خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ھاشمی۔ قوم رسول ھاشمی امت
مسلمہ ہے۔ اسکے اجزائے ترکیبی ایمان، تقوی، جہاد، شرم و حیا، غیرت، خودی،
ہمدردی، انصاف،اخلاص فی العمل، جباری و قہاری و قدوسی و جبروت! میں سوال
کرتا ہوں کہ ان عناصر میں سے کتنے حاضر وقت قوم میں موجود ہیں ؟ یا کم از
کم سفینہ پاک کے ناخداؤں میں یہ صفات پوری نہیں تو کچھ موجود ہیں؟ ان باتوں
کا جواب کوئی دینے کو شائد تیار نہ ہو۔ ان باتوں کا جواب میری اس تحریر سے
کسی حد تک مل جائے گا۔پاکستان کا سڑسٹھواں یوم پیدائش منایا جارہاہے۔ اس سے
چند یوم قبل ماہ رحمت،مغفرت اور عتق من الناراختتام پذیر ہواتو عیدالفطر
منائی گئی۔ اسی رحمت و مغفرت کے مہینے میں ملک و قوم کو بڑے عظیم سانحات سے
دوچار ہونا پڑا۔
کئی مقامات پر دہشت گردی کی کاروائیوں میں بیسیوں مسلمان مرد، عورتیں اور
بچے شہید ہوئے۔ بیسیوں عورتیں بیوہ اور سینکڑوں بچے یتیم ہوئے۔ قومی دولت
سے پروان چڑھنے والے محافظین وطن کی بڑی تعداد نے جام شہادت نوش فرمائے۔
سینکڑوں گھروں میں صفوف ماتم بچھ گئیں۔ عید کو ماؤں، بیواؤں اور یتیم بچوں
کی آہ بکا نے ماتم کدہ بنا دیا۔ کئی خاندان اپنے کفیلوں سے محروم ہوگئے۔
بوڑھے والدین کی آنکھیں پتھرا گئیں اور کلیجے منہ کو آگئے۔ سنتے تھے کہ
جہاں آگ جلتی ہے اسکی تپش کا احساس اسی جگہ ہوتا ہے دور والوں کو اسکا
احساس کہاں؟ شیخ سعد ی رحمۃ اﷲ علیہ نے تو فرمایا کہ بنی آدم عضاء یک
دیگراند کہ بنی آدم ایک دوسرے کے اعضاء ہیں اور قرآن و حدیث نے فرمایا کہ
تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ بھائی کو بھائی کا دکھ کیوں محسوس
نہیں ہوا؟ اﷲ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ مجھے میرے محبوب ﷺ کے غلام اس قدر
محبوب ہیں کہ اگر کوئی کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کا ٹھکانہ جہنم
ہے۔ رب تعالیٰ کو قوم رسول ھاشمی کے افراد سے کس قدر پیار ہے کہ وہ ایک
مومن کے قتل پر قہر نازل کرتا ہے اور اسکی ماتم گساری میں اپنی بھرپور قوت
کا اظہار فرماتے ہوئے قاتل کو جہنم رسید کرنے کا حکم صادر فرماتا ہے۔ لیکن
اٹھاراں کروڑ کی کشتی کے ملاحوں کے سینے میں دل نہیں پتھر ہیں۔دوسری طرف
عید کو پاکستان کی سرحدوں پر ہندوؤں کی جانب سے بھرپور گولہ باری اور کئی
مومن شہید ہوگئے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔حالات بتارہے ہیں متعصب ہنو دہمارا
دیرینہ دشمن اپنے جارحانہ مقاصد کی تکمیل میں قدم آگے بڑھائے گا۔ گویا ہم
اس وقت جنگی حالت میں اتر چکے ہیں۔ تیسری طرف طوفانی بارشیں عوام کو شدید
جانی اور مالی نقصان کا سبب بن گئی ہیں۔ دہشت گردی کا مقابلہ کرناہے تو
افواج پاکستان نے،بھارتی افواج کا مقابلہ کرنا ہے تو افواج پاکستان نے،
بارشوں اور ناگہانی آفات میں مقابلہ کرناہے تو ہماری بہادرافواج نے دوسری
طرف جمہوریت کی پیداوار حکمرانوں کا کردار ان مصائب و مشکلات میں کیا ہے؟
آئیے میں حق اور سچ کے آئینے میں قوم کی توجہ اہم امور کی طرف مبذول کرانا
چاہتا ہوں کہ ان حالات میں انہیں کیا کرنا ہے۔ مذکورہ بالا مصائب و مشکلات
کے تناظر میں حکمرانوں کو مسلم حکمرانوں کا کردار ادا کرکے رب کریم سے
عافیت طلب کرنی چاہیئے تھی اور استغفار کرنا تھی۔ لیکن ان کا کردار تو
حالات نے بتایاکہ محمد شاہ رنگیلا کے شب و روز کو مات کرگیا۔ ہم نے پڑھا
سنا کہ جہاں بجتی ہیں شہنائیاں وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں مگر یہاں یہ ضرب
المثل الٹ گئی جہاں ماتم ہوتے ہیں وہاں شہنائیاں ہی بجتی ہیں۔ قوم کی کشتی
کے ملاح رنگین محفلوں میں بیٹھے فاحشہ عورتوں کے مجرے دیکھ کر اپنی عید کی
خوشیاں دوبالاکرتے رہے۔ بلاتفریق حزب اقتدار اور حزب مخالف ، بشمول وزراء
خواجہ سعد رفیق، جہانگیر ، ڈاکٹر عبدالستار نیم برہنہ گائینوں کے جھرمٹ میں
پاکستان کے قومی نشریاتی ادارے پاکستان ٹیلی ویژن کے زیر اہتمام فواحش کے
پروگرام دیکھتے رہے ۔ گویا کہ وہ قومی صدموں سے دوچار تھے چند گھنٹے فاحشہ
پروگرام دیکھکر اپنے غموں کو غلط کرتے رہے۔
بے حسی کا عالم اس سے بڑھ کر کیا ہوگا کہ ایک طرف ٹی وی پر متدین پاکستانی
فوج کے کرنل اور دوسرے مجاہدین کی شہادت کے مناظردکھائے جارہے ہیں، قانون
نافذ کرنے والے ادارے کے فرض شناس ڈی آئی جی اور دوسرے اہلکاروں کی شہادت
قوم کے دلوں پر صدموں کی بوچھاڑ کررہی ہے اور ادھر ناخدایان قوم نٹوں کے
مخرب الاخلاق، اخلاق باختہ شریعت مطھرہ کے باغی پروگرام منعقد کرکے لطف
اندوزہورہے ہیں جو قوم کے صدموں کو دوچند کررہے ہیں ۔ اسے کہتے ہیں سینے پر
مونگ دلنا۔ ہم نے کتابوں میں ایسے واقعات دشمنان اسلام صلیبیوں کے بارے
پڑھے ہیں کہ جب مسلمانوں پر کوئی مصیبت ہوتی تو انگریز ایسی ناچ گانے کی
محفلیں منعقد کرتے تھے۔ یوم آزادی آگیا۔ ٹی وی پر دکھانے کے لیئے ایک آدھ
مساجد میں قرآن خوانی دکھائی۔ پھر آزادی مادرپدر آزادی، شرم و حیا سے آزادی،
احکامات خدا و رسول سے آزادی کے لچر پروگرام شروع کردیئے گئے۔ قوموی نغموں
کی آڑ میں نوجوان لڑکیاں غیر محرم لڑکوں کی بغل میں ہاتھ ڈالے شرم وحیا سے
کوسوں دوراختلاط مردوزن اور رقص و سرود کی محافل کے انعقادکو قیام پاکستان
کا مرکزی مقصد ظاہر کررہے ہیں۔ تو دوسری طرف امریکہ برطانیہ کے مفادات کے
لیئے کام کرنے والی لڑکی کو ستارہ شجاعت دیا گیا۔ میں قوم کے ان بزرجمہروں
سے سوال کرتا ہوں کہ اس لڑکی کی جاسوسی پر مشتمل ڈائری کیا امریکی اتحادیوں
کو نہیں ملی؟ صرف اتنا بتادو کہ اس لڑکی نے کونسا کارنامہ سرانجام دیا کہ
پاکستان کا شجاعت کا اعلیٰ اعزاز صلیبیوں کی جاسوس کو تم نے دیا۔ ڈی آئی جی
سنبمل شہید کے برابر اسے لاکھڑا کیا ۔ تمہاری عقل پر پردے پڑگئے۔ اگر وہ
لڑکی ہمارے قومی مقاصد کے لیئے کام کررہی ہوتی تو امریکہ برطانیہ تو اسے
دہشت گرد قرار دیتے جیسا کہ اس مظلوم قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی ،خبیث صلیبی
امریکہ کی قید میں ظلم و ستم کی چکی میں زندگی کے لمحات پورے رہی ہے۔ گل
مکئی کے لیئے برطانیہ کا سپیشل جہاز آیا، آنکھوں دیکھا حال نشر کیا گیا ۔
جب اس مہمان خصوصی کو لے کر جہاز برطانیہ کے ایرپورٹ پر اترا تو لائیو
دکھایا گیا۔ کیا کوئی بتاسکتا ہے کہ اتنا اہم ترین اور اعلیٰ ترین پروٹوکول
ایک چودہ سالہ لڑکی کو کن خدمات کے صلہ میں دیا گیا؟ اسے کس نے اور کیوں
گولی ماری گولی کہاں لگی؟ دہشت گردی کے شکار ہونے والے ہمارے کسی کرنل،
جنرل کو برطانیہ یا امریکہ والوں نے اعلیٰ ترین علاج کی سہولیا ت کیا کبھی
عنائت فرمائیں؟ یہ اعزاز ایسا ہی ہے جیسا کہ خلیفہ ہارون الرشید نے ایک
رقاصہ کے گلے میں قیمتی ہار ڈال کر ہاری کی قدرو قیمت ہی ضائع کردی تھی۔
ہماری عورتیں تعلیم حاصل کررہی ہیں ۔ کالجوں، یونیورسٹیوں کے علاوہ ملک کے
طول و عرض میں خواتین کے وہ اعلیٰ تعلیمی ادارے وسیع سطح پر مصروف عمل ہیں
کہ جہاں عالمہ فاضلہ یعنی علوم دینیہ کی فراغت کے ساتھ گریجویشن اور ماسٹر
ز کرایاجاتا ہے۔ ہا ں ان اداروں میں غیر مسلموں کے مفادات کے لیئے جاسوسی
اور یا دہشت گردی کی کاروائیاں نہیں ہوتیں۔ گل مکئی سے اعزاز واپس لے کر
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو دیا جائے جو استقامت اور صبر کی پیکر ہے۔ یہ سب کچھ
تحریر کرنے کے بعد حکمرانوں سے کہوں گا کہ ہوش کے ناخن لو۔ تم اﷲ کا مقابلہ
نہیں کرسکتے ۔ ان مصائب میں سنت رسول اﷲ ﷺ پر عمل کرو ۔ ناچ گانے اور مخرب
الاخلاق محافل کا انعقاد کرنے پرحکما پابندی لگادو۔ایسی اخلاق باختہ محافل
میں جانا تمہیں زیب نہیں دیتا۔ غزوہ بدر میں اﷲ کے حبیب ﷺ نے ناگفتہ بہ
حالات میں صرف اﷲ سے رو رو کرمدد مانگی ۔ تو فتح کا معجزہ رونما ہوا۔ جب
طوفانی بارشوں نے تباہی مچائی تو آپ ﷺ نے اپنے رب سے عافیت طلب فرمائی۔ اﷲ
اور رسول ﷺ کا دامن تھامے بغیر کوئی دستگیری نہیں کرسکتا ۔ اﷲ اور رسول سے
ڈرو۔ ورنہ مصائب میں مزید اضافہ ہوگا اور اگر حکمران یا امراء طبقہ اپنے آپ
کو محفوظ سمجھتا ہے تو وہ سخت غلط فہمی کا شکار ہے۔ دنیا کے موجودہ حالات
ہی سبق آموز ہیں۔ اﷲ تعالی پاکستان اور اہل پاکستان کا محافظ و مددگار
ہے۔پورے پورے اسلام میں داخل ہوجاؤ۔ وہی اپنے حبیب کریم علیہ الصلوۃ
والسلام کے طفیل پاکستان کے عوام پر کرم فرمائے گا۔ آمین ۔ |