میڈیا اور انسانی تہذیب وتمدن کے درمیان چولی دامن کا
رشتہ ہے ،معاشرے کو صحیح سمت بتانے والے ادیان نے اسی لئے آسمانی کتب
اورصحائف کا سہارالیاہے ، ظاہر سی بات ہے کہ کتب ہوں یا صحائف ان کا تعلق
قلم سے ہے، قرآن کریم نے جب ہی تو فرمایاہے کہ باری تعالی نے ’’قلم‘‘ کے
ذریعے تعلیم دی ہے ، نیزخود خالق کا ئنات نے قلم کی اہمیت اور مقام ومرتبہ
جتلانے کے لئے اس کی قسم کھائی ہے ، اسلام میں قرآن وحدیث کے فرامین ،جمعے
،عیدین ، نکاح ، حج اور دیگر مواقع کے خطبے اورحضور ﷺ کا مختلف سربراہان ِممالک
کے نام خطوط یہ سب میڈیا نہیں تو اور کیاہے ۔
دنیا ترقی کرتی رہی ، ہر میدان میں نت نئی ایجادات کا سلسلہ جاری رہا،
چنانچہ ذرائع ابلاغ میں بھی محیر العقول تر قی ہوئی ،اخبارات وجرائد کی
پرنٹ میڈیا ہو یا ریڈیائی وبرقی آلات کے ذریعے سمعی نشریات ہوں ، ہرجگہ
ڈویلپمنٹ ہوئی ، ان میدانوں میں بہت بڑے بڑے ادارے قائم ہوئے ، شروع شروع
میں یہ ادارے صرف حکومتوں کی زیر سرپرستی وزیر نگرانی مصروف ِعمل تھے، بعد
میں صنعت کے طور پرپرائیویٹ سیکٹر میں بھی ان کی بنیادیں پڑگئیں ، ابتدائی
دور میں اشتھارات کامعاملہ نہیں ہوتاتھا، لہذا یہ ابلاغی ادارے مشتہرین کے
دباؤ اور زیادہ سے زیادہ مال بنانے کے چکر سے آزاد تھے ،لیکن جب سے ہر
پروڈکٹ کی پبلسٹی کے لئے ان نشریات کو ذریعہ بنایا گیا، وہیں سے ان کی
آزادانہ حیثیت متاثر ہونا شروع ہوئی ۔
مزید ترقی کے بعد کیمرے نے ٹی وی کی راہ دکھائی ، سرکاری وغیر سرکاری چینلز
آگئے ، خبر رساں ادار وں کے بجائے مختلف مقاصد کے تحت چینلوں کی نیٹ ورکنگ
شروع ہوگئی ، یہاں تک کہ تہذیبوں کے تصادم میں سب سے بڑی جنگ جو لڑی جارہی
ہے وہ ’’ میڈیاوار‘‘ ہے ، پورے پورے چینل خرید لئے جاتے ہیں، پروگرام ،اینکر
پرسن ، ہوسٹ اور گیسٹ خرید لئے جاتے ہیں ،حتی کہ چینلوں فلموں میں جو ہیرو
عوام کو نظر آتاہے ،وہ ہیرو نہیں مہرہ ہو تاہے اور اصل ہیرو پروڈ پوسر یا
ڈائریکٹر کی حیثیت سے پس ِپردہ ہوتاہے، بنیادی طور پر وہ پس پردہ ہیرو
پوگرام تشکیل دیتاہے ، پیش کار (ہیرو ،اینکرپرسن ) کو دور کھڑے موسیقار کی
طرح وہ اشارے کرتاہے، اور یہ ان کے اشاروں پراداکاری یا ناچنے گانے کا عمل
بجالاتے ہیں ، اینکر پرسن کہیں کہیں اپنی مرضی کا’’ تڑکا ‘‘بھی لگاتے ہیں ،
مہمان کی باری سب سے اخیر میں آتی ہے ،وہ بھی اینکرپرسن کے تلقینی سوالات
کا تابع ہوتاہے، اب مجبور در مجبور درمجبور درمجبور ان حضرات اور اشتھارات
کے اسیر مالکان سے کیاگلہ اور ان کی کون سی تحسین ممکن ہے، آزاد انہ حیثیت
کسی کی نہیں ہے، بین الأقوامی چینلوں میں تو پورے پورے پروگرام کے متعلق
کہہ دیاجاتاہے کہ یہ پروگرام فلاں فلاں کمپنی کے تعاون سے چلا یاجارہاہے ۔
سونے پرسہاگہ وہ خبر رساں ایجنسیاں ہیں ، جو کسی حادثے کو خبر بنانا چاہتی
ہے، ان کے اپنے مقاصد ہوتے ہیں ، اپنا ایک روڈ میپ ہوتاہے ، ان کو اسی پر
چلنا ہوتاہے، بلکہ ان کو اسی پر چلایاجاتاہے، وہ نان ایشو کوایشوبنانے کی
قدرت رکھتی ہیں اوراصل ایشو زکو دبا بھی سکتی ہیں ،حقیقی صورتِ حال یا
زمینی حقائق کے بجائے مذکورہ بالاتمام اداروں میں افکار ونظریات کو اس طرح
پابند کیا جاتاہے، کہ وہ جو سوچتے ہیں ، وہی سوچنا پڑے ، وہ جو دیکھتے ہیں،
وہی دیکھنا پڑجائے ، گویا آنکھیں آپ کی ،دل ودماغ آپ کے ، لیکن فکرونظر ان
کی ، سوچ اور تخیل ان کا، اسلام نے خبر رسانی اور شخصیات شناسی کی دنیامیں
انسانیت کو جو صراطِ مستقیم ’’فن رجال‘‘ اور ’’فن جرح وتعدیل ‘‘کی صورت میں
دکھایاتھا، اگرمسلمان ترقی کرتے ،اسلامی دنیا ترقی یافتہ ہوتی اور یہ دونوں
فنون آج بھی زندہ ہوتے ،توہرگز عالم اسلام میں مذہبی غل غپاڑہ نہ ہوتا،
لیکن ان فنون کی مردنی اور اغیار کے تابع محض ہونے کے بعد جو نقشہ میڈیا کے
متعلق پیش کیاگیا ،اس میں اسلام اور اسلامی پروگراموں کی گنجائش کہاں ہے،
پھر بھی جو اس طرح کے پروگرامز پیش کئے جاتے ہیں ، وہ بھی خدمت اسلام کے
لئے کم اشتہارات ،ریٹینگ کمائی اور خود نمائی ،کے لئے زیادہ ہوتے ہیں، ایسے
میں کوئی اسے کس طرح اسلامی کسوٹی میں رکھ کر تول سکتاہے ،اور اسی لئے کوئی
تو لتابھی نہیں ، پھر شکایات کیوں اورگلے کیسے ، وہ توصرف اس لئے کہ
ہرپروگرام کی حدود ہوتی ہیں، یہاں حدود پھلانگی جاتی ہیں، بس اتنا عرض ہے
کہ ممکنہ حد تک اسلامی حدود کی پاس داری ہو، محظورات سے اجتناب ہو،ٖفحش
پروگراموں میں کام کرنے والے لوگ بطور ڈپوٹیشن کے برآمد کردہ نہ ہوں، عرب
دنیا میں ا س پر بہت کام ہوا ہے ، وہاں سے استفادہ کیاجائے، ماہرین سے
استفادہ کیاجائے ،مذہب کے حوالے سے احتیاط کے جو پہلو ہر جگہ مدنظر ہوتے
ہیں، انہیں مدنظر رکھاجائے ، تاکہ یہ پروگرامز کم از کم مذہب کے ساتھ سنگین
مذاق نہ ہوں، اور اگر ایسا بھی ممکن نہ ہو ،تو ترک کرنے میں کیا حرج ہے؟؟ |