شادی کی کامیابی اور ناکامی

جرمنی کے ایک گاؤں میں ایک قدیم رسم اب بھی جاری ہے کہ شادی کرنے والے جوڑے کی شادی سے پہلے
آزمائش کی جاتی ہے کہ آیا وہ شادی کی زندگی بسر کرنے کے قابل ہیں یا نہیں- اس بابت شادی کی رسوم انجام دینے سے قبل دولہا اور دلہن کو ایک میدان میں لایا جاتا ہے جہاں ایک درخت ہوتا ہے جس کا اوپر کا حصہ کٹا ہوتا ہے- دولہا اور دلہن دونوں کو آرا دیا جاتا ہے اور درخت کی پیڑ کو کاٹنے کا کہا جاتا ہے- اس آزمائش کے ذریعے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ دونوں دولہا اور دلہن آپس میں تعاون کرنے کے لیے کہاں تک آمادہ ہیں- یہ کام چونکہ دونوں کو مل کر انجام دینا پڑتا ہے اس لیے اگر ایک کو دوسرے پر بھروسہ نہ ہو تو یہ ہاتھ تو ہلاتے رہیں گے لیکن درخت کی پیڑ کاٹ نہیں سکتے- اگر ان میں سے ایک ابتدا کر کے خود کاٹنا شروع کرتا ہے اور دوسرا زور نہیں لگاتا تو کام زیادہ وقت میں ختم ہوتا ہے- جرمنی کے ان گاؤں والوں نے معلوم کر لیا ہے کہ کامیاب شادی کے لیے تعاون کی صلاحیت خاص شرط ہوتی ہے-

شادی کی کامیابی کی پہلی شرط باہمی تعاون ہوتی ہے- شادی کا مقصد ایک ایسی بنیاد مہیا کرنا ہوتا ہے جسکی مضبوطی کے سہارے زندگی آگے بڑھتی ہے- یہ بنیاد ازدواجی رشتے میں مربوط دو ساتھیوں کے باہمی تعاون سے استوار ہوتی ہے اور یہ بنیاد محض دوسرے سے زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے ہی کے لیے نہیں رکھی جاتی بلکہ دوسرے کو بہت کچھ دینے کے لیے بھی رکھی جاتی ہے- حقیقی کامیاب شادی وہی ہوتی ہے جو سالہا سال گزرنے کے بعد بھی روزِ اول جیسی دکھائی دے اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب دونوں ساتھی ایک دوسرے کا احترام کریں- بدقسمتی سے ہمارے معاشرہ میں لوگ عام طور سے تعاون کے لیے تیار نہیں کیے جاتے- ہماری تعلیم اور تربیت ایسی ہے کہ جو انسان کو اپنی تنہا کامیابی کے لئے تیار کرتی ہے اور ہمیں زندگی میں سب کچھ اس لیے حاصل کرنا اور دوسروں کو کچھ نہ دینا سکھاتی ہے- جبکہ شادی ایک ایسی مہم ہے جس میں باہمی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ مقابلہ بازی کی-

ہمارے معاشرہ میں دو قسم کی شادیاں عام ہیں، پہلی خاندان یا برادری کے اندر جبکہ دوسری قسم خاندان سے باہر شادی کرنا جسے پنجابی زبان میں ‘اوبھڑ رشتہ‘ بھی کہا جاتا ہے-

لڑکا اور لڑکی جس قدر ایک دوسرے کے ہم خیال ہوں، جس قدر ان کے خاندان اور حالات ایک دوسرے کے قریب اور متوازی ہوں، ان کی آرزوئیں اور خواب آپس میں زیادہ رکھتے ہیں تو شادی کے بعد ان کی ازدواجی زندگی بڑے پُرمسرت طریقے سے گزرتی ہے اور اختلاف کے بہت کم مواقع آتے ہیں- یہ سب خصوصیات خاندان برادری کے اندر شادی کرنے میں ملتی ہیں- خاندان برادری کے رشتے پسندیدہ رہے ہیں اور اس ادارہ میں شادیاں اکثر و بیشتر کامیاب رہتی ہیں- نیز خاندان میں شادی کرنے سے لڑکی کو بھی ایڈجسٹمنٹ کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا نہیں پڑتا، وہ اپنے خاوند کے گھر قدم رکھتی ہے تو اسے اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا، جانے پہچانے ماحول میں آ کر وہ کچھ اس طرح گُھل مل جاتی ہے کہ گھر والے اسے پرائی بیٹی نہیں سمجھتے-

