عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی
جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری
عمل اور نیت ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ۔جہاں عمل اپنے انجام کو پہنچتا
ہے وہاں پر کوئی نہ کوئی نیت بھی ضرور ہوتی ہے۔نیت ابن آدم عمل سے پہلے
کرتا ۔نیت سے پہلے بھی کچھ کیا جاتا ہے اور اسے سوچ کہتے ہیں۔سو چ سے پہلے
ہم صرف خیال کرتے ہیں۔ آدم کا بیٹے کے ذہن میں پہلے خیا ل آتا ہے۔ پھر خیال
سوچ میں بدل جاتا ہے۔ سوچ کو عمل تک پہنچانے کے لئے انسان تگ و دو اور جد
جہد کرنا شروع کر دیتا ہے۔اور اگر وہ اپنے خیال پر ایک لمبے عرصے تک ڈٹا
رہے اور سختی سے ڈٹا رہے تو آخر کا ر وہ اسے حاصل کر لیتا ہے۔
حدیث میں ارشاد ہوتا ہے:
انمااعمال بالنیات
عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے عمل ہمیشہ اچھی نیت سے پایہء تکمیل تک
پہنچائیں۔تا کہ اس ہمارا پروردگار خوش ہو جائے ۔ کیو نکہ
جے رب راضی فیر جگ راضی
ہم کوئی بھی عمل کریں اس کے لئے خالص نیت ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر نیت خالص
نہیں تو عمل کا کوئی فائد ہ نہیں ہے۔ اگر ہم حالا ت حاضرہ پر نظر دوڑائیں
تو پتہ چلتا ہے کہ ہم کوئی بھی کام خالص نیت سے نہیں کرتے بلکہ صر ف اور
صرف تعلق،واسطے یا دکھاوے کے لئے ہی کرتے ہیں۔
ایک واقعہ سنا کرتے تھے۔ کہ ایک دفعہ کسی امام صاحب نے غلطی سے چار رکعات
کی بجائے تین رکعات نماز ادا کروا دی۔تو سلام کے بعد ایک صاحب اٹھ کھڑے
ہوئے اور کہا ۔امام صاحب خیر تو ہے آج آپ نے صر ف تین رکعت نماز اد ا
کروائی ہے۔ تو امام صاحب نے کہا کہ نہیں میں نے تو چار رکعات ہی ادا کروائی
ہیں۔ تو اس صاحب نے بڑی معصومیت سے جواب دیا : جنا ب میر ی چار دکانیں ہیں
اور ہر رکعت میں ،میں ایک دکان کا حساب کرتا ہوں آج صرف تین دکانوں کا حساب
ہی ہوا ہے۔
کہنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ اس نیت سے اس شخص کو نماز کا کوئی ثواب نہیں
ملا ۔لیکن اگر اس کی نیت اﷲ کو خوش کرنے کی ہو تی اور پورے خوش و غضو سے
نماز ادا کرتا تو اﷲ اسے بہت ثواب دیتا۔
میں جو سر بسجدہ ہو ا کبھی تو زمیں سے آنے لگی یہ صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
آجکل کے زمانے میں ہمیں جگہ جگہ ایسے لوگ ملتے ہیں جو دوسروں پر احساں کر
کے اسے ساری زندگی جتا تے رہتے ہیں۔ کہ میں نے تیر ا فلاں کام کیا اس سے
احساں کرنے والے کا ثواب جاتا رہتا ہے۔اور اسے قیامت والے دن بھی کوئی اجر
نہ ملے گا۔
دنیا تے جو کم نہ آیا اوکھے سوکھے ویلے
اوس بے فیضے سنگی کولوں بہتر یا ر اکیلے
اب نیت کو ہی لے لیں اگر کوئی آدمی سڑک پر سے گزر رہا ہو تو راستے میں پتھر
پڑا ہوا ہو تو اگر اس کی نیت یہ ہے کہ لوگ کہیں گے کتنا اچھا انسا ن ہے
راستے سے پتھر ایک طرف کردیا تو اسے اس کا کوئی ثواب نہیں لیکن اگر نیت یہ
ہے کہ اس پتھر سے میرا کوئی بھائی ٹکر اکر گر نہ جائے تو لوگ بھی تعریف
کریں گے اور ثواب بھی ملے گا۔
اﷲ سے دعا ہے کہ اﷲ ہماری نیتوں کو خالص بنائے اور ہمیں اس دنیا اور اس سے
اگلے جہا ں میں کامیاب و کامراں کرے (آمین)
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر |