اولاد کی تربیت انسانی زندگی کا
اہم ترین معاملہ ہے اولاد اپنے والدین کا عکس ہوتے ہیں اولاد کی شخصیت سے
والدین کی تربیت جھلکتی ہے اوائل عمر میں بچے اپنے والدین سے جو کچھ سیکھتے
ہیں آئندہ زندگی میں وہی تربیت کے اصول باشعور ہونے کے بعد اولاد کے لئے
اپنی زندگی کی راہیں متعین کرنے میں راہنمائی کرتے ہیں کہتے ہیں کہ 'جتنی
شکر ڈالیں گے اتنا ہی میٹھا ہو گا' اسی طرح اولاد کی بہترین تربیت کے لئے
جس شکر کی ضرورت ہے وہ اپنی اولاد کے لئے والدین کی بھرپور محبت و شفقت اور
توجہ ہے والدین کی محبت و شفقت اور بھرپور توجّہ ہی اولاد کی بہترین تربیت
کی بنیاد بنتی ہے
عام خیال تو یہی کیا جاتا ہے اور یہ درست بھی ہے کہ تمام والدین اپنی اولاد
سے یکساں محبت کرتے اور بھرپور توجہ دیتے ہیں لیکن بدقسمتی سے چند ایک
گھرانوں کے مشاہدے سے یہ تلخ حقیقت بھی اگرچہ کلی طور پر نہ صحیح لیکن بہت
حد تک سامنے آئی ہے کہ بہت سے والدین وجوہات کوئی بھی ہوں اپنی اولاد کی
درست سمت میں تربیت نہیں کر پاتے چونکہ شخصیت کی تعمیر و تشکیل کا انحصار
بہت حد تک خاندانی پس منظر، زندگی میں درپیش آنے والے حالات و واقعات اور
ارد گرد کے ماحول پر مبنی ہے اسی لئے مختلف گھرانوں، خاندانوں، ممالک اور
خطوں کے تضاد کے باعث وہاں کے باشندوں کے مزاج اور عادات و اطوار میں اسی
بنا پر ایک دوسرے سے اختلاف پایا جاتا ہے
چونکہ ہر بچے کی پرورش اپنے ماحول کے مطابق ہوتی ہے لیکن بچے سب سے پہلے
اور سب سے زیادہ جس ماحول کا اثر لیتے ہیں وہ ان کے اپنے گھر کا ماحول ہے
اور یہی ماحول بچے کی تربیت کی بنیاد بنتا ہے اگر گھر کا ماحول خوشگوار اور
پرسکون ہے تو بچے کی تربیت بھی اچھے طریقے سے کرنا ممکن ہے اور اگر گھر کا
ماحول کسی بھی وجہ سے ناخوشگوار ہے تو بچے کی ذہنی و جسمانی نشوونما پر بہت
برا اثر پڑتا ہے
دنیا کے دیگر کئی پسماندہ علاقوں کی طرح (اگرچہ پاکستان اس قدر بھی پسماندہ
نہیں) ہمارے ملک کے کئی حصوں میں بچوں کو وہ توجہ پیار اور شفقت میسر نہیں
ہے جس کا ہر بچہ مستحق ہے اور اس مسئلے کی ایک بڑی وجہ تعلیم اور روزگار کی
کمی بھی ہے جس معاشرے میں بچوں کی تربیت و پرورش درست سمت میں نہ کی جا سکے
تو آگے چل کر ایسے معاشرے کو بہت سے نا مساعد حالات کا شکار ہونا پڑتا ہے
چونکہ فرد معاشرے کی اکائی ہے بنیاد ہے تو جب بنیاد کی تشکیل و تکمیل ہی
مکمل نہ ہوگی تو عمارت کی تعمیر کس طور مستحکم ہوگی
اولاد کے لئے پہلی تربیت گاہ یا درس گاہ ماں کی گود ہے اور ہر ماں اپنی
اولاد سے چاہے وہ بیٹا ہو یا بیٹی یکساں محبت رکھتی ہے جہاں محبت و شفقت
ہوگی وہاں امن اور سکون کی فضا پروان چڑھتی ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ آج کل کے
دور میں اولاد کی تربیت پیشتر والدین کے لئے انتہائی گھمبیر مسئلہ بن گئی
ہے اور پیشتر والدین اپنی اولاد کی تربیت اس طریقے سے نہیں کر پا رہے جس
طرح تربیت پانا اولاد کا حق ہے کیا اولاد کے لئے والدین کی محبت میں کمی
واقع ہو گئی ہے یا پھر والدین نے اپنی مصروفیات اس قدر بڑھا لی ہیں کہ ان
کے پاس اولاد کے لئے وقت ہی نہیں رہا کے وہ اولاد کو پورے حق کے ساتھ وقت
توجہ اور محبت دے سکیں
چند اساتذہ اور والدین سے معذرت کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج کے دور
میں والدین اور اساتذہ اولاد اور طالب علموں کی اصلاح و تربیت کی ذمہ
داریاں نبھانے میں خاطر خواہ انتظام کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں اگرچہ
مجموعی طور پر یہ صورتحال نہیں ہے لیکن بہت سے اداروں میں طالبعلم استاد سے
روحانی تربیت کے ضمن میں بے قدری و ناانصافی کا شکار دکھائی دیتے ہیں
استاد کی بہترین روحانی تربیت جہاں شاگرد کو استاد کے لئے قابل فخر بناتی
ہے وہیں بدقسمتی سے چند غیر تربیت یافتہ یا پھر استاد کے حقیقی رتبے سے
نابلد اتفاقیہ طور پر استاد جیسے پیشے سے منسلک ہونے والے چند اساتذہ جن کا
مقصد تعلیم دینا یا اپنے شاگردوں کی روحانی تربیت نہیں ہوتا محض وقت گزاری
یا روپیہ کمانا ہوتا ہے وہ اپنے شاگردوں کی درست سمت میں روحانی تربیت کرنے
یا تعلیم دینے سے قاصر رہتے ہیں بلکہ ایسے نام نہاد اساتذہ بعض صورتوں میں
اپنے شاگردوں میں منفی رجحانات پیدا کرنے کا باعث بھی بنتے ہیں اور یہ
رجحانات بچوں میں غیر مساویانہ رویے کے باعث پروان چڑھتے ہیں
استاد کا فرض ہے کہ وہ اپنے تمام شاگردوں کو ایک سی مشفقانہ نظر سے دیکھے
اور ایک سا مشفقانہ رویہ رکھے یہ ضروری نہیں کہ تمام بچے ذہنی و جسمانی
اعتبار سے یکساں صلاحیتیں رکھتے ہوں بعض بچے ذہنی سطح پر دیگر بچوں کے
مقابلے میں کمزور واقع ہوتے ہیں چونکہ استاد کا کام بچے کی روحانی تربیت
کرنا ہے اور روحانی تربیت بہت احتیاط طلب ذمہ داری ہے اس میں ذرا سی کوتاہی
بچے کی روحانی تربیت پر بری طرح اثر انداز ہو سکتی ہے اب یہ استاد کا کام
ہے کہ وہ اپنے علم و بصیرت کی روشنی میں بچے کی ذہنی سطح کو جانچتے ہوئے
بچے کی ذہنی سطح کے مطابق مناسب و موزوں طریقہ تدریس اختیار کرے کہ بچے کو
دوران تعلیم جو بھی مسئلہ درپیش ہے اس مسئلے کا حل بڑی احتیاط و تدبیر سے
نکالیں اور بچے کو اس مشکل سے نکالنے میں معاون ہو بچہ جس کا شکار ہے
اس ضمن میں انڈین فلم سٹار 'عامر خان کی کاوش 'تارے زمیں پر' قابل تعریف ہے
میرے خیال سے دنیا کے ایسے تمام والدین اور اساتذہ کو خاص طور پر یہ فلم
ضرور دیکھنی چاہیے جو بچے کا ذہنی مسئلہ اور ذہنی سطح اور جسمانی ساخت کا
مشاہدہ کئے بغیر بچے کے مسائل کم کرنے کی بجائے اپنے سخت و ترش اور غیر
مساویانہ رویے سے بچے کے لئے مزید مسائل اور مشکلات کا باعث بنتے ہیں
اس کے علاوہ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کے چناؤ کے وقت ایسے تربیت یافتہ
اساتذہ کا انتخاب ممکن بنانے کی کوشش کرنا ضروری ہے جو استاد جیسے مقدس
پیشے کے لئے ہر اعتبار موزوں ہوں، استاد کے مقام و مرتبہ سے آشنا اور اپنے
پیشے سے مخلص ہوں جن کا مقصد محض روزگار کو حصول ہی نہیں بلکہ اپنی قوم کے
معماروں کی حقیقی تربیت کرنا ہو کہ ہمیں اپنے معاشرے کے لئے ایسے ہی اساتذہ
اخذ کرنے کی اشد ضرورت ہے جو ہماری قوم کے بچوں کو جدید سائنسی علوم کی
تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ ان کی بہترین اخلاقی و روحانی تربیت بھی کر سکیں
اور ہمارے معاشرے کی تعیمر و ترقی کے لئے تہذیب یافتہ افراد تیاّر کر سکیں
ایسے مخلص اور بہترین اساتذہ کی زیر نگرانی تربیت پانے والے بچے ہی اپنی
قوم کا مستقبل روشن رکھنے اور اپنے ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے قابل بن
سکتے ہیں بچوں کی جسمانی، ذہنی، اخلاقی و روحانی تربیت و نشوونما میں
والدین اور اساتذہ والدین کلیدی حیثیت رکھتے ہیں اس کےعلاوہ دیگر رجحانات
بچے کی شخصیت کا حصہ بنتے چلے جاتے ہیں جو وہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے
کشید کرتا ہے درست ہے کہ تمام والدین اپنے بچوں سے محبت رکھتے ہیں لیکن
بدقسمتی سے چند گھرانوں میں متضاد صورتحال بھی دیکھنے میں آئی ہے
جس طرح والدین کی محبت و شفقت اورپرورش اولاد کو بناتی اور سنوارتی ہے اسی
طرح والدین کی اولاد سے قدرے بے پرواہی اور متضاد رویہ اولاد کو بگاڑتا بھی
ہے اولاد چاہے بیٹا ہو یا بیٹی اللہ والدین کے لئے اللہ کی رحمت اور انعام
ہے اور آزمائش بھی ہے صرف اولاد کو پیدا کر لینا ہی بڑا کام نہیں بلکہ
اولاد کی تربیت کرنا بڑا کام ہے کہ بچے تو چرند پرند اور حشرات بھی پیدا
کرلیتے ہیں اصل کام تو اولاد کی بہترین تربیت کرنا ہے
اولاد پیدا کرنا ہی مشکل مرحلہ یا مشکل تر عمل نہیں ہے بلکہ اولاد کی تربیت
والدین کے لئے مشکل ترین مرحلہ ہے جسے پوری احتیاط، انصاف اور ایمانداری سے
انجام دینا والدین کا فرض اولین ہے والدین کے لئے اولاد مالک کی امانت ہے
جس کی تربیت کی ذمہ داری کے متعلق والدین کو مالک کو حساب دینا ہے کہ ہر
انسان کو جو کچھ دنیا میں میسر ہے وہ سب بطور امانت انسان کے سپرد کیا گیا
ہے چاہے وہ مال و دولت ہے، جاہ و منصب ہے یا آل اولاد ہے یہاں تک کہ انسان
کی اپنی جان بھی سب کچھ مالک کا ہے اور انسان اس کا محض نگران ہے اور ہر
حیثیت سے اپنے مالک کی امانتوں کی بابت مالک کے سامتے جواب دہ ہے
اولاد والدین کے لئے قدرت کی طرف سے انعام بھی ہے تحفہ بھی ہے رحمت بھی ہے
اور آزمائش بھی ظاہر ہے کہ انسان کو دنیا میں جو کچھ ملا ہے سب اللہ کی
عنایت بھی ہے اور امانت بھی ہے جیسا کہ پہلے عرض کیا انہی عنایات اور
امانتوں میں اولاد بھی ہے جو دنیا کے تمام والدین کو سب سے زیادہ عزیز ہے
دنیا میں شاید ہی ایسے والدین ہوں جو اپنی اولاد سے محبت نہیں کرتے اولاد
سے محبت انسان کی فطری مجبوری بھی اور کڑی آزمائش بھی ہے آزمائش یوں کے
اولاد کو پیدا کرلینا ہی بڑا کام نہیں بلکہ اولاد کی بہترین تربیت کرنا بڑا
کام ہے اپنی طرف سے تو تمام والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے ہر
