دوروز قبل کی خبر کے مطابق پاکستان ریلوے نے 500 نئی
بوگیاں اور 50 نئے انجن خریدنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے وفاقی حکومت نے
انجنوں کے لیے 2 ارب اور بوگیوں کے لیے پہلے مرحلے میں 50 کروڑ کے فنڈز
جاری کر دیے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ریلوے انجنوں کی خریداری پر کل 12 ارب
روپے کی لاگت آئے گی۔مجھے ذاتی طور پر اس خبر سے انتہائی زیادہ خوشی ہوئی
ہے۔کیونکہ اس وقت پاکستان ریلوے کی حالت انتہائی پتلی ہے،آٹھ دس گھنٹے لیٹ
ہونا ٹرینوں کا معمول بن چکا ہے، انتظامیہ کا کہنا ہے یہ سب کچھ انجنوں کی
کمی کی وجہ سے ہے۔ابتدا میں پاکستان ریلوے خاصا منافع بخش محکمہ تھا لیکن
گزشتہ ایک دہائی یا اس سے کچھ زیادہ عرصے سے ریلوے شدید مشکلات میں گھرا
ہوا محکمہ بن چکا ہے۔ اس کے ملازمین کی تعداد80 ہزار سے زائد ہے جب کہ اسے
مالی خسارے سے نکالنے کے لیے حکومت نے کئی ”بیل آﺅٹ“ پیکیج بھی دیے لیکن
محکمے کی اندرونی بدانتظامیوں کی وجہ سے اس کی حالت بہتر نہیں ہو سکی۔ اس
کے مسائل کی وجہ کو حکومت کی عدم توجہ، جدید اور بہتر کارکردگی کے حامل
انجنوں کی قلت سے اور مختلف نوع کی بد عنوانیوں سے منسوب کیا جاتا ہے۔
پاکستان ریلوے کی قابل رحم حالت کا اچھی طرح اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب عید
الفطر کے موقع پر میرا اپنے آبائی علاقہ میں جانا ہوا۔ سفر چونکہ کافی لمبا
تھا اس لیے اپنی سہولت کو دیکھتے ہوئے میں نے سال رواں ہی میں شاندار
افتتاح کرنے والی نجی شعبے کی ریل نائٹ کوچ کا انتخاب کیا۔ اس ریل کے بارے
میں بہت سے لوگوں سے تعریفیں سنی تھیں،اس لیے ہم نے بھی سب سے زیادہ کرایہ
ہونے کے باوجود اسی ریل میں سفر کرنے میں عافیت جانی اور عید سے تین ہفتے
پہلے ہی ٹکٹ بک کروا لیا تھا۔اس بات کی خوشی تھی کہ اچھی ٹرین کا ٹکٹ مل
گیا ہے، جو سولہ، اٹھارہ گھنٹے میں منزل مقصود پر پہنچا دے گی۔ میں نے تین
اگست کو روانگی اور چودہ اگست کو واپسی کا ٹکٹ ایک ساتھ کراچی سے ہی لے لیا
تھا تاکہ بعد میں مشقت نہ ہو۔دفتر سے احتیاطاً تین اگست کی چھٹی بھی لے لی
تاکہ ریل کی روانگی کے وقت سے دیر نہ ہوجائے۔تین اگست کے دن دوپہر بارہ بجے
کے قریب بارش شروع ہوگئی ، ہم نے اسٹیشن جانے کے لے چار بجے سہ پہر کے قریب
ایک رکشا کرائے پر لیا اور تقریبا پانچ بجے اسٹیشن پر پہنچ گئے۔بارش ابھی
تک جاری تھی،نائٹ کوچ کے پلیٹ فارم پر مسافروں کے بیٹھنے کا کوئی انتظام نہ
تھا۔وہاں جاکر پتا چلا کہ ابھی تو اس سے پہلے روانہ ہونے والی کئی ٹرینیں
بھی روانہ نہیں ہوئیں۔ ہم نے عصر کی نماز پڑھی۔اتنی دیر میں چھ بج گئے لیکن
چھ بجے ریل آنے کی بجائے ”باکمال سروس، لاجواب لوگ“ کا سلوگن رکھنے والی اس
ٹرین سروس کی جانب سے اچانک میرے موبائل پر ایک میسج آیا جس میں کہا گیا
تھا کہ شام 6 بجے کینٹ اسٹیشن سے لاہور کے لیے روانہ ہونے والی نائٹ کوچ
ٹرین اپنے مقررہ وقت سے لیٹ ہوچکی ہے لہٰذا گاڑی رات نو بجے روانہ ہوگی۔ ہم
چونکہ روزے سے تھے ، لہذا افطاری کا انتظام کرنے لگے اور ساتھ ساتھ نو بجنے
