قوموں کی زندگی میں کچھ ایسے دن بھی ہوتے ہیں کہ جن کو
تاریخ نے ہمیشہ تازہ (زندہ) رکھا ہوتاہے۔یہ دن ایسے ہوتے ہیں جن کے سامنے
بقیہ پروگرامزہیچ ہوتے ہیں۔ماہِ اگست کی شروعات ہوتے ہی پاکستانیوں کے لئے
جس اہم دن کاانتظارہوتاہے وہ Celebration Dayیعنی 14؍اگست ۔ہر سال ہم سب
اپنے آزادی کا دن بہت تپاک سے مناتے ہیں اور کیوں نہ منائیں یہ دن ایسا دن
ہے جو ہمیشہ یادرکھاجانے والاہے۔آزادی حاصل کرنایعنی کہ اس معرکے کو سَر
کرناکوئی معمولی واقعہ نہیں تھایہ ایک ایساکارنامہ تھا جو ہر لحاظ سے نا
ممکن تھالیکن ایک قوم کے عزم اور یقینِ محکم نے ایک پُر خلوص قیادت کے زیرِ
اثراس خواب کو حقیقت سے آشناکرایا۔یہی وہ دن ہے جس نے پاکستانی تشخص کو
اُجاگرکیااور اسی دن کی بدولت اقوامِ عالم نے پاکستان کی آزادحیثیت کوتسلیم
بھی کیاہے۔عرضِ پاکستان کی بنیادمہاجرین کی بے لوث اور بے مثال قربانیوں پر
رکھی گئی ہے۔ ہماری یہ آزادی کی تاریخ بہت طویل ‘ صبر آزما‘ اور عظیم ترین
جد و جہد کے نتیجے میں ملا ہے۔ ہمیں یہ آزادی نہ تو انگریزوں نے کسی طشتری
میں سجا کر تحفے میں دی ہے اور نہ ہی ہندوستان میں بسنے والی غیر مسلموں نے
ہمیں بخشش کے طور پر گفٹ کی ہے۔ یہ برصغیر کے مسلمانوں نے بڑی تگ و دو ‘
ہمت ‘ اور بڑے پُر عزم جد وجہد کے نتیجے میں حاصل کی ہے۔ آگ و خون کے دریا
پار کرکے منزلِ مراد تک پہنچا گیا ہے۔ اس آزادی کی داستان میں ہزاروں نہیں
بلکہ لاکھوں مسلمانوں کی خونچکاں داستان بھی شامل ہے۔قائد اعظم محمد علی
جناح ؒ کی بے لوث اور سخت محنت کی بدولت میرے عرضِ وطن کا وجودعمل میں
آیا۔حصولِ پاکستان میں کس قدر محنت‘ جد و جہد ‘ اور عملِ پیہم کیا گیا وہ
سارا عالم جانتا ہے ۔ پاکستانی قوم پورے حقوق کے ساتھ آزادی کی نعمت سے
سرفراز ہے۔ اور دنیا بھر میں ہم ایک نئی مملکت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔
اور یہ آزادی ہمیں قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی دانش و بصیرت ‘ علامہ محمد
اقبال ؒ کا تفکر کی بدولت حاصل ہوئی۔قوم کی آزادی کی خوشی میں انٹر نیٹ کا
مشہور سرچ انجن گوگل پاکستان بھی گرین ہو گیا ہے۔ چودہ اگست پر اپنے صارفین
کی خوشیوں میں شرکت کرتے ہوئے ان کو محفوظ کرنے کے لئے گوگل نے نے اپنے
گوگل کا لینڈنگ پیج ہی گرین کر دیا ہے۔ صرف یہی نہیں پاکستان کے جھنڈے پر
بنا چاند ستارہ اور لاہور کی یادگار مینارِ پاکستان بھی مسکرا رہا ہے۔ اور
یہ سلسلہ بھی پاکستانیوں نے شروع کیا جنہوں نے گذشتہ دسمبر سے یہ مہم چلائی
کہ گوگل پاکستان کی سالگرہ منائے، جس کے لئے گوگل میپ پر رسائی حاصل کی گئی
یوں پاکستانیوں نے اپنی شناخت ظاہر کی ہے۔
کاش کہ ہم سب اسی طرح مل جل کر رہیں جس طرح کی یکجہتی اور ملن ساری 1947ء
میں تھی۔جب ہم سب بھائی بھائی بن کر زبان کی قید سے آزاد ہو کر ایک دوسرے
کے دُکھ درد میں شریک رہتے تھے، علاقے اور شہر کے فرق کو بالائے طاق رکھ کر
سب پاکستانی بن کر رہا کرتے تھے، مگر آج ہم سب اُن تمام ملن ساری کو بھول
کر ایک دوسرے کا ناحق خون بہا رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے املاک کو ہی نقصان
پہنچا رہے ہیں۔ ایک قوم بننے کے قائد اعظم کے اصولوں کو بھول کر آپسی تفرقے
میں الجھے ہوئے ہیں۔ ایسے میں مجھے علامہ اقبال ؒ کا یہ شعر یاد آگیا کہ:
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
بے باکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن
ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں قرآن کا مومن
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
آزادی کے جد و جہد میں کامیابی حاصل کرنے میں اہم عنصر بکھرے ہوئے شیرازے
کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ہوتا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح جب
انگلستان سے واپس آئے تو اپنی پٹی پسری بکھری قوم کو ایک جھنڈے تلے متحد
کرنے کا فریضہ سنبھالا۔ علامہ محمد اقبال ؒ نے اس سلسلے میں تمام دشوار
راہیں ہموار کرنے میں ان کے شانہ بشانہ کردار ادا کیا۔ 14؍اگست 1947ء تاریخِ
انسانیت میں انہونی دن ہے اس سے پیشتر اور اس کے بعد انہونی ہونے کے دن
انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ یہ دن انسانی نظریہ کی تخلیق کے اظہار کا دن
شمار کیا جاتا ہے اس زمین کے خطے پر صدیوں سے ظریاتی تنکا تنکا جمع کرکے
نظریاتی انسان نے اس دن اپن گھر مکمل کیا۔ جس گھر میں ہم سب اپنے عظیم
نظریہ کے مطابق اپنی آئندہ کی زندگی آزادانہ طور پر گزارنے کا تہیّا کر
رکھا ہے۔ ان گنت تاریک ماہ و سال اور شب اسی سحر کے طلوع اور آزادی سے
روشناس ہونے میں سرگرداں رہ کر آزادی حاصل ہوئی۔ مگر آج ہم سب اسے صرف ایک
سرکاری تعطیل سمجھ کر منایا کرتے ہیں۔ وہ جذبہ نہ جانے کہاں ناپید ہو چکا
ہے جو اُس وقت موجود تھا۔ اسے غفلت نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟ہمارے لئے یہ
بہت بڑا المیہ ہے کہ ہماری موجودہ نوجوان نسل اس دو قومی نظریہ اور اس
آزادی سے عاری اور بے خبر ہو چکے ہیں۔ خدا ہم سب کو صحیح راستہ چننے میں
اپنی مدد و نصرت عطا فرمائے۔
پاکستان ہمارا پیارا اور جنت نظیر ملک ہے۔ اس کو حاصل کرنے کے لئے ہمارے
بزرگوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ اسی لئے اس اہم دن کو ہم سب بڑے جوش و جذبے
سے مناتے ہیں۔ ہم نے یہ ملک اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لئے
حاصل کیا ہے۔ اس لازوال کامیابی کی خوشی میں ہم ہر سال 14؍اگست کو تمام دن
خاص تقریبات منعقد کرتے ہیں ۔ اپنے بزرگوں کی کوششوں کی یاد کو تازہ کرنے
کے لئے تقریری مقابلہ کرواتے ہیں، جنہوں نے عظیم قربانیاں دے کر ہمارے لئے
یہ وطن بنایا۔ اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں خاص قومی پروگرامز ترتیب
دیئے جاتے ہیں۔ ملی نغمے اور قومی ترانہ گائے جاتے ہیں۔ گھروں میں قومی
پرچم لہرائے جاتے ہیں۔ ہم اس عہد کو دہراتے ہیں کہ وطنِ عزیز کی خاطر تن من
دھن سب کچھ قربان کر دیں گے۔ اس کا نام روشن کریں گے اور اس کی ترقی کے لئے
ہمیشہ صدقِ دل سے کوشش کریں گے۔ ہاں مگر! یہ سب کچھ دل سے ہونا چاہیئے صرف
رسمی دن کے طور پر نہیں بلکہ اس دن کو اُسی ملی جذبے کے ساتھ منانا
چاہیئے۔اختتامِ کلام بس اتنا کہ:
کہاں بدلی ہیں تقدریں ہماری
ملی ہے کب غلامی سے رہائی
مسلط ہے وہی مرضی پرائی
وطن آدھا وڈیرے کھا گئے ہیں
یہ دولت کی ہوس یہ جاگیرداری
ہیں دونوں لعنتیں دشمن ہماری
یہ دونوں لعنتیں جب تک رہیں گی
جہاں میں ندیاں خوں کی بہیں گی |