بجٹ کی آمد آمد

بجٹ کی آمد آمد ہے۔ ابھی سے جی دہل رہا ہے۔ کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے۔ ٹیکس نیٹ میں شکار کو لانے کے لئے تیاریاں ہو رہی ہیں۔ دوسری جانب عوام کا یہ حال ہے کہ ان کا بال بال ٹیکسوں میں جکڑا ہو ہے۔اشیاء خورد ونوش کی قیمتیں ہیں کہ آسمان پر پہنچی ہوئی ہیں۔ صرف دودھ کو لے لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی ان کی قیمت مقرر نہیں کراسکا۔ دودھ والے دودھ اپنے من مانی قیمتوں پر فروخت کر رہے ہیں۔ گوشت کی قیمت میں بھی کوئی ٹہراﺅ نہیں ہے۔ بجلی کی قیمت میں سبسیڈی ختم ہوجانے کے بعد ۳ روپے فی یونٹ اضافہ ہوجائے گا۔ اب بھی یہی سوچا جا رہا ہے کہ مالیاتی کھاتوں میں بہتری لانے کا واحد طریقہ ٹیکس گزاروں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے یہ خوشخبری سنائی ہے کہ اجناس کی عالمی قیمتوں میں دوبارہ اضافے کے رجحان کے باعث آئندہ مہینوں کے دوران گرانی میں کمی کی توقع نہ رکھی جائے۔ خاص طور پر تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافے کے ملکی گرانی اور بیرونی حسابات کے توازن پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

اپنی سہ ماہی رپورٹ میں بنک نے کہا ہے کہ محاصل کی کمزور کارکردگی اور اخراجات میں اضافے سے مالیاتی خسارے کا ہدف پورا نہ ہونے کا خطرہ ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ترقیاتی اخراجات کو گھٹانا درست نہیں کیونکہ اس سے ملک کے انسانی اور طبعی ڈھانچے پر مضر اثرات مرتب ہوں گے۔ بنک کی تجویز ہے کہ مالیاتی کھاتوں میں پائیدار بہتری لانے کا واحد اور مناسب طریقہ ٹیکس گزاروں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہے تاکہ ٹیکس اور جی ڈی پی کا تناسب بڑھ سکے۔ حکومتی اللے تتللے پر کہا گیا ہے کہ ’جب تک حکومتی مشینری کے سائز میں خاصی کمی نہیں کی جاتی تب تک بے لچک سودی ادائیگیوں اور دفاعی اور سول انتظامی اخراجات کے باعث جاری اخراجات میں قابل ذکر کمی ممکن نہیں۔‘ پاکستان کی عالمی مالی منڈی تک رسائی کی صلاحیت محدود ہے اور رقوم بیرون ملک جانے سے زری پالیسی پر مزید دباؤ پڑے گا۔ اسٹیٹ بینک نے سال کی تیسری سہ ماہی کے دوران مجموعی معاشی صورتحال مزید بہتر ہو نے کی پیش گوئی کی تھی۔ اس سال کی اچھی خبر یہ تھی کہ گندم اور چاول کی ریکارڈ پیداوار کی وجہ سے حالات بہتر ہونے کی توقع ہے۔

رپورٹ میں گورننس کو بہتر بنانے، اداروں کو مضبوط بنانے اور قانون اور نگرانی کے نظام کی اصلاح کے لئے دوسرے دور کی اصلاحات کے نفاذ کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔ گرانی کی اس لہر میں ۵۲ فیصد سے کہیں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ لیکن ہم ابھی تک عوام کو ریلیف دینے میں ناکام رہیں ہیں۔ بجٹ میں عوام کو سہولیات دینے کی ضرورت ہے۔ اس وقت عوام ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ منگائی نے ان کی کمر توڑ دی ہے۔ روٹی کی قیمت پورے ملک میں یکساں نہیں ہے۔ کراچی حیدرآباد میں روٹی ۵ روپے کی ہے تو پنجاب میں ۲ روپے کی اور سرحد اور بلوچستاںن والوں کو تو روٹی کے لئے کیا کیا جتن کرنے پڑ تے ہیں یہ تو کو ئی ان سے جا کر پوچھے۔خیال کیا جا رہا ہے کہ زراعت ٹیکس نہیں لگے گا۔ جبکہ سرویسز سیکٹر پر ٹیکس لگے گا۔ بجٹ ہوں بھی عوام کو تقریر سے سمجھ میں نہیں آتا۔ جب اس کے اثرات گھر کے بجٹ پر پڑتے ہیں تو ہمیں سمجھ آتی ہے کہ بجٹ ہمارے ساتھ کیا ہاتھ کر گیا ہے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387956 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More