ایسے حالات میں جب ان کے پیچھے
عسکریت پسند لگے ہو اور موقع ملنے پر انہیں ہلاک کرنے سے بھی دریغ نہیں
کرتے وہ اپنے ساتھیوں سمیت روزانہ صبح آٹھ بجے گھر سے نکل آتا ہے اور تین
بجے تک وہ روزانہ اپنے مخصوص سٹاپ پرڈیوٹی انجام دیتا ہے بغیر اس خوف اور
ڈر کے اسے کوئی فائرنگ کرکے قتل کردے گا یہی صورتحال اس کے دیگر ساتھیوں کی
بھی ہے وہ اپنے مخصوص علاقے میں کھڑے رہتے ہیں اور مسافروں کو دیکھ کر ان
کے پاس جا کر اپنی ڈیوٹی پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ ان لوگوں کی
مجبوریاں ہیں کچھ گھریلو ذمہ داریوں کا شکار ہیں اور کچھ پیٹ کی خاطریہ سخت
ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں سرکار کے کھاتے میں ان کی جتنی ڈیوٹی لگی ہوئی ہیں
اس سے کبھی کبھارر وہ دو گھنٹے زیادہ بھی کرلیتے ہیں لیکن بدقسمتی ان کی
یہی ہے کہ گذشتہ تین ماہ سے انہیں تنخواہ بھی نہیں ملی اس کے ساتھ ان کے
ڈیپارٹمنٹ میں کچھ ایسے حرام خور بھی شامل ہیں جو ان کی تنخواہیں کمیشن کی
مد میں کاٹ لیتے ہیں اور ان غریب مزدوروں کو آدھی تنخواہ دیتے ہیں حالانکہ
یہی حرام خور جب میڈیا کی ٹیموں کی سامنے اپنی بکواس شروع کرتے ہیں توایسا
لگتا ہے کہ جیسے ان سے صاف و شفاف اور ولی اللہ کوئی اور نہیں اور ا ن کے
دامن نماز وں کیلئے صاف ہیں-
گدھوں کی طرح کام کرنے والے یہ مزدور ای پی آئی کے فیلڈ میں کام کرنے والے
اہلکار ہیں جنہیں ڈیپارٹمنٹ نے مختلف جگہوںپر تعینات کیا ہے اور ان سے آٹھ
سے دس گھنٹے روزانہ ڈیوٹی سمیت اتوار کے روز بھی ڈیوٹی لی جاتی ہیں ان غریب
ملازمین کی مہینے بھر کی تنخواہ ساڑھے سات ہزار روپے ہیں لیکن مجال ہے کہ
یہ غریب لوگ کبھی ساڑھے تین ہزار اور چار ہزار سے زائد کبھی گھر لیکر گئے
ہوں کیونکہ دفاتر میں بیٹھ کر ان غریبوں پر بدمعاشی کرنے والے حرام خور
افسران سمجھتے ہیں کہ فیلڈ میں کام کرنا آسان ہے اور ان سے آدھی تنخواہ کاٹ
لینا ان کا فرض عین ہے مزے کی بات تو یہ ہے کہ ان سے گیارہ مئی کے دن کی
تنخواہ بھی کاٹ لی گئی کیونکہ بقول ان کے افسران کے تم لوگ ڈیوٹی پر نہیں
آئے تھے حالانکہ ا س دن مملکت خداداد میں "جمہوریت جمہوریت"کا ڈرامہ چل رہا
تھا اور اس دن سرکار کی چھٹی تھی لیکن خیبر پختونخوار میں کام کرنے والے ای
پی آئی فیلڈ سٹاف سے اس روز کی تنخواہیں کاٹ لی گئیں-ان حالات میں اگر کوئی
غریب فیلڈ ورکرمعاشی بدحالی کا شکار ہو کر ڈیوٹی انجام دنہ دے یا کوئی حرام
خور ی کی طرف جائے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا-یہاں پر حضرت شاہ ولی اللہ
رحمہ علیہ کی معاشی بدحالی کے حوالے سے ایک بات یاد آرہی ہے جس میں کہا گیا
ہے کہ انسانی اعمال کے دو بڑے محرک ہوتے ہیں ایک آدمی کے دل میں پیدا
ہونیوالے مختلف خیالا ت جو مختلف مراحل پر انسان کے نفس و قلب میں اٹھتے
ہیں اور ان خیالات کے پیدا ہونے کا سبب ہے جبکہ دوسرا محرک انسانوں کے تباہ
شدہ معاشی حالات ہیں جو انسانوں کو اپنے گھیرائو میں لے لیتے ہیں بقول حضرت
شاہ ولی اللہ رحمہ علیہ کے " اخلاق علوم کے ذریعے پیدا نہیں ہوتے بلکہ ان
حالات میں پیدا ہوتے ہیں جن میں انسان زندگی بسر کرتا ہے " یہ ممکن ہے کہ
کچھ لوگ اتنے بلند اور پختہ اخلاق کے مالک ہوں کہ وہ معاشی بدحالی سے متاثر
نہ ہوں لیکن ان کے اخلاق پر معاشی بدحالی کا اثر ضرور پڑتا ہے یہی سبب ہے
کہ قرآن بھی انسانی اصلاح و فلاح کیلئے ریاست کے معاشی نظام بہتر بنانے کو
ضروری قرار دیتا ہے-
بین الاقوامی امدادی اداروں سے اربوں روپے ڈکارنے کیلئے خیبر پختونخواہ میں
پولیوکیلئے علیحدہ ڈیپارٹمنٹ قائم کیا گیا ہے جس میں کام تو ہوتانظر نہیں
آتا لیکن پیداگیری کی یہاں تک صورتحال تک پہنچ گئی ہیں کہ کاغذوں میں ای پی
آئی ورکرز کوہاٹ اڈہ میںدس بتائے جاتے ہیں لیکن فیلڈ میں کام کرنے والے صرف
پانچ اہلکار دکھائی دیتے ہیںاور بقایا پانچ اہلکاروں کی تنخواہیں چچا
بھتیجے کی جیب میں جاتی ہیں-یہ صرف ایک کوہاٹ روڈ اڈے میں کام کرنے والے ای
پی آئی اہلکاروں کا حال ہے ایسے کتنے سائٹس ہونگے جہاں پر ای پی آئی ورکرز
ہونگے ہی نہیں لیکن محکمے کے کاغذات میں اہلکار ڈیوٹی انجام دیتے ہونگے اور
انکی تنخواہیںبھی ریلیز ہوتی ہونگی اور یہ تنخواہیں مخصوص لوگوںکے جیبوں
میں جاتی ہونگی -
کہتے ہیں کہ پختو ن کمینہ نہیں ہوتا لیکن اگر ایک مرتبہ کمینگی پر اتر آئے
تو اس سے بڑا کمینہ پھر کوئی ہو نہیں سکتا -ایک مخصوص قبیلے سے تعلق رکھنے
والے افراد ہی اسی محکمے پر مسلط ہیں اسی ڈیپارٹمنٹ اور قبیلے سے تعلق
رکھنے والے ایک شخص نے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی جاسوسی کی جس کی
تصدیق امریکی میڈیا بھی کر چکا ہے کہ اس نے پیسوں کی عوض جعلی پولیو مہم
چلائی اسی ایک شخص کی وجہ سے صوبے میں پولیو مہم کو اب اتنانقصان پہنچ رہا
ہے کہ کوئی اپنے بچوں کو پولیو پلانے پر تیار ہی نہیں ان حالات میںاگر
پولیو پلانے کی ڈیوٹی انجام دے اور انہیں تنخواہیں نہ ملے اور متاثر
ہونیوالے افراد اپنے ساتھ ہونیوالی زیادتی پرآواز اٹھائے تو پھر انہیں بغیر
کسی چارج شیٹ کے چچا بھتیجا نوکری سے برخاست کرے اورتین سال سے ڈیوٹی انجام
دینے والے اہلکاروں کو یہ کہہ دیا جائے کہ میڈیا سے بات کرنے کی سزا یہ ہے
کہ اب ڈیوٹی پر آنے کی ضرورت نہیں یہ متاثر ہونیوالے افراد کیساتھ کیسا اور
کہاں کا انصاف ہے اور یہ اس صوبے میں تبدیلی کے دعویداروں کیلئے بھی بڑا
چیلنج ہے کہ ایک عام آدمی جس کی روزی روٹی کا ذریعہ بھی ایک سرکاری نوکری
ہو اور اسے اس بات پر لات مار کر نکال دیا جائے کہ اس نے اپنے ساتھ
ہونیوالی زیادتی پر میڈیا سے بات کیوں کی -کیا اس غریب آدمی کیلئے کوئی
آواز اٹھائے گا- دوسری طرف اس ڈیپارٹمنٹ کی کارکردگی کا یہ حال ہے کہ رواں
سال پولیو سے متاثرہ بچوں کی تعداد 24 تک پہنچ گئی ہیں اسی ادارے کی جانب
سے جاری رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ تعداپولیو کے متاثرہ فاٹا کی ہے جہاں
پولیو سے متاثرہ بچوں کی تعداد 14 ہے، دوسرے نمبر پر خیبر پختونخوا میں ہیں
جس میں پولیو سے متاثرہ بچوں کی تعداد 5 تک پہنچ گئی ہیں- |