برعکس اس کے خاندان سے باہر شادی کا رحجان بڑھ رہا ہے اور طبی طور پر بھی اس کے کافی فوائد ہیں کہ وراثتاً آنے والی بیماریوں کا خاتمہ ہوتا ہے- لیکن فیملی سے باہر شادی کے نقصانات بھی کافی ہیں اور کافی حد تک اسکی کامیابی ‘معجزہ‘ ہی کہلاتی ہے- اس قسم کی شادی میں لڑکی جب اپنے خاوند کے گھر آتی ہے تو کُلی طور پر اجنبیت کا احساس و ماحول اسکا سواگت کرتا ہے اور اسکو وہاں کے ماحول میں بیٹھنے کے لئے کافی جدوجہد بھی کرنی پڑتی ہے اور بعض دفعہ تو اپنی ‘سیلف‘ کو بھی قربان کرنا پڑتا ہے- ظاہر ہے کہ لڑکی چونکہ ایک نئے ماحول میں آتی ہے، ایڈجسٹمنٹ کرنا بھی اسی کی ذمہ داری ہوتی ہے نہ کہ لڑکے والے اپنے گھر میں لڑکی کے ماحول کو لاگو کریں گے اور یہ بات ‘جمہوری‘ لحاظ سے بھی درست ہے-

نئی نئی شادی میں رخنہ پڑنے، اسکی ناکامی، اس میں روڑے اٹکنے کی وجوہات تو بہت سی ہیں لیکن یہاں پر چند چیدہ وجوہات کو بیان کیا جائے گا- سب سے پہلی اور بڑی وجہ ‘غلط فہمی‘ ہے- ہوتا کچھ یوں ہے کہ بغیر سوچے سمجھے، غوروفکر کیے بغیر چھوٹی چھوٹی باتوں کو سنجیدگی سے لے لیا جاتا ہے، مزاح میں کہی ہوئی بات کو سنجیدگی سے لے لیا جاتا ہے اور سنجیدگی سے کہی ہوئی بات کو مزاح میں لے کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے- کسی بات کو کئی ‘موڈز‘ سے کہا جاتا ہے، غصہ سے، مذاق سے، سنجیدگی سے، ہنسی مزاح کے لئے، ماحول کو خوشگوار بنانے کے لیے وغیرہ وغیرہ- لیکن عموما ً لڑکا جب کہ خصوصاً لڑکی اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہتی ہے اور اپنی ناتجربہ کاری، کم عقلی، لاعلمی اور جذباتی پن کی وجہ سے یا احساسِ برتری کی برقراری کے لیے خاوند سے ہونے والی باتیں جا کر اپنے گھر والوں کو بتا ڈالتی ہے جس سے دونوں خاندانوں میں دوری کے جراثیم در کرنا شروع ہو جاتے ہیں- اس صورتحال سے بچنے کا صرف ایک ہی ‘نسخہ کیمیا‘ ہے کہ لڑکی اور لڑکا دونوں عہد کریں کہ وہ آپس کی باتیں کسی تیسرے فریق کو نہیں بتائیں گے-

شادی میں دگرگوں حالات پیدا ہونے کی دوسری وجہ ‘مَیں‘ ہوتی ہے- شوہر چاہتا ہے کہ بیوی اسکی ہمیشہ نگرانی اور خدمت کرے اور بیوی چاہتی ہے کہ شوہر ہمیشہ اس کے ناز نخرے اٹھائے اور اس کے ارد گرد ‘بھمبھیری‘ بن کر گھومتا رہے اور اس کی خدمت کرتا رہے- بالفاظ دیگر ‘زن مریدی‘ کا عملی ثبوت بہم دے- بیوی کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ ‘اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘- اسی طرح لڑکی والے بھی یہ خواہش رکھتے ہیں کہ لڑکا ان کے گھر پھیرے مارتا رہے تاکہ وہ اپنے محلہ داروں کو دکھا سکیں کہ دیکھو ‘ہماری پَگ اتنی اونچی ہے کہ لڑکا گھر داماد بنا لیا ہے‘- اور یہ بات کسی ‘خالص‘ لڑکے کے شانِ شایان کے خلاف اکثر ہوتی ہے- ظاہر ہے کہ کسی کی ‘میں‘ کو ختم کر کے اپنی ‘میں‘ ٹھونسی جائے گی تو پھر گڑ بڑ تو ضرور ہو گی-