اعتبار سے اور ہر میدان میں کامیاب رہیں اور وہ اس کے لئے کوشش بھی کرتے
ہیں کہ ہر طرح سے اولاد کا خیال رکھا جائے کہ اولاد کا خیال رکھنا والدین
کا فرض بھی ہے اور انکی اولاد سے محبت کا تقاضا بھی جبکہ سب سے بڑی بات تو
یہ ہے کہ دیگر امانتوں کی طرح اولاد کبھی والدین کے پاس رب کی امانت ہے اور
جس طرح ہر انسان نے اپنی تمام امانتوں کے لئے مالک کو حساب دینا ہے اسی طرح
اولاد کی امانت کی تربیت کی بابت بھی تمام والدین کو رب کے سامتے جوابدہ
ہونا ہے
یہ بات بھی غلط نہیں کہ اولاد کے لئے والدین کے دل میں محبت و شفقت فطری
امر ہے اور دنیا کے تقریباً تمام والدین اپنی اولاد سے بہت محبت کرتے ہیں
کہ والدین کی بھرپور محبت اور توجہ پانا اولاد کا حق ہے اپنی اولاد سے محبت
تو تقریباً تمام والدین کرتے ہیں کہ محبت بچوں کی تربیت کا لازمی جز ہے
لیکن ان میں سے چند ایک والدین کا اپنی اولاد سے محبت کا طریقہ مختلف ہے ان
کی دانست میں بہ نسبت لاڈ پیار کے سختی اور ڈانٹ ڈپٹ کے ذریعے بچوں کی
تربیت زیادہ بہتر طور پر کی جا سکتی ہے اور اپنے مؤقف کی حمایت میں وہ اس
مقولے کہ' کھلاؤ سونے کے چمچ سے لیکن دیکھو شیر کی نگاہ سے' مستند خیال
کرتے ہیں لیکن میری دانست میں یہ خیال درست نہیں مار پیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ سے
کبھی تربیت نہیں ہوتی بلکہ اس طرز عمل سےبچے کی ذہنی و جسمانی نشوونما بری
طرح متاثر ہوتی ہے
ایسے والدین کے خیال میں محض مادی ضروریات کھانا پینا لباس اور رہائش کی
ذمہّ داری پوری کر دینا ہی اولاد سے محبت کا حق ادا کرنا ہے لیکن یہ خیال
خام ہے کہ خوف کے عالم میں لذیذ اور تر نوالہ بھی نگلنا مشکل ہوتا ہے تو
شیر کی نظر سے گھورتے ہوئے بچے کو مار پیٹ کے ذریعے جبرا" کھلانے پلانے سے
بچے کی ذہنی و جسمانی نشوونما پروان نہیں چڑھتی بلکہ مزید پست ہوتی ہے
اگرچہ بجے کی ذہنی و جسمانی نشوونما کے لئے مناسب و متوازن خوراک کا انتظام
کرنا بہت ضروری ہے لیکن رو کر یا ڈر کر کھایا جانے والا اچھا کھانا بچے کے
نازک معدہ پر گراں گزرتا ہے جس سے بچے کی ذہنی و جسمانی نشوونما بری طرح
متاثر ہے جبکہ محبت اور توجہ بچے میں خود اعتمادی کا نکھار پیدا کرتی ہے
اور یہ خود اعتمادی بچے کو نڈر اور بہادر بناتی ہے جراءت و بہادری اور
خوداعتمادی بچے کی آئندہ زندگی میں ہر قدم کامیابی کے راستوں پر گامزن
رکھتی ہے
بچے نازک پھولوں کی مانند ہوتے ہیں اور بچبن سے ہی اولاد کی مناسب تربیت کا
مرحلہ شروع ہو جاتا ہے جس طرح پودوں کی افزائش کے لئے مناسب وقت پر تمام
مراحل کو ترتیب و تصحیح کے ساتھ مرحلہ وار سرانجام دینا ہی پودے کی بہترین
افزائش کے لئے ناگزیر ہے بصورت دیگر افزائش کی بابت نامساعد نتائج کا سامنا
کرنا پڑتا ہے بلکل اسی طرح بچوں کی تربیت و پرورش بھی ننھے پودوں کی طرح بر
وقت احتیاط و توجہ کی متقاضی ہے جس میں بعض اوقات معمولی کوتاہی بھی بڑے
نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے
جس طرح ایک ننھے منے پودے کے تناور درخت بن جانے کے بعد اس کی ہئیت تبدیل
نہیں کی جا سکتی اسی طرح اولاد کے جوان ہو جانے کے بعد ان کی تربیت کا وقت
گزر چکا ہوتا ہے بچبن میں اولاد کو جس پیار اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اس
وقت انہیں اس پیار اور توجّہ سے محروم رکھا جائے اور پھر بچپن میں پیار اور
توجہ سے محروم اولاد کو جوان ہونے پر پیار و محبت جتانا کھڑی فصل پر برسات
کا پانی برسانا ہے اور ظاہر ہے کہ کھڑی فصل پر پانی باعث فیض نہیں بلکہ
باعث نقصان ہے
ہر کام مناسب وقت پر ہی بھلا ہے جب محرومی محبت اور بے توجہی کا شکار ہوکر
کسی نے اپنی زندگی کا دائرہ خود منتخب کرلیا ہو تو پھر کوئی اسے اس راستے
سے نہیں ہٹا سکتا اب اس کی روح اس کا وجود اس چیز کو قبول کرنے کی خاصیت ہی
کھو بیٹھا ہے کہ بے وقت کی راگنی رائیگاں جاتی ہے تربیت کا وقت نکل گیا تو
شخصیت نے جس سانچے میں ڈھلنا تھا ڈھل چکی آپ کی سختی اور محبت سے محرومی کی
تربیت نے آپ کی اولاد کو ایک بار جس سانچے میں ڈھال دیا سو ڈھال دیا آپ کی
اولاد کی شخصیت کو جس رنگ میں رنگنا تھا سو رنگ دیا کہ اولاد والدین سے وہی
کچھ لیتا ہے جو والدین سے ملتا ہے محبت یا سختی یہ آپ پر ہے کہ آپ اپنے
بچوں کو مہربان بنانے ہیں یا طوفان بچپن ہی اولاد کی تربیت کا بنیادی عرصہ
ہوتا ہے اور جو والدین اپنے بجوں کی اس دور میں مناسب و موزوں تربیت کر
پاتے ہیں وہی اولاد کی نعمت سے فیض اٹھاتے ہیں
بدقسمتی سے بچوں کی نامناسب تربیت نہ ہوپانے کی ایسی صورتحال عموماً ایسے
گھرانوں میں جہاں بچوں کی تعداد زیادہ، وسائل کم ، اخراجات زیادہ ہوں اور
خاندان کو مالی مشکلات درپیش ہوں وہاں بچوں کی مناسب تربیت کرنا قدرے مشکل
ہوتا ہے اور بہت سے بچے ان حالات میں محبت اور توجہ کے علاوہ دیگر بنیادی
ضروریات و حقوق سے بھی محروم رہتے ہیں
بعض اوقات اخراجات پورے کرنے کے لئے ماں باپ دونوں کو گھر سے باہر رہنا
پڑتا ہے نتجتاً بچوں کو ان کے مناسب حال توجہ اور وقت کا نقصان یا پھر جن
گھروں میں بچوں کی زیادہ تعداد ہوتی ہے اور ان میں سے جو بچہ ظاہری شکل و
صورت میں اپنے دوسرے بہن بھائیوں کے مقابلے میں کم خوبصورت ہوتا ہے اسی کو
محبت سے محرومی کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے جو کہ ہر بچے کے لئے سہہ جانا ممکن
نہیں ہوتا ایسے بچے نہ کو صرف محبت سے محرومی کا داغ سہنا پڑتا ہے بلکہ
بدصورت ہونے کا طعنہ بھی نازک دل پر سہنا پڑتا ہے ملنے جلنے والے رشتہ دار
دوست احباب بے سوچے سمجھے بجے کے حساس اور نازک جذبات کا احساس کئے بغیر
بچے کو سب کے سامنے ایسی باتیں کرتے ہیں جو بچے کے نازک دل پر گراں گزرتی
ہیں دوسرے تو کیا خود والدین بھی محبت و توجہ کے معاملے میں اپنی اولاد میں
انصاف نہیں کر پاتے کہیں جانا ہو تو ان بچوں کو ساتھ لے جاتے ہیں جو زیادہ
خوبصورت ہوتے ہیں اور اپنے بدصورت بچوں کو گھر میں اکیلے چھوڑ جاتے ہیں
