یومِ آزادی کے تقاضے

برکتوں ، رحمتوں اور مغفرتوں کو اپنے جَلو میں لیے ماہِ صیام آیا اور گزر گیا۔خوش نصیبوں نے ربّ کی رحمتیں سمیٹیں اور بدنصیبوں کا دامن خالی رہا۔الیکٹرانک میڈیا کے ہر چینل نے ماہِ رمضان کی مناسبت سے ایسے پروگرام مرتب کیے جن میں علمائے کرام کی ایمان افروز باتیں سُن کر یوں محسوس ہونے لگا کہ جیسے حضرتِ قائد نے ہمیں واقعی ایک ایساقطعۂ زمین لے کر دیا جسے ہم اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کر سکیں ۔انٹرٹینمنٹ اور نیوز چینلز کے ماحول کی پاکیزگی قابلِ ستائش تھی اور حصولِ پاکستان کا مقصد ابھر کر سامنے آتا نظر آ رہا تھا۔

ماہِ صیام گزرا ، شکرانے کی عید آئی اور ہر چینل نے عید کے پروگرام ایسے مرتب کیے کہ سب کچھ اُلٹ پلٹ کے رکھ دیا۔دوپٹے اُتر گئے ، دین کی باتیں قصۂ پارینہ بن گئیں اور حمد و نعت کی جگہ ناچ گانے نے لے لی۔ تقریباََ ہر چینل پر ’’بھانڈوں‘‘ کا قبضہ ، ہلّا گُلّا ، شور شرابا ،ذومعنی جملے، ہزل گوئی ، جگت بازی اور ہلڑ بازی ۔یہ بھی الیکٹرانک میڈیا کا تحفہ ہے جو اُس نے سارے سٹیج اداکاروں کو اپنے چینلوں کی زینت بنا کر قوم کے مجموعی اخلاق کو کینسر زدہ کر دیا ہے۔اِس سے پہلے یہ لوگ محدود تھیٹروں میں پائے جاتے تھے لیکن اب گھر گھر تھیٹر سج گئے ہیں۔آقا ﷺ کا فرمان ہے کہ قُربِ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ گھر گھر ناچ گانا ہو گا۔پچیس تیس سال پہلے تک انسانی سوچ بہرحال یہی ہو گی کہ ایسا کیسے ممکن ہے؟۔لیکن اب الیکٹرانک میڈیا کی بدولت وہ سب کچھ سچ ثابت ہو گیا جو میرے آقاﷺ کا فرمان تھا۔چینل پہ چینل بدلتے جائیے آپ کو ہر جگہ وہی کچھ نظر آئے گا جس کا دینِ مبیں سے کوئی تعلق نہیں۔ میرا دینی علم تو واجبی سا ہے پھر بھی سوچوں کی یلغار یہی ہے کہ ماہِ صیام نے اِس قوم کے مجموعی مزاج پر کیا اثرچھوڑا ہے ؟۔سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہم نے اسی عہد کے ساتھ ربّ ِ لم یزل سے یہ قطعۂ زمین حاصل کیا تھا کہ ہم اِس میں اسلامی تہذیب و تمدن ، معاش و معاشرت اور ثقافت کو جَڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے؟۔

اب 14 اگست کی تیاریاں اپنے عروج پر ہیں۔ہم صرف یہی ایک دن بھرپور انداز میں مناکر اگلے ہی روز پھر اپنی اُنہی خباثتوں میں گُم ہو جائیں گے جو ہماری نَس نَس میں سما چکی ہیں۔ہم یہ دن نہ تو قومی جذبے سے مناتے ہیں اور نہ ہی تجدیدِ عہد مقصد ہوتا ہے ۔سچ یہی ہے کہ اِس دن کی کشش محض اِس لیے ہے کہ ہم میلوں ٹھیلوں کے شوقین ہیں اور یہ دن ہمیں بھرپور تفریح مہیا کرتا ہے۔ چودہ اگست کو ارضِ پاک میں ہر طرف یہ ترانہ گونجتا سنائی دے گا
یوں دی ہمیں آزادی کہ دُنیا ہوئی حیران
اے قائدِ اعظم تیرا احسان ہے ، احسان

اُدھر روحِ قائد سب سے زیادہ بیقرار بھی 14 اگست کو ہی ہوتی ہے ۔ مجھے تو روحِ قائد یہ سوال کرتی نظر آتی ہے کہ میرا پاکستان تو تم نے 1971 ء کو دسمبر کی ٹھٹھرتی دھوپ میں ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں دو لخت کر دیا، اب کیسا احسان اور کہاں کا احسان؟۔

یہ یومِ آزادی بھی گزر جائے گا اور پچھلے پینسٹھ برسوں کی طرح اِس بار بھی یہ سوال چھوڑ جائے گا کہ کیا ہم نے ماضی سے سبق سیکھا ؟۔لیکن تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتا ۔ہم تو لگ بھگ پچھلے سات عشروں میں ایک قوم میں بھی نہیں ڈھل سکے ۔ہم پنجابی ، سندھی ، بلوچی اورپشتون تو ہیں ، پاکستانی نہیں۔ہم شیعہ ، سُنّی ، بریلوی ، دیوبندی اور اہلِ حدیث تو ہیں لیکن مسلمان نہیں۔دین فرقوں اور گروہوں کی نفی کرتا ہے اور ہم فرقوں کو سینوں پر سجائے پھرتے ہیں۔مسجد اﷲ کا گھر ہے لیکن ہماری مساجد بھی اپنی اپنی ہیں۔ہم ایسے نسلی، لسانی اور گروہی خول میں بند ہیں جنہیں توڑ کر باہر آنا ہمیں قبول نہیں۔پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اچھے مسلمان یا اچھے پاکستانی بن سکیں؟۔

خالی خولی بڑھکیں لگانے اورجذباتی نعرے بازی میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ہم دِلی کے لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کی باتیں تو کرتے ہیں لیکن ہماری خواہش یہی ہوتی ہے کہ اگر مَن موہن سنگھ جی خود ہی ہمارا پرچم دلّی کے لال قلعے پر لہرا دیں تو کتنا اچھّا ہو۔حضرتِ اقبال نے غلط تو نہیں کہا تھاکہ ؂
مسجد تو بنا دی شب بھر نے ، ایماں کے حرارت والوں نے
مَن اپنا پرانا پاپی ہے ، برسوں میں نمازی بَن نہ سکا

ہم نے گھاس کھا کر ایٹم بم تو بنا لیا لیکن خوف کا یہ عالم ہے کہ بھارت ہمارا پانی بند کر دیتا ہے ، سرحدوں پر بلا اشتعال فائرنگ کرتا ہے ، پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں ملوث ہوتا ہے اور دھمکیاں بھی دیتا ہے لیکن ہم’’امن کی آشا‘‘ کے ڈھنڈورچی بنے پھرتے ہیں ۔یہ صلح جوئی نہیں بزدلی ہے اور ایسی بزدل قوموں کا انجام روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔وطن کے دفاع کے لیے ہمارے پاس کیا ہے جو نہیں ہے ؟۔ پوری دنیا ہماری ایٹمی قوت سے خوف زدہ ہے لیکن ہم میں اتنی ہمت بھی نہیں کہ اپنے ہمسائے کو کہہ سکیں کہ لالہ جی آپ کی ’’پوتر‘‘ دھرتی کا ایک ایک انچ ہمارے حتف میزائلوں کی زد میں ہے ۔اگر ہم ڈوبیں گے تو تمہارے ہاں بھی رام رام جپنے والا کوئی نہیں بچے گا۔ہم بھارت سے بات کریں یا امریکہ سے ہمارا اندازہمیشہ معذرت خواہانہ اور رویہ غلامانہ ہوتا ہے۔کوئی مجھے یہ تو بتلائے کہ ہم میں کون سی ایسی خوبی ہے جس کو بنیاد بنا کر ہم بھی کہہ سکیں کہ ہم زندہ قوم ہیں۔اگر ہم میں زندہ قوموں کی کوئی ایک خوبی بھی باقی نہیں بچی تو پھر ہمیں یومِ آزادی کا جشن مناتے ہوئے شرم آنی چاہیے ۔

جشنِ آزادی منائیے اور جی بھر کے ہلّا گُلّا کیجئے ، وَن ویلنگ کرکے اپنی گردنیں تڑوائیے اور موٹر سائیکلوں کے سلنسر اُتار کر لوگوں کے کانوں کے پردے پھاڑیے ، ساری رات سڑکوں پہ ہُلڑ بازی کیجئے ۔کس میں ہمت ہے جو آپ کو روک سکے کہ آج تو یومِ آزادی ہے ۔ایسی آزادی جسے ہم نے ’’مادر پدر ٓزادی‘‘ میں ڈھال رکھا ہے لیکن خُدا را آنے والے کل کو اپنے احتساب کے لئے رکھ چھوڑیے اور خود احتسابی کے عمل سے گزرتے ہوئے یہ حساب ضرور کیجئے کہ ہم نے

دھرتی ماں کا قرض کہاں تک ادا کیا ہے؟۔اگر نتیجہ صفر آئے تو پھر کم از کم اتنا ضرور کیجئے کہ اگلے سال جشنِ آزادی میں شرکت سے گریز کیجئے کہ اِس سے بڑی بے شرمی کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔

Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 894 Articles with 644838 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More