بسم اﷲ الرحمن الرحیم
(Raksha Bandhan Festival)
( 21اگست:ہندؤوں کے مذہبی تہوار کے موقع پر خصوصی تحریر)
’’رخشا بندھن‘‘،ہندومت کے اس تہوار میں بہنیں اپنے بھائیوں کی کلائی پر ایک مقدس
دھاگہ باندھتی ہیں جو استعاراََپیارومحبت کے عہدوپیمان کی تجدیدنوہوتی ہے۔اس تہوار
کے متعدد نام ہیں،’’وشتوراک‘‘اس کا دوسرانام ہے جس کا مفہوم کینہ و دشمنی کا خاتمہ
ہے،اس تہوار کا ایک اور نام ’’پونیاپرادیاک‘‘بھی ہے جس سے مرادبخشش،معافی اور
درگزرکی فراوانی ہے اور اس تہوار کو’’پاپ نشاک‘‘بھی کہاجاتا ہے جس سے گناہوں کا ختم
کنندہ تصور کیاجاناہے۔یہ تہوارہندو کیلنڈر کے پانچویں مہینے ’’شراوانا‘‘کی اس رات
کو منایا جاتا ہے جب چاند اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ آسمان پر جلوہ افروز ہوتاہے
،نیپال میں اس مہینے کانام ’’آدی‘‘ہے اور نیپال کے مقامی کیلنڈر میں بھی سال میں
پانچویں نمبر پر یہ مہینہ وارد ہوتاہے۔ہندؤں میں یہ مہینہ بہت مقدس خیال کیا جاتا
ہے کیونکہ اس مہینے کی پانچویں تاریخ کو سانپ کی پوجا کا تہوار منایا جاتاہے،آٹھویں
تاریخ کو کرشنا کا یوم پیدائش کا جشن ہوتا ہے مکمل چاند کی رات کاانتظاررخشا بندھن
کے لیے کیاجاتا ہے جب کہ اس مہینے کا آخری دن بیل کی پوجا کے لیے مخصوص ہے اور یہ
کل مہینہ بارشوں کے موسم کے باعث بھی ہندو مذہب سمیت کھیتوں اور کھلیانوں کے اس
برصغیرمیں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔
اس تہوار کے ساتھ متعدد ہندو روایات منسوب ہیں جو اس دن کے منانے کی وجہ جواز
بتلائے جاتے ہیں۔قدیم ترین کہاتوں کے مطابق ’’اندرانی‘‘جو راجہ اندرکی بیوی تھی اس
نے شیاطین اور دیوتاؤں کی جنگ میں جہاں شیاطین کو فتح حاصل ہو رہی تھی اپنے خداؤں
سے راجہ اندر کی فتح کی دعا کی تھی اور نشانی کے طور پر ایک دھاگہ نما تعویزراجہ کی
کلائی پر باندھا،تب سے محبت کا دھاگہ باندھنے کی رسم چل نکلی جو آج ایک تہوار کی
شکل اختیارکر چکی ہے۔’’اندرانی‘‘جس کا اصل نام ’’شاچی دیوی‘‘ہے یہ غصہ اور غضب کی
دیوی مانی جاتی ہے اور ہندومت کی سات بڑی بڑی دیویوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ماضی
قریب کی ایک اور داستان کے مطابق بیوہ رانی ’’کرماوتی‘‘(م ۔1535)جو شمال مغربی
ہندوستای علاقے راجھستان کی ایک ریاست ’’بنندی‘‘پر حکمران تھی اورشوہرکی وفات کے
بعد اپنے بیٹے کے نام پر حکومت کررہی تھی ،جب دشمنوں میں گھر گئی تو اس نے وقت کے
مغل حکمران ’’نصیرالدین ہمایوں ‘‘کو دہلی میں اپنی محبت کا دھاگہ بھیجاجس کی قدر
کرتے ہوئے شہنشاہ ہندوستان کی افواج اس خاتون ہندوحکمران کی مدد کو بھیجی گئیں۔یہ
افواج عین اس وقت پہنچیں جب رانی اپنا پائی تخت’’میوار‘‘چھوڑکر فرارہواچاہتی تھی
چنانچہ مغل افواج نے اس رانی کے دشمنوں کو شکست دی اور اس کی حکومت کو بحال کیا،پس
اس رسم کی یاد میں بھی یہ ’’رخشا بندھن‘‘کا تہوار منایا جاتا ہے۔میدان جنگ سے جنم
لینے والی یہ رسم تاریخ کے طویل سفر کے بعد بہن بھائیوں کے درمیان پیارومحبت کے
احیاکا تہوار بن گیا۔ہندو مذہبی کتب میں ان کے علاوہ بھی بہت سی فرضی داستانیں ملتی
ہیں جن میں ہندو خواتین اپنے حفظ و امان کے لیے ماضی میں گزرے ہوئے فرضی مردان جنگی
وجوانمردوں کے نام رخشا باندھاکرتی تھیں اور اس رسم کے ذریعے ہندوستان کی عورت
گویاسماج سے پناہ چاہتی تھی۔
یہ داستانیں کس حد تک صحیح ہیں ؟؟یہ تو اﷲ تعالی ہی بہتر جانتا ہے تاہم یہ ایک
حقیقت ہے کہ ہندوانہ رسوم ورواج اورمذہبی کتب میں عورت کو جس طرح ظلم و ستم
اورجبروتشددکا نشانہ بنایا گیاہے شاید اس کی کوئی مثال تاریخ انسانی سمیت کسی اور
مقدس مسودے میں نہ مل سکے۔ہندووانہ تہذیب و تمدن میں عورت پر ڈھائے جانے والے ظلم
مسلسل کے خلاف صنف نازک کا یہ منت و سماجت والا رویہ بلآخرایک تہوار کی شکل
اختیارکرگیاجب عورت اپنے بھائی سے اپنے تحفظ کا خودساختہ عہدوپیمان لیتی ہے۔ہندؤں
کی مقدس کتب اگراپنی اصلی زبان اورحقیقی حالت میں موجود ہوتیں تو شاید عورت اس
معاشرے میں اس بدترین انجام تک نہ پہنچتی،لیکن مذہبی پروہتوں کی حوس زرنے انسانیت
کے اس کمزور کردار کو چھلنی چھلنی کر دیا۔ مقدس صحائف میں تحریف اس حد تک درآئی کہ
عورت کی جانچ کا پیمانہ اس کی صورت و سیرت اور تعلیم و تربیت کی بجائے اس کے جہیزسے
لگایاجانے لگااور برہمنی ذہنیت نے شوہر کے بعد بیوہ کا حق زندگی ماننے سے انکار کر
دیااورسونے سے لدی پھندی اوردلہن بنی بیوہ کو شوہر کی چتاکے ساتھ ستی کردینے کا حکم
دیااور اسکی پگھلے ہوئے سونے سے بھری راکھ کے بارے میں حکم دیا کہ اسے پروہت کے
آستھانے پر پہنچادیاجائے مطلب صاف واضع ہے۔عقد ثانی،وراثت،حق ملکیت اوردیگر سیاسی و
سماجی حقوق تودورکی بات ہے،اس ہندوانہ معاشرے میں تو جوئے میں ہار دئے جانے والی
عورت کی نسبت گائے بھینس کی قدر کہیں زیادہ ہے۔اس پس منظرمیں عورت کو اپنے تحفظ کے
لیے کسی تہوارکی ضرورت بجاطورپرثابت تھی جس کی کمی ’’رخشابندھن‘‘نے پوری کر دی
حالانکہ جن کہاوتوں سے اس کا جوازتلاش کیاگیاہے ان کو سچ بھی مان لیاجائے تو بھی ان
میں کسی بہن نے بھائی کی کلائی پر محض پیارومحبت کی خاطر دھاگہ نہیں باندھا تھابلکہ
خالصتاََجنگی جنون سے خوفزدگی اس عمل کی وجہ بنی ۔
’’رخشا بندھن‘‘کے منانے کا طریقہ یہ ہے کہ علی الصبح اشنان کیاجاتاہے یعنی نہادھوکر
صاف ستھراہوا جاتاہے ،نیالباس زیب تن کیاجاتاہے،پھر دیوتاؤں کی پوجاکی جاتی ہے،اس
دوران ’’راکھی‘‘کی بھی پوجاکی جاتی ہے اور اس پوجا میں اپنے گزشتہ بزرگوں کے لیے
دست دعا دراز کیاجاتاہے اوردیوتاسے ان کے پاپ کی بخشش مانگی جاتی ہے۔’’راکھی‘‘اگرچہ
بازاروں سے بکثرت مل جاتے ہیں جو دھاگوں سے ہی بنائے گئے ہوتے ہیں تاہم مذہبی
ہدایات کے مطابق راکھی کی تیاری میں عمدہ دھاگہ استعمال کیا جانا چاہیے اور اس میں
سونا،زعفران ،ریشم یا صندل سمیت دیگر قیمتی ترین اشیا کا استعمال پسندیدہ خیال کیا
جاتاہے۔’’رخشا‘‘کی پوجا کسی بھی وقت کی جا سکتی ہے لیکن دھیان اور گیان کے ساتھ
تاکہ بھگوان سے نروان کا حصول ممکن ہو سکے۔’’رخشا‘‘کی پوجا پاٹ کے بعد اب اس کے
’’بندھن‘‘کا مرحلہ آتا ہے چنانچہ پہلے بھائی کے ماتھے پر ٹیکہ لگایا جاتا ہے اور
اسے لکڑی کے ایک اسٹول پر براجمان کیاجاتاہے ،بہن اس کے سامنے کھڑی ہوتی ہے ،اسکی