مبادہ کہ ہمارے بدصورت بچے کی وجہ سے احباب میں شرمندگی کا سامنا نہ کرنا
غیر تو پھر غیر ہیں اپنے گھر والے ہی نہیں بخشتے اور اپنی بدصورت اولاد کو
اپنی محبت و شفقت اور توجہ سے محروم رکھتے ہیں اور انہیں ایسے القابات سے
نوازتے ہیں کہ جس سے بچے کی تربیت بری طرح متاثر ہوتی ہے بچے میں خود
اعتمادی کا فقدان بچے کو دوسرے بجوں کی نسبت کند ذہن سست اور ڈرا ہوا سہما
ہوا اور شرمیلا بنا دیتی ہے اور شخصیت کا یہ بگاڑ آگے چل کر مزید پریشان کن
حالات پیدا کرنا ہے لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے تربیت کا وقت
نکل جائے تو شخصیت کے بگاڑ کا خسارہ پورا کرنا بہت دشوار ہو جاتا ہے
گھر میں اکیلے رہ جانے والے بچوں پر کیا بیتی ہے اس تنہائی نے ان کی روح
اور ان کے وجود کو کیسے گھائل کیا ہے صرف بچہ ہی جانتا ہے کہ بعض اوقات یہ
روح اور وجود کا بالغ ہو جانے کے بعد بھی ناسور بن کر ایسی اولاد کے ساتھ
چمٹا رہتا ہے اور پوری زندگی والدین اس ناسور سے بےخبر رہتے ہیں کہ ان کی
اولاد نے تنہا کیا کچھ سہہ لیا ہے
دوسروں کی تو بات چھوڑیں جن والدین کی اولاد زیادہ ہو انہیں اپنے تمام بچوں
پر یکساں توچہ رکھنی چاہيے اور سب کی ضروریات کا خیال رکھنے میں انصاف سے
کام لینا چاہیے کہ کوئی بھی اپنے ساتھ ناانصافی برداشت نہیں کرتا جیسے جیسے
بچہ بڑھتا ہے اس میں شعور پیدا ہوتا رہتا ہے والدین اوراساتذہ کی تربیت اور
رہنمائی کی روشنی میں ہی بچہ اپنے مستقبل کی راہیں متعین کرنے کے قابل بنتا
ہے بچے کی تربیت نہایت اہم مسئلہ ہے اس میں دانستہ و نا دانستہ کسی بھی قسم
کی کوتاہی نہ ہونے دیں
جس طرح ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے اسی طرح ایک بچے
کی تربیت میں کمی پر بھی یہی بات صادق آتی ہے اساتذہ اور والدین کے علاوہ
دیگر افراد معاشرہ کو بھی بچوں کے ساتھ سلوک و برتاؤ میں محتاط اور مشفقانہ
رویہ اختیار کرنا چاہئے بدقسمتی سے ایسے بچے بھی ہیں جو والدین کے سائے میں
پرورش پانے سے محروم رہ جاتے ہیں بچپن میں ہی جن کے والدین دار فانی سے کوچ
کر جاتے ہیں ان پچوں کی مناسب پرورش و تربیت کے لئے حکومتی و نجی اداروں کے
ساتھ عوام الناس کو بھی بھرپور تعاون کرنا چاہیے
ہمارے لئے کسی بھی حوالے کی ضرورت نہیں رہتی اگر ہم زندگی کے ہر معاملے میں
ہمارے ہادی و رہنما رحمت اللعالمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
سنت کی روشنی تمام معاملات و مسائل حل کرسکتے ہیں کہ آپ باپ ، معلم، رشتہ
دار ، پڑوسی یا انسان جس حیثیت سے بھی چاہیں زندگی کے ہر معاملے میں ہر
حوالے سے رہنمائی لے سکتے ہیں کہ آپ نے بچوں کی تربیت کی بابت محبت و شفقت
کے اصول کی حمایت کی ہے نہ کہ سختی و مار پیٹ کی اس موضوع پر تجربات و
مشاہدات نے جو تصویر دکھائی ہے آپ کے سامنے رکھ دی ہر انسان اختلاف رائے کا
حق رکھتا ہے اگر آپ کو اختلاف ہے تو برملا کیجئے کہ ہم نے زندگی کا یہ رنگ
بھی دیکھا ہے جو دکھانے کی کوشش کی ہے |