کا انتظار کرنے لگے۔ہم نے افطاری کی ،مغرب کی نماز پڑھی اور تقریباً دو
گھنٹے کے بعد عشا کی نماز پڑھی۔اللہ اللہ کر کے نوبج گئے لیکن اس وقت ہماری
خوشی خاک میں مل گئی جب ہم نے دفتر سے ٹرین کی روانگی کا وقت معلوم کیا اور
انہوں نے بتایا کہ ٹرین ابھی تک پہنچی ہی نہیں ، لہذا گیارہ بجے سے پہلے
نہیں چل سکتی۔اسٹیشن پر چونکہ مسافروں کے بیٹھے کا کوئی خاص انتظام نہیں ہے
اس لیے لوگ نیچے زمین پر ہی بیٹھے انتظار کر رہے تھے اور ساتھ ساتھ ریلوئے
انتظامیہ کو صلواتیں بھی سنا رہے تھے۔رات گیارہ بجے ایک بار پھر انتظامیہ
سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ٹرین ابھی تک نہیں پہنچی۔مسافروں کے غصے کی
انتہا نہیں تھی کیونکہ وہ شام چھے بجے سے بھی پہلے کے اسٹیشن پر آئے ہوئے
تھے۔ تھکے ماندے مسافر کافی انتظار کے بعدمجبوراً زمین پر ہی لیٹ کر ٹرین
کا انتظار کرنے لگے۔رات کے دو بجے کے قریب پتا چلا کہ نائٹ کوچ اسٹیشن پر
پہنچ چکی ہے ،مسافروں کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ مسافر ریل کے چلنے کا
انتظار کرنے لگے لیکنتین اگست شام چھ بجے روانہ ہونے والی نائٹ کوچ اگلے دن
صبح ساڑھے تین بجے کراچی سے روانہ ہوئی۔سبنے اللہ کا شکر ادا کیا کہ ریل چل
پڑی۔ ٹرین اتنی آہستہ چل رہی تھی کہ ایک گھنٹہ کا سفر چار گھنٹے میں طے
کررہی تھی۔ٹرین نے ہمیں شام چار بجے کے قریب روہڑی پہنچایا۔ابھی گھوٹکی
پہنچے ہی تھے کہ ٹرین کا انجن دم توڑ گیا۔انتظامیہ سے اس بارے میں مسافروں
نے بات کی تو انہوں نے کہا کہ انجن کراچی سے آئے گا تو ریل چلے گی۔اس بات
سے مسافر شدید غصے میں آگئے۔کیونکہ پہلے ہی اتنے زیادہ لیٹ تھے۔مسافروں نے
شدید احتجاج شروع کردیا۔ انتظامیہ اور مسافروں ہاتھا پائی کے بعد مجبوراً
انتظامیہ کو گھوٹکی اسٹیشن پر کھڑا مال گاڑی کا ایک انجن لگا کر ٹرین کو
چلانا پڑا۔ریل آہستہ آہستہ چلتی رہی اور بالآخر اگلے دن صبح ساڑھے پانچ بجے
فیصل آباد اسٹیشن پر پہنچی ۔ویسے فیصل آباد اسٹیشن پر اس کے پہنچنے کا
مقررہ وقت گزشتہ دن صبح دس بجے تھا یہ مقررہ وقت سے صرف انیس گھنٹے دیر سے
فیصل آباد پہنچی تھی۔
واپسی پر بھی مجھے اسی ٹرین میں سفر کرنا تھا کیونکہ میں نے کراچی سے ہی
روانگی کے ساتھ واپسی کا ٹکٹ بھی خرید لیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ ٹرین روز
روز تو ایسا خوار نہیں کرے گی جیسا اس نے ایک بار کیا ہے لیکن میری تما
امیدوں پر واپسی کے موقع پر پانی پھرگیا۔ میں نے ٹرین کی روانگی کے مقررہ
وقت سے تین گھنٹے پہلے ہی ریلوئے انتظامیہ کو فون کے کے روانگی کا وقت
معلوم کرنے کی کوشش شروع کردی تھی۔ ریلوئے انتظامیہ کے جتنے بھی میسر آئے
ان پر فون کیا لیکن کسی نے فون ہی نہ اٹھایا، باالآخر ڈیڑھ گھنٹے کے بعد
فیصل آباد اسٹیشن کی انتظامیہ نے فون اٹھایا اور بتایا کہ نائٹ کوچ ابھی تک
کراچی سے واپس ہی نہیں پہنچی۔ رات گیارہ بجے سے پہلے چلنا ممکن نہیں
ہے۔لاہورریلوے اسٹیشن پر نائٹ کوچ انتظامیہ سے کافی دیر کے بعد رابطہ ہوا
تو انہوں نے کہا کہ ٹرین رات ساڑھے گیارہ کے بعد چلنے کا امکان ہے۔میں
ساڑھے گیارہ بجے فیصل آباد اسٹیشن پر پہنچ گیا۔وہاں جاکر پتا چلا کہ ریل تو
ابھی تک واپس نہیں پہنچی۔کوئی پتا نہیں تھا کہ ٹرین کتنے بجے آئے گی اور
کتنے بجے چلے گی۔انتظامیہ کو بھی معلوم نہیں تھا۔تمام مسافر شدت سے ٹرین کا
انتظار کررہے تھے۔انتظار کرتے کرتے نماز فجر کا وقت آگیا لیکن ریل صاحبہ نہ
آئی۔ساری رات آنکھوں میں گزاری،اذان فجر کے بعد مسجد میں جاکرنماز ادا کی
لیکن ٹرین آکر نہ دی۔بالآخر چودہ اگست شام چھے بجے چلنے والی نائٹ کوچ صبح
ساڑھے پانچ بجے کے بعد فیصل آباد اسٹیشن پر آئی اور ساڑھے چھے بجے روانہ
ہوئی۔ساری رات کے بے حال تھکے ماندے مسافر اس میں جلدی سے بیٹھے گئے۔ ٹرین
انتہائی سست رفتار سے چلنا شروع ہوئی۔کراچی تک ٹرین اپنی اسی رفتار سے چلتی
رہی اور کراچی میں سولہ اگست کی صبح نماز فجر کے قریب پہنچایا۔حالانکہ
کراچی پہنچنے کا اس کا مقررہ وقت پندرہ اگست صبح تقریباً دس بجے کا تھا۔یاد
رہے نائٹ کوچ ایک پرائیوٹ اور پاکستان کی سب سے بہتر ٹرین شمار ہوتی ہے جس
میں کھانے کا انتظام اتنا اچھا نہ سہی لیکن ہے۔ بجلی، پنکھے اور پانی بھی
وقفے وقفے سے میسر آہی جاتا ہے لیکن پاکستان کی سرکاری ٹرینوں میں نہ تو
کہیں پانی میسر آتا ہے اور نہ ہی ٹرین میں لائٹ کا کوئی تصور ہے۔
پاکستان ریلوے اگرچہ خسارے میں جارہا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ ریلوے کو
بحران سے نکالا نہیں جاسکتا،ضرور ت صرف اپنی ترجیحات طے کرنے کی ہے۔اب بھی
اگر اس ادارے پر محنت کی جائے تو یہ ایک انتہائی منافع بخش ادارہ بن سکتا
ہے ۔اگرچہ خواجہ سعد رفیق کے نئے وزیر ریلوے بننے کے بعد کافی بیانات سامنے
آرہے ہیں اور کافی ہلچل بھی دکھائی دے رہی ہے لیکن کوئی بڑی تبدیلی نظر
نہیں آرہی۔ وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے اپنا چارج سنبھالنے کے فوری بعد
ہی یہ اعلان کیا تھا کہ پاکستان ریلوے کو ایک کارپوریشن میں تبدیل کردیا
جائے گا اور اس کو ایک خودمختار بورڈ چلایا کرے گا۔حالانکہ ریلوے بو رڈ کے
قیام کی تجویز پہلی مرتبہ سامنے نہیں آئی تھی۔اس سے قبل 2005ءمیں وزیر
مملکت اسحاق خان خاکوانی نے ایک خودمختار ریلوے بورڈ کے قیام کے لیے آواز ا
±ٹھائی تھی۔ ا ±ن کے بعد پاکستان ریلوے کے چار ریٹائرڈ پرنسپل آفیسروں نے
2011 میں خاکوانی کی تجویز کی حمایت کی تھی۔پاکستان ریلوے کے چار ریٹائیرڈ
پرنسپل انجینئروں نے 2011ءکے دوران ایک رپورٹ میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ
پرانے تنظیمی ڈھانچے کو بدل کر ایک ریلوے بورڈ قائم کیا جائے۔ اس سب کچھ کے
باوجود کوئی ریلوے کے محکمے میں بہتری ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔رہی سہی کسر
اب آئے دن ٹرینوں پر ہونے والے قاتلانہ حملوں نے پوری کردی ہے۔چند دنوں میں
متعدد ٹرینوں پر ہونے والے حملوں میں کئی افراد مارے گئے اور بہت سے زخمی
بھی ہوچکے ہیں۔حکومت کو سوچنا چاہیے کہ عوام کی اکثریت ہمیشہ سے لمبا سفر
ٹرینوں میں کرنے کو ترجیح دیتی آئی ہے،اس کے پیش نظر اس ادارے کو مستحکم و
مضبوط بنانے کے لیے فوری اور مثبت اقدامات کرنے ضرورت ہے۔ |