں اور درویشوں سے آپ کی دوستی تھی۔ہر جمعہ شریف کے دن ریلوے اسٹیشن بھکر کے ویٹینگ روم میں یہ سب حضرات اکٹھے ہوتے تھے۔ وہاں باری باری قرآنی سورتوں کی تلاوت کی جاتی تھی۔ اﷲ ہو کی محفل سجتی تھی۔ اسٹیشن کی چائے اور پکوڑے کھانے کے بعد یہ محفل برخاست ہو جاتی تھی۔ پرویزمشرف نے سامراجی مفادات کے تحفظ کیلئے روشن خیالی پر بڑا زور دیا۔ اقبال ندیم کہتے ہیں وہ کیسی روشن خیالی ہے جو بے غیرتی اور بے شرمی کو چھو لے۔ ذہنی غلامی جسمانی غلامی سے بد تر ہوتی ہے۔ یہ کیسی روشن خیالی ہے جو سات سمندر پار سے آنے والے جارحیت پسندظالموں کیلئے اپنی باہیں کھولے۔ انہیں خوش آمدید کہے۔ یہ جرم ضعیفی تو ہے جسے روشن خیالی کا خوشنما نام دے دیا گیا ہے۔ پرویز مشرف کے لاکھوں ہم خیال اس خام خیالی میں مبتلا ہیں ۔ یہ سب منافقین ہیں۔ خورشید ربانی ان کے افسانوی مجموعہ برگ آوارہ ایک جائزہ کے مضمون میں لکھتے ہیں کہ اقبال ندیم اپنے افسانوں میں براہ رست ابلاغ کی تکنیک استعمال کرتے ہیں۔ نروان، کنفیوژن، بوکاٹا، منبت صحرا، برگ آوارہ تمام کے تمام معاشرتی تصادم اور اقدار کی شکست وریخت پر محیط ہیں۔ دبستان تنقید کے حوالے سے بھی اقبال ندیم نے چند افسانے لکھے ہیں۔ جن میں شخص و عکس کا رشتہ بڑی خوش اسلوبی سے سلجھتا دکھائی دیتا ہے۔مثال کے طورپر گل چہرہ وغیرہ۔ اقبال ندیم اپنے وقت اور ماحول کا منفرد فنکار ہے۔ اس نے افسانے کو اس کے صحیـح خدوخال کے ساتھ مقبول صنف ادب بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ وہ آج بھی خوب سے خوب تر کی تلاش میں نئی راہیں نکال رہا ہے۔ ریڈیو ڈرامے سے اقبال ندیم کا گہرا تعلق ہے آپ نے ریڈیو پاکستان ملتان اور ڈیرہم اسماعیل خان کیلئے کافی تعداد میں خوبصورت ڈرامے تخلیق کیے۔ وہ قاری کی توجہ ہٹنے نہیں دیتے ۔ کہانی کو اپنے منطقی انجام پر پہنچا کر قاری کو مطمئن کرتے ہیں۔ اقبال ندیم نے اردگرد کے ماحول اور فطرت کو اپنے افسانوں میں خوبصورتی سے سمویاہے۔ انسانی معاشرہ کے ساتھ ساتھ وائلڈ لائف کی پر اسرار دنیا کے بارے میں اس کے ہاں چونکا دینے والے حقائق ملتے ہیں۔اقبال ندیم ایک اہم افسانہ نگار ہے۔ ان کے افسانے اردو ادب کے وقار میں اضافہ کا سبب ہوں گے۔ عبداﷲ نظامی امیر کبیر دانشور، شاعر اور افسانہ نگار ، اقبال ندیم کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ پروفیسراقبال ندیم کی شاعری بیشمار آورشی پیغامات سے مزین ہے۔ اس کی شاعری میں فکر فردا بھی ہے اور حال کا پیغام اور اپنے ماضی سے جڑت بھی۔ اس کی شاعری میں میٹھا میٹھا درد بھی ہے ۔ اور احساس جدائی بھی۔ اقبال ندیم کہیں فلسفیانہ اندازمیں بات کرتا ہے کہیں اس کا لہجہ درد بھرا ہوجاتا ہے۔ اور کہیں آس امید سے لبریز۔ بطور صوفی اقبال ندیم کی شاعری میں محبت کا پیغام اور محبت کا عنصر بجا طور پر ملتا ہے۔ لیکن ان کے کلام میں اڑتے ہوئے آنچل کی سرسراہٹ، سرمتی شباب، تبسم کی دلنوازی ، ہجرووصال کی گھاتوں کی بجائے امید ، روشنی ، رجائیت کے موسموں کی دل آویزی ملتی ہے۔ وہ تمام مسائل کا حل سکون قلب میں تلاشتے ہیں۔ اور سکون صرف ذات واحد کے ذکر سے ملتا ہے۔ اقبال ندیم اپنے تمام دکھوں کو اس محبوب ذات کے سپرد کر دیتے ہیں۔ وہ ادھر ادھر بھٹکنے کی بجائے، کسی ازم میں پناہ لینے کی بجائے اس سے اپنا ناطہ جوڑ لیتے ہیں جو بہت حسین و جمیل ہے۔ جسے زوال نہیں۔ ڈاکٹر سید قاسم جلال اپنی تحریر پروفیسر اقبال ندیم کی نثری و شعری ، تخلیقی جہات میں لکھتے ہیں کہ اقبال ندیم اگر چہ کلاسیکی اور جدید افسانے کی تکنیک سے بخوبی واقف ہیں لیکن انہوں نے دونوں کو ان کے مروج انداز میں اپنانے کی بجائے اپنا طرز فکر اور طرز اظہار نیا وضع کیا ہے۔ وہ بظاران دونوں کے ہم سفر نظر آتے ہیں۔ لیکن ان کی انفرادیت فکر ایک اور ہی راستے کی نشاندہی کرتی ہے۔ وہ خوب جانتے ہیں دنیا ہو یا عقبہ آخری جائے امان صرف بارگاہ خدا وندی ہے۔ اور رضائے الٰہی ہی دراصل ہرانسان کی منزل مقصود ہے۔ جسے اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کی رحمت کے خزانے مل جائیں وہ تہی دامن ہو کر بھی تہی دامن نہیں رہتا۔ خانوادہ رسول صلی اﷲ علیہ و الہ وسلم کی محبت اقبال ندیم کا جزو ایمان ہے۔ حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ اور اہل بیت کو انہوں نے شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کرکے واضح کیا ہے کہ ان کا مرکز فکر وعمل صرف وہ عظیم ہستیاں ہیں جن کا مقصد حیات صرف دین کی سربلندی رہا۔ صراط مستقیم کا مسافر حقیقت کبریٰ کی منزل پانے کیلئے سراپا جستجو بن جاتا ہے۔ اس کے دل میں جنون شوق ایک آگ سی لگا دیتا ہے۔ جب وہ اپنی ذات کے نہاں خانے میں جھانکتا ہے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے وہ جسے چار سو ڈھونڈتا پھرتا ہے وہ اسی کے اندر جلوہ فشاں ہے۔ اقبال ندیم کی افسانہ نگاری و شاعری ۔ ایک تجزیہ کے مضمون میں دردانہ نوشین کے الفاظ کچھ یوں لکھے ہوئے ہیں ۔ وہ یقیناً تاریخ ادب کی مدلل موثر تعریف بھی کھوجتے اور لکھتے ہیں۔ کیوں نہ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہو ادبی مورخ کوئی علیحدہ منصب نہیں ۔ یہی تاریخ ادب ہے جو لکھنے والوں کے قلم سے چھپ رہی ہے۔ یہی ادبی مورخ ہیں جو نثرونظم کے سانچوں سے اشکال نکال رہے ہیں۔ اقبال ندیم کا محبوب جس روپ میں آئے پہچانا جاتا ہے۔ رنگین چلمنوں کی اوٹ سے دیدار حق جلوہ گر ہے۔ کیونکہ اقبال ندیم کی محبت کی حتمی سرحد متعین ہے وہ بھٹکنے سے پہلے ہی اپنا راستہ پہچان لیتا ہے۔ حمد ، نعت ، استغاثہ ، سلام کا تو کیا مذکور اقبال ندیم کی تو غزلیات قطعات ، ہائیکو ، اور نظموں کے یہی رنگ ڈھنگ ہیں۔ وہ نئے امکانات کی تلاش میں وقت نہیں گنواتا کیونکہ امکانات و واقعات کا ترتیب کا راس کی رگ جان میں بستا ہے تو بے بہبود مقصود کی تلاش میں تھکنا کیا۔ اقبال ندیم کے ہاں عورت نہ صرف ظاہر میں باپردہ، بالباس ، مہذب ، عمدہ تربیت یافتہ ہے۔ وہ باطن میں نیک نیت ، پاک سیرت، وفادار ہے۔ دراصل یہاں قلمکار کی آغوش مادر سے تربیت ، نسائی احترام کا پختون ماحول، اور فطری نیک طینت کے عوامل کو نہیں بھلانا چاہیے۔ خوبصورت عورت صرف آنکھوں کو بھاتی ہے۔ لیکن خوب سیرت اور خوش خلق عورت دل میں گھر کر لیتی ہے۔ کہا جا سکتا ہے یہ اقبال ندیم کی باطنی شکتی، روحانی پاکیزگی ہے جس نے انہیں ایک مردانہ حاوی معاشرے میں حاصل شدہ وسیع اختیارات سے لطف اندوز ہونے اور ہوانے کی بجائے مرد کو کالر سے پکڑ کر کٹہرے میں کھڑا کر دینے میں طمانیت دی ہے۔ ڈاکٹر یحیٰ احمد نے ان کی کتاب آئینہ تاریخ پر لکھا ہے کہ اس کتاب میں پانچ سرائیکی اضلاع ٹانک ، ڈیرہ اسماعیل خان، میانوالی، بھکر اور لیہ کی تاریخ کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی ، سماجی، اور ادبی نامور شخصیات کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ انہوں نے اپنے قلم کے ذریعے محبتیں بانٹی ہیں۔ محمد اقبال ندیم اردو ادب کا ایک بڑا نام کے عنوان کے تحت نجف علی شاہ لکھتے ہیں کہ اقبال ندیم کی وجدانی شخصیت کا اظہار کئی اصناف میں ہوتا ہے۔ مثلاً قطعہ، نظم، غزل، افسانہ اور ڈرامہ اور کالم وغیرہ۔ انہوں نے ہر صنف سخن کے تقاضوں کی تکمیل کا حق ادا کرنے میں عبادات گزارانہ خلوص کا مظاہرہ کیا۔ ان کی شاعری میں ہجر کے میٹھے درد کی آمیزش کے ساتھ ساتھ زمانے کی تلخیاں بھی شامل ہیں۔ مختلف روزناموں میں اقبال ندیم کے قطعات شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ان میں وہ ملکی و غیر ملکی واقعات کے تناظر میں چار مصرعوں میں مکمل اور بھر پور بات کر جاتے ہیں۔ جس میں گہرے طنز کے نشتر چھپے ہوتے ہیں۔ رضا ہمدانی نے لکھا ہے کہ سفرآرزو کی تحریریں انسان دوستی پر مبنی ہیں۔ رضی الدین رضی برگ سبز از تحفہ درویش کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ اقبال ندیم ایک محبت کرنے والا انسان ہے۔ وہ آپ کا دوست ہی ہے اس کی دوستی کسی مفاد کے تابع نہیں۔ ڈاکٹر مزمل حسین لکھتے ہیں کہ اقبال ندیم ’’اس‘‘ سے کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ وہ کھلی آنکھ سے دیکھتا ہے ہم کلام ہوتا ہے۔ مظاہر فطرت میں وہ اسے ڈھونڈ لیتا ہے۔شبیر ناقد اپنے مضمون پروفیسر اقبال ندیم حقیقی زندگی کا ترجمان افسانہ نگار میں لکھتے ہیں کہ اقبال ندیم فن افسانہ نگاری کا گہرا ادراک رکھتے ہیں۔ زبان اور بیان کے حوالے سے بھی ایک قادرالکلامی پائی جاتی ہے۔ ان کے افسانے میں آغاز تا انجام کہیں بھی دلچسپی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹتا۔ اقبال حسین اقبال ندیم شخصیت اور فن کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ اقبال ندیم کا سفر زندگی بہت حد تک آدم علیہ السلام سے ملتا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری اور افسانے کو مقصدیت سے داغدار نہیں ہونے دیا۔ہر حال میں اپنے اسلوب کو نمایاں رکھا ہے۔ سید محمد علی بخاری اقبال ندیم کے افسانے میں لکھتے ہیں اقبال ندیم کے ہاں کہانی پن بھی ہے اور ایک رواں اسلوب بھی۔ ان کے افسانے روایت وجدت کے امتزاج سے ابھرتے ہیں۔ ڈاکٹر شاہد حسن رضوی چیئرمین بہاولپور یونیورسٹی اپنے آرٹیکل برگ آوارہ ․․․․اقبال ندیم کی احساس آگیں کہانیاں میں لکھتے ہیں کہ اقبال ندیم کہانیوں کے کرداروں کے چناؤ میں زمینی حقائق کو مدنظر رکھنے کا قائل ہے۔ اس کے کردار معاشرے سے کٹے نہیں ہوتے بلکہ معاشرے میں گھلے ملے عام انسان ہوتے ہیں۔ اقبال ندیم کے افسانوں میں غم دوراں کے ساتھ ساتھ غم جاناں بھی جذبوں کے پورے جوبن کے ساتھ موجود ہے۔جمشید ساحل نے اپنے مضمون ناتما مسافتوں کا مسافر۔۔۔۔پروفیسر اقبال ندیم میں اقبال ندیم کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کا احوال لکھا ہے وہ مزید لکھتے ہیں کہ عام ملاقاتوں میں اقبال ندیم ایک درویش منش فقیر انسان ہیں وہ دوستوں کی محفل میں اپنی علمیت کا رعب نہیں جھاڑتے۔ دوستوں کے بیچ میں بیٹھ کروہ خوب ہنستے بھی ہیں اور ہنساتے بھی ہیں۔ ہاں اگر ان کے علم کا اندازہ کرنا ہو تو ان کی تحریروں کو پڑھنا ضروری ہے۔ اقبال ندیم کی تعریف میں سلیم اختر ندیم کی نظم بھی میرے سامنے ہے۔ اقبال ندیم نے اپنے مضمون محبت کا اسم اعظم میں مولوی اور صوفی کا فرق بتا یا ہے ۔دراصل انہوں نے دونوں کی ذمہ داریوں کو اجاگر کیا ہے۔ اقبال ندیم کی عشق و مستی میں ڈوبی شاعری کے عنوان کے تحت جسارت خیالی لکھتے ہیں کہ پروفیسر اقبال ندیم کثیرالجہات شخصیت ہیں۔ وہ اردو، فارسی، عربی، انگریزی، سرائیکی اور پشتو ادب کا گہرا مطالعہ رکھتے ہیں۔ دیگر صوفیاء کی طرح نفی ذات کے قائل ہیں۔ جو کل میں ضم ہو کر حیات جاوداں چاہتے ہیں۔ لیکن ان کے ہاں وجودیت بھی پہلو بہ پہلو چلتی ہے۔ پروفیسر اقبال ندیم عالمی استعماری طاقتوں کے جمہور دشمن قوانین سے نفرت کرتے ہیں۔ اور ان کے کالے کرتوتوں کوظاہر کرکے انسان دوستی کا ثبوت دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک ازل سے مفاداتی سیاست نے انسانی برادری کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ گروپ کیپٹن پیر اکرم لکھتے ہیں کہ اقبال ندیم کے پیرایہ اظہار میں فرسودگی کی بجائے تسلسل ہے۔ ثبات ہے۔ محبت اور پیار اس کی اساس ہے۔ فضل احمد پیامی نے بھی ان کو اپنے الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ نیرانی شفق نے اپنے مضمون اقبال ندیم ۔۔جدیدیت اور روایت سے جڑا ایک افسانہ نگار میں لکھا ہے کہ اقبال ندیم نے خوبصورت موضوعات کا انتخاب کرکے اپنی کہانیوں کو ایسا رنگ ایسا حسن عطا کیا ہے جو قاری پر سحر طاری کر دیتا ہے۔ اقبال ندیم کے افسانوں کا اسلوب، کردار اورمکالمے جاندار ہیں۔ ابوالمعظم ترابی، علی عمران ممتاز اور سید محمد کلیم شاہ بھی اپنے اپنے الفاظ میں اقبال ندیم کی تعریف کرتے ہیں۔ یہ سب باتیں یہ سب تجزیے اور تبصرے سہ ماہی نیا قدم کے اقبال ندیم نمبر میں لکھے ہوئے ہیں۔ جس کے مدیر جسارت خیالی ہیں ۔ ان کا تعلق ضلع لیہ کے دور افتادہ قصبہ پہاڑ پور سے ہے۔ انہوں نے اقبال ندیم کی علمی ادبی اور روحانی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے اپنے سہ ماہی مجلہ نیا قدم کا اقبال ندیم نمبر شائع کیا ہے۔ اس میں اقبال ندیم کے منتخب افسانے بھی شامل ہیں۔ جن خوشبو، امر پریم، بوکاٹا، بنت صحرا، سفر آرزو آشیانہ شامل ہیں۔ اس میں ان کے اخباری قطعات بھی شامل ہیں ایک قطعہ یہ ہے
میں ثبت ہوں رخِ عالم پہ اس دوام کے ساتھ
یہ کائنات منسوب ہے میرے نام کے ساتھ
مجھے تو بھیجا گیا ہے میں خود نہیں آیا
مجھے قبول کرو تم بھی اہتمام کے ساتھ
ان کی شاعری بھی اس مجلہ کا حصہ ہے جس میں سے چند اشعار آپ بھی پڑھ لیں
بڑی ہی پردہ پوشی سے یہاں ایمان بکتے ہیں
لگاؤ گے ڈالر تو یاں انسان بکتے ہیں۔
کبھی برسے ممبرپر کبھی گرجے ہیں جلسوں میں
جناب شیخ کا جاہ وحشم یوں بھی ہے اور یوں بھی
کون ہے جس کو اگر مل جائے وہ کھاتا نہیں
اس لئے میں بھی کرپشن کرکے شرماتا نہیں

اس کے علاوہ سرمد امروز سمیت ان کی نظمیں اور غزلیں نیا قدم کی اس اشاعت میں شامل ہیں۔ جیسا کہ آپ پڑھ آئے ہیں کہ اقبال ندیم سے ہماری ملاقات نہیں ہے۔ جمشید ساحل نے ان کا غائبانہ تعارف کرایا۔ اب نیا قدم کے اقبال ندیم نمبر کو پڑھ کر ان کی شخصیت کے بارے میں کافی آگاہی ملی ہے۔ ان کے خیالات اور ہمارے خیالات یکساں ہیں۔ ان کا انداز بیاں اور ہے اور ہمارا اور۔ ان کے اور ہمارے نظریات بھی ملتے جلتے ہیں۔ ہمیں ادیب تو دور کی بات ہے رائٹر تسلیم کرنے پر بھی ابھی تک کوئی تیار نہیں اگرچہ بارہ سال ہو گئے ہیں لکھتے ہوئے کہتے ہیں یہ کسیے لکھ لیتا ہے۔ اس لیے انہی الفاظ پر اپنی تحریر کا اختتام کرتا ہوں کہ
اقبال کے پاس اقبال رہے
دور اس سے زوال رہے

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 350996 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.