تیسری وجہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش ہے- اس ضمن میں خاوند یا بیوی دونوں اپنی اپنی ‘امارات‘ یا فرنیچر و جہیز وغیرہ کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو ‘احساسِ کمتری‘ میں مبتلا کرنے کے لیے مختلف قسم کی بلواسطہ اور بلاواسطہ ‘سازشیں‘ کرتے ہیں اور یہ بات دراصل ‘مادہ پرستانہ‘ ذہنیت کو ظاہر کرتی ہے- حالانکہ اشیاء تو ٹوٹتی بنتی رہتی ہیں اور یہ بھی روپے کی طرح ‘ہاتھ کا میل‘ ہی ہوتی ہیں، ان کو اولیت دینا، ان کو موضوعِ بحث بنانا ذہنی ناپختگی کو ظاہر کرتا ہے- چونکہ کوئی فریق بھی نہیں چاہتا کہ وہ ‘نیچے‘ آئے لہٰذا بات بگڑنا شروع ہو جاتی ہے اور نفرت کے بیچ پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں-

چوتھی وجہ ساس اور سسر کا رویہ بھی ہے- یہ ایک عام بات ہے کہ ساس اور سسر چاہتے ہیں کہ بہو ان کی خدمت کرتی رہے، ان کی ٹانگیں دبائے، ان کا خیال رکھے، ان کو وقت دے وغیرہ وغیرہ- نارمل حالت تک تو بہو کو ایسا کرنا زیب دیتا ہے اور یہ اس کا فرض بھی ہے لیکن جب بہو کولہو کا بیل بن جاتی ہے تو معاملہ الٹا ہو جاتا ہے- دیکھا جائے تو ساس اور سسر کو بہو سے زیادہ خدمت لینی نہیں چاہیے کہ ‘ہان نوں ہان پیارا ہُندا اے‘ کے مصداق نوجوان، نوجوانوں ہی کی کمپنی میں زیادہ تر رہنا پسند کرتے ہیں-

شادی میں اتار چڑھاؤ کی پانچویں اور بڑی وجہ لڑکی کا خواب ‘اپنا گھر‘ ہوتا ہے- اس بابت لڑکی کی سہیلیاں وغیرہ اس کو پہلے ہی سے ‘پٹیاں‘ پڑھا چکی ہوتی ہیں کہ کسی نہ کسی طرح ‘مُنڈے‘ کو اپنے ‘قابو‘ کرنا ہے- اس خواہش کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے شادی کو ابھی ایک ماہ ہی ہوا ہوتا ہے کہ لڑکی اپنے ‘تیر‘ چلانا شروع کر دیتی ہے اور وقتاً فوقتاً ساس اور سسر کی باتوں کو ‘منفی‘ بنا کر خاوند سے کہتی ہے کہ اگر میں یہ کروں یا وہ کروں تو وہ برا مناتے ہیں وغیرہ وغیرہ- ایسی باتیں اگر سمجھدار خاوند کو کہی جائیں تو وہ تاڑ جاتا ہے کہ بیوی اس کے سبب کیا چاہتی ہے یعنی علیحدہ گھر- اس بابت سمجھدار خاوند تو اپنی بیوی کو دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیتا ہے کہ ساس اور سسر کی باتیں خود سنبھالو اور مجھے نہ بتایا کرو- ظاہر ہے کہ خاوند کو ایسی باتیں بتا کر لڑکے کو اپنے والدین کے خلاف کرنا ہی مقصد ہوتا ہے جو کہ نہ ہی اخلاقی طور پر درست ہے اور نہ ہی دینی طور پر- خاوند کو اس کے والدین سے لڑوا کر بیوی دراصل اندرکھاتے خاوند پر بہت بڑا ظلم کرتی ہے کہ وہ والدین سے لڑکے کو علیحدہ کروا کر دراصل اس کے پاؤں تلے سے جنت کھسکانا چاہتی ہے- ٹھیک کہ ہر لڑکی کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنا گھر بنائے- لیکن اتنی جلدی کیوں؟ شوہر کی آمدنی، تنخواہ، اسکے بھائی بہن اور والدین وغیرہ کی ‘پوزیشن‘ کو مدِنظر رکھ کر بات ہو تو سننے کے قابل ہوتی ہے بصورت دیگر یہ ‘پھوٹ ڈالنا‘ ہوتی ہے- جگہ کی کمی تو خودبخود ہو جاتی ہے اس لیے علیحدہ گھر تو مجبوراً بھی بنانا ہی پڑتا ہے- ایسے معاملات اگر دوراندیشی سے حل ہو جائیں تو بات نہیں بگڑسکتی-