آنکھوں میں آنکھیں ڈالتی ہے ،پھر اس کے دائیں ہاتھ کی کلائی پر اس ’’رخشا‘‘کو باندھ
کر’’رخشابندھن‘‘کی رسم پوری کر لی جا تی ہے،آخر میں گھی کا چراغ جلاکر بھائی کے
چہرے کے سامنے گھمایاجاتاہے۔بہن کے اس لمبے چوڑے تردد کے بعد ہندومذہب بھائی کو
ہدایت کرتاہے کہ وہ بہن کے سامنے اسکے تحفظ کے لیے خداسے محض دعامانگ لے،اور بہن کو
بھی مذہب کی طرف سے یہ ہدایت ہے کہ وہ بھائی سے کسی تحفے کی امید نہ رکھے اوراگر وہ
کسی تحفے کی لالچ میں یہ خدمت کرے گی تو مذہبی تعلیمات کے مطابق اسے روحانی برکات
سے محرومی کا سامنا کرنا پڑے گاکیونکہ کرشنا جی کی ایک بار جب انگلی کٹ گئی تو وہ
اپنی بہن ’’دروبادی‘‘کے پاس گئے ،بہن جی نے اپنی قیمتی ساڑھی کا پلو پھاڑ کر اپنے
بھائی کی انگلی پر باندھ دیا،پس اس سے ثابت ہوا کہ بہن کو کسی خدمت کا عوض چاہنے کی
اجازت نہیں ہے۔تاہم فی زمانہ پھر بھی کچھ بھائی شرم کے مارے بہن کو تحفے تحائف پیش
کر ہی دیتے ہیں۔ ہندومذہب کے مطابق راکھی اتار دینے کے بعد بھی خوش بختی کا استعارہ
رہتاہے چنانچہ ’’رخشا‘‘کواتار دینے کے بعد بھی اسے اپنے گھر،دفتر یا دکان کے کسی
کونے میں رکھ لیاجاتا ہے۔ہندوکتب میں بڑی تفصیل کے ساتھ درج ہے کہ کس کس طرح کی خوش
شگونی کے لیے اس دھاگے کو کس کس سمت میں کیسے کیسے رکھاجائے تو کیاکیا مرادیں
برلائی جا سکتی ہیں،پس جو افراد جس محرومی کا شکار ہوتے ہیں وہ اس دھاگے سے اپنی اس
محرومی کااسی طرح کاازالہ کر نا چاہتے ہیں۔
کتنی عجیب بات ہے کہ کلائی پر باندھا گیاایک دھاگا نہ صرف عبادت کا مستحق ٹہرابلکہ
انسان کے نفع اونقصان کا مالک بھی بن بیٹھا،اکیسویں صدی کی دہلیزپر چکاچوند روشنیوں
اور علوم و معارف کی آماجگاہ اس کرہ ارض پر شرک و توہم پرستی کی یہ انتہا،الامان و
الحفیظ و العیاذباﷲ۔جب خالق کی بجائے مخلوق ہی مخلوق کے لیے قوانین مرتب کرے گی تو
جس طبقے کے ہاتھ میں اختیارات ہوں گے وہ طبقہ سب سے پہلے اپنی اور اپنی نسلوں کواس
قانون سے بالاتر ومستثنی قراردے گا۔ہندوروایات اس تاریخی حقیقت کی بہت بڑی آئینہ
دار ہیں۔اسی پیش نظر تہوارکوہی دیکھ لیاجائے تو عورت کے تحفظ کی خاطر اتنا ساراجال
بھی شاید اسی لیے بناگیاکہ بھائی کا مفادتلاش کیاجاسکے اور بہن کے سینے سے یہ خواہش
ہی ختم کر دی جائے کہ اسے بھائی سے خوشی کے اس موقعے پر ہی شاید کچھ میسر
آجائے،گویا اس نسوانی تہوار میں بھی عورت کے لیے سوائے استحصال اورمحرومی کے کچھ
نہیں ہے کہ مردوں کی خوشامد کرکر کے ہی خوش ہو جایاکرے اور بس۔اس کے ردعمل میں
دوسری طرف سیکولرازم نے عورت کے بارے جو قانون سازی کی ہے توگویا عورت کوجنس
بازارہی بناڈالاہے جہاں صباح و مساء اس کا نیلام عام جاری ہے۔جبکہ خاتم النبیینﷺ نے
عورت کے مختلف کرداروں کے بارے میں جو جو قانون پیش کیاہے ،باہمی تقابل سے یہ بات
عیاں ہو جاتی ہے کہ یہ قانون کسی ایک انسان کی سوچ یا انسانوں کے کسی گروہ کی
فکرکانتیجہ نہیں ہو سکتابلکہ یہ خالصتاََآفاقی قانون ہے ۔خاتم النبیین ﷺصرف محسن
انسانیت ہی نہیں ہیں بلکہ انسانیت کے سواداعظم عالم نسوانیت کے بھی محسن اعظم ہیں
کہ جنت جیسی عظیم ترین نعمت بھی آپ ﷺ نے عورت قدموں میں ڈھیرکر دی ہے۔ |