چھٹی وجہ بلاوجہ روک ٹوک، جابجا پابندیاں، پہرہ داری اور شک شبہ کی باتیں ہوتی ہیں- آزادی صحیح معنوں میں محبت کا اظہار ہوتی ہے- اگر یہ نہ دی جائے تو پھر شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں- ہم دیکھتے ہیں کہ آسمان پر ایک پرندہ اڑ رہا ہے، وہ بہت خوبصورت نظر آتا ہے- ہم اس کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر اسے پکڑ لیتے ہیں اور ایک سنہرے پنجرے میں بند کر دیتے ہیں- کیا یہ پرندہ وہی پرندہ ہوگا؟ ظاہری طور پر تو یہ وہی پرندہ ہوتا ہے، وہی جو آسمان پر اڑ رہا تھا لیکن گہرائی میں یہ وہی پرندہ نہیں رہتا، کیونکہ کہاں ہے اس کا آسمان، کہاں ہے اس کی آزادی؟ مان لیا کہ یہ پنجرہ لڑکے والوں کے لیے قیمتی ہو- تاہم یہ پرندے کے لیے قیمتی نہیں ہے- پرندے کے لیے تو آسمان پر آزاد ہونا ہی زندگی میں سب سے قیمتی ہے اور یہی بات نئی نویلی دلہن پر صادق آتی ہے- شادی کا مقصد ایک دوسرے کے ساتھ مل کر نشوونما پانا ہوتا ہے اور نشوونما کے لیے آزادی ضروری ہوتی ہے- اگر آزادی نہ ہو تو محبت مر جاتی ہے یا وہ محض ‘مشین‘ کا روپ دھار لیتی ہے- معمولی سے بات ہے کہ اگر آپ اس لڑکی کو آزادی نہیں دے سکتے جس سے محبت کرتے ہیں تو پھر کس کو آزادی دے سکتے ہیں؟ آزادی دینا بھروسہ کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا-

میاں بیوی کی علحیدگی کی نوبت آ جائے تو یہاں سوال ہے کہ معاملہ ٹھنڈا کرنے کے لیے کیا کیا جائے؟ صلح صفائی یا علیحدگی کا فیصلہ کون کرے؟ تصفیہ کون کرے؟ کیا ہم یہ تصفیہ ان لوگوں پر چھوڑ دیں جنہوں نے خود اچھی تعلیم و تربیت نہیں پائی جو شادی کی ذمہ داری سے ناواقف ہوں؟ یہ لوگ تو طلاق کو ایسی نظر سے دیکھیں گے جیسا کہ شادی کو دیکھا یعنی طلاق کو معمولی بات سمجھیں گے، لہٰذا شادی کا تصفیہ یا فیصلہ اس قسم کے لوگوں کے سپرد نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس قسم کے لوگوں سے لڑکی اور لڑکے دونوں کے اقارب کو مشورے لینے چاہیئں- باریک بینی سے مسئلہ کی وجوہات کا کھوج لگانا ہی دراصل تصفیہ کر سکتا ہے اور یہ کام کوئی اللے تللے لوگ نہیں کر سکتے، بلکہ یہ معاملہ کسی تعلیم یافتہ، غیرجانبدار، اندروں بیں، اور تجربہ کار شخص کے سامنے رکھا جائے تو علیحدگی کی نوبت ہی نہیں آ سکتی اور صلح صفائی ہو جاتی ہے- ہر فریق کو اپنی خامیوں کا پتہ لگ جاتا ہے- لیکن معاشرہ میں ‘ناک‘ کو فوقیت و اولیت دینے کی وجہ سے ان باتوں کو مدِنظر نہیں رکھا جاتا نتیجتاً دو دل ‘ناک‘ کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں-

‘دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انساں کو
ورنہ دنیا میں کچھ کم نہ تھے کروبیاں‘ 
Najeeb Ur Rehman
About the Author: Najeeb Ur Rehman Read More Articles by Najeeb Ur Rehman: 28 Articles with 68